بچوں سے وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ نئے نئے الفاظ اور ان کے معنی پر دھیان دو۔روزانہ انگریزی اور عربی کے اخبار پڑھو۔ ٹی وی یا ریڈیو پر انگریزی اور عربی خبریں سنو۔جو نئے الفاظ پردۂ سماعت سے ٹکرائیںان کے معنی یاد کرلیا کرو۔یہ اس زمانے کی بات ہے جب نہ تو ہر گھرمیں ٹی وی ہوتا تھا۔ نہ ہر کس و ناکس کو عربی اخبار میسر تھے۔ کبھی کوئی سینئراستاد کسی عرب ایمبسی سے یا کسی عرب شیخ سے عربی اخبار حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا تویہ معجزہ ہی ہوتا تھا۔آج کے زمانے میں انٹر نیٹ اور یو ٹیوب نے ساری مشکل حل کردی ہے۔ عالم عرب کے اخبارات اور عرب وعجم کے ٹی وی چینل انگلیوں کی گرفت میں سمٹ گئے ہیں۔اب وہ معذرت قابل قبول نہیں کہ عجم میں بیٹھ کر عربوں سے استفادہ ممکن نہیں۔ عجمیوں کے لیے عربوں کی طرح لکھنے اور بولنے کی استطاعت کا تصور مشکل ہے۔مجھے یاد ہے فینان صاحب نے بتایا کہ وہ آج بھی نئے نئے الفاظ کے معنی یاد کرنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس وقت ان کے پاس گاڑی نہیں تھی۔ انہوں نے بتایاکہ وہ کاغذ پر نئے نئے الفاظ اور ان کے معنی لکھ کر رکھ لیتے ہیں۔ جب کہیں جانے کے لیے بس اسٹاپ پر بس کا انتظار کرتے ہیں یا بس میں بیٹھے ہوتے ہیں یا رکشے سے کہیں جاتے ہیں تو اپنی جیب سے کاغذ کا وہی ٹکڑا نکال کر نئے نئے الفاظ کے معنی زبان زد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔وہ اکثر کہتے تھے کہ کلاس آتے جاتے ،بسوں میں بیٹھ کر سڑک کے آس پاس کے پیڑ پودوں کو دیکھ کر کیا ملتا ہے۔ وہی سڑکیں اور وہی گھسے پٹے منظر جن کودیکھنے کے بجائے اپنی کاپی یا کاغذ نکال کر نئے نئے الفاظ یا اشعار یاد کیا کرو۔ انہوں نے بتایا کہ ڈی ٹی سی کی بسوں میں آتے جاتے انھوں نے عربی کے ہزاروں اشعار یاد کیے ہیں۔ان کی اس سنت پر بہت سارے طلبہ عمل بھی کرتے تھے۔ خود میں نے بھی نئے نئے لفظ ومعنی کی کاپیاں بنائی ہوئی تھیں۔ الگ الگ کاغذوں پر نئے نئے الفاظ لکھ کر انہیں یاد کرنے کا اہتمام کرتے تھے۔بس اسٹاپ پر بھی اور بسوں میں بھی۔
پروفیسر فینان صاحب عربی کے مشہور اسکالر پروفیسر خورشید احمد فارق کے صاحبزادے ہیں۔ فارق صاحب خود عربی کے بہت بڑے اسکالر اور عالم تھے اور دہلی یونیورسٹی میں عربی شعبے کے پہلے صدر بھی ۔ انہوں نے بہت ساری قابل ذکر کتابیں لکھیں ہیں جن میں ’’جائزے‘‘ ان کی معرکۃ الآراء تالیف ہے اور بارہ چودہ جلدوں پر مشتمل ہے۔ میں نے فینان صاحب سے پوچھا کہ آپ نے عربی کی تعلیم کیوں حاصل کی۔ عربی کے علاوہ کسی اور سبجکٹ میں جاسکتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میری انگریزی بہت اچھی تھی ۔ گویامجھے انگریزی پر عبور حاصل تھا۔ والد صاحب نے کہا تمہاری انگریزی اچھی ہے لہذا اگر عربی پر عبور حاصل کرلو گے تو بہت اچھے ٹرانسلیٹر بن جاؤ گے۔ لہٰذا انہوں نے دہلی یونیورسٹی میں ایم اے عربی میں ان کا داخلہ کرادیا۔ فینان صاحب نے عربی سے ایم اے کیا اور عربی زبان پر اتنی جانکاہی سے محنت کی کہ اس پر انہیں عبور حاصل ہوگیا اور وہ پورے ملک کے جانے مانے ٹرانسلیٹر اور انٹر پریٹر بن گئے۔فلسطینی صدرمرحوم یاسر عرفات ایک مرتبہ جب دہلی آئے تو پروفیسر فینان نے ہی ان کی تقریر کی ترجمانی کی تھی۔ ان کی ترجمانی سے فلسطینی صدر بہت متاثر ہوئے اور ان کی بہت تعریف کی۔ یعنی یہ ان کے لیے کسی Achievement سے کم نہیں تھا۔ اس بات کا وہ اکثر ذکر کیا کرتے تھے ،فخر کرتے تھے اور خوش ہوتے تھے۔ کیوں نہ ہو یہ خوشی کا مقام تھا ہی۔
پروفیسر فینان صاحب نے شعبے کی صدارت کبھی قبول نہیں کی۔ جب بھی ان کی باری آئی تو ان کا لیٹر پہلے ہی سے تیار رہا اور انھوں نے انتظامیہ کو لکھ کر بھیج دیاکہ مجھے اس میں دلچسپی نہیں ہے۔ میں نے ایک مرتبہ ان سے پوچھا کہ آپ صدر شعبہ کیوں نہیں بننا چاہتے ؟ تو انہوں نے اس پر ایک لمبا لیکچر دے دیا۔ کہنے لگے میں صدر شعبہ بن کر کیا کروںگا۔ بچوں کے آئی کارڈ پر دستخط؟ ایسی صدارت سے کیا فائدہ؟ پھر انہوں نے تفصیل سے بتایا کہ صدر شعبہ کے فرائض کیا ہوتے ہیں۔ اسے کیاکیا کرنا چاہیے۔ اسے اختیارات بھی ہونے چاہیے۔ ربر اسٹیمپ نہیں۔ انہوں نے کہا مجھے اختیار دو اور میں صدر شعبہ بننے کے لیے تیار ہوں۔ اس کے بعددیکھو کہ میں بحیثیت صدر شعبہ کیا کیا کرتا ہوں اور انہوں نے اپنے پروگراموں کی ایک طویل فہرست سامنے رکھ دی ۔ جس سے ان کے گہرے Vision کا پتہ چلتا ہے۔ انہوں نے کہا اور میں لفظ بہ لفظ نقل کرتا ہوں کہ’’ صدر کو تو کوئی اختیار ہوتا نہیں، اگر کوئی مجھے صرف ایک دن کا وی سی بنادے تو اگرمیں ایک دن میں کچھ نہیں کرسکا تو جامعہ میں کم از کم ایک ایسا کھمبا لگوادوں گا جو نظام الدین سے نظر آئے گا اور لوگ کہیں گے کہ فینان نے ایک دن میں یہ کردیا‘‘۔اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ وہ حقیقی معنوں میں کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن سسٹم میں اس کی گنجائش بہت کم ہے۔ لہذا یہ صدارت ودارت تضییع اوقات سے زیادہ کچھ اور نہیں۔
میں مدینہ یونیورسٹی سے چھٹیوں میں ہندوستان آیا تو ان سے ملاقات کے لیے ان کے گھر گیا۔ انہوں نے اس زمانے میں ایک کتاب لکھی تھی جس کا عنوان تھا۔ ما یلزم من العربیہ یعنی Essentials of Arabic Language ۔ انہوں نے ایک ایک صفحے کو بڑی خوب صورتی سے سجایا ہوا تھا اور ایک تھیسس کی طرح سنوارا ہوا تھا۔ انہوں نے مجھے وہ مسودہ دیا اور کہا کہ دیکھو عالم عرب میں کہیں سے اگر یہ کتاب شائع ہوسکتی ہے تو کوشش کرلو۔ اس مسودے کو لے کرمیں ایک دو مکتبے میں گھوما۔ یہاں تک کہ ایک صاحب کے توسط سے میں نے ریاض میں وزارت تعلیم کے وکیل الوزارہ سے ملاقات کی اور یہ مسودہ دکھایا۔انہوں نے فینان صاحب کا نام پڑھاتوہنسنے لگے۔ کہنے لگے۔ مؤلفہ رفیعَ العماد۔ الیس ہو طویل النجاد؟ میں اور میرے ساتھ جو صاحب تھے ، سبھی ان کے اس لطیف نکتے سے محظوظ ہوئے۔ میں نے کہا نعم ہو طویل النجاد ایضا۔ اور میں نے بتایا کہ ان کے والد محترم دہلی یونیورسٹی کے عربی شعبے کے صدر اور استاد الاساتذہ ہیں۔ انہوں نے درحقیقت مشہور عربی شعر کی طرف اشارہ کیا جس میں یہ دونوں جملے وارد ہوئے ہیں۔ عربی کی مشہور مخضرم شاعرہ خنساء اپنے بھائی کی شہادت پر اس کا مرثیہ کہتے ہوئے اس پر فخر کرتی ہے اور کہتی ہے: رفیع العماد طویل النجاد، ساد عشیرتہ امردا ۔یعنی اس کا بھائی بڑارفیع النسب اور بلند وبالا مرتبے کا حامل تھا۔اور اتنا بہادر تھا کہ کم عمری میں ہی اس نے اپنی قوم کی سیادت وقیادت کا فریضہ انجام دیا۔
فینان صاحب چاہتے تو اس کتاب کو خود شائع کرلیتے لیکن ان کا مقصد تالیف کتاب بہت واضح تھا۔انہوں نے یہ کتاب اے پی آئی اسکور جمع کرنے کے لیے نہیں لکھی تھی بلکہ یہ کتاب ان کے تدریسی تجربوں کا نچوڑ اور حاصل تھی۔ اسی لیے وہ چاہتے تھے کہ یہ کتاب زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچے اور زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے استفادہ کریں۔ اس لیے وہ کسی معتبر پبلشر کے ذریعے اس کتاب کو شائع کرانا چاہتے تھے ۔ انھوں نے ایک ملاقات میں مجھے بتایاتھا کہ عالم عرب کے کئی مکتبات نے اس کتاب کو شائع کرنے کی منظوری دے دی تھی لیکن ان کا کہنا تھا کہ وہ عربی عبارتوں اور مثالوںپر اعراب نہیں لگائیں گے کہ اعراب لگانا’’ کارے دارد‘‘ والا معاملہ تھا۔ فینان صاحب ٹھہرے اصول پسند انسان۔ ان کا خیال تھا کہ یہ کتاب beginnersیعنی مبتدئین کے لیے لکھی گئی ہے اگر عربی عبارتوںمیں، جملوں میں، مثالوں میں اعراب نہیںلگایا جائے گا تو وہ غیر عربی داں حضرات جو اس کتاب کے ذریعے عربی زبان سیکھنے کی کوشش کریں گے ان مثالوں کو اور ان جملوں کو کیسے پڑھ سکیں گے یعنی بہ الفاظ دیگر کتاب کا مقصد تالیف ہی فوت ہوجائے گا۔ لہذا انہوں نے اسے شائع کرنے کی منظوری نہیں دی ۔
بعد میںیہ کتاب GoodWord نئی دہلی سے شائع ہوئی اور بے انتہا مقبول ہوئی۔گذشتہ اٹھارہ برسوں میں اس کتاب کے تیرہ چودہ ایڈیشن اور re-prints شائع ہوئے جو اس کتاب کی مقبولیت کا واضح ثبوت ہیں۔اس کتاب کا انڈونیشیائی زبان میں ترجمہ بھی ہوا۔ یورپ وامریکہ میں بھی اس کی بازگشت سنی گئی۔بتانے والے نے بتایا کہ وہاں کے بک اسٹالوں پر اس کے نسخے فروخت ہوتے دیکھے گئے۔ یعنی یہ کتاب ایک شاہکار کی حیثیت سے منظر عام پر آئی اور عربی سے محبت کرنے والوں کے دلوں پر راج کرگئی۔(اس کتاب پر میں الگ سے تفصیلی مضمون لکھوںگا۔ ان شاء اللہ )
پروفیسر فینان نے ایک مرتبہ مجھ سے پوچھا تم کیا بننا چاہتے ہو؟ میں نے برجستہ کہایونیورسٹی میں لیکچرر۔ کہنے لگے کوئی اور آپشن۔ میں نے کہا کوئی نہیں۔ کہنے لگے نہیں بنے تو؟ میں خاموش رہا۔ایک مرتبہ قطر سے ایک سرکاری ملازمت کا offer آیا تو انہوں نے میرے نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے وہاں بھجواکر دم لیا۔ واپس آیا اور یونیورسٹی میں برسرروزگار ہوگیا تو ایک ملاقات میں کہنے لگے کہو کیسے ہو۔ اب خوش ہو۔ میں نہ کہتا تھا جاؤ۔ بعد میں یہ سب بھی ہوجائے گا۔
پروفیسر فینان بہت نفیس ونستعلیق قسم کے انسان ہیں۔ ہم نے اپنی طالبعلمی کے زمانے میں کبھی ان کی شیو بڑھی ہوئی نہیں دیکھی۔ کبھی انہیں کیجول ڈریس میں نہیں دیکھا۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ وہ ایک ہی رنگ کا، ایک ہی اسٹائل کا لباس ہمیشہ زیب تن کرتے تھے۔ ایک ہی طرح کی شرٹ، ایک ہی طرح کی پینٹ اور ایک ہی طرح کا جوتا ہمیشہ پہنتے تھے۔ ہم لوگ آپس میں کہتے تھے کہ شاید فینان صاحب ایک ساتھ ایک ہی طرح کے کپڑے سے درجنوں شرٹ سلواتے ہوں گے۔ کیونکہ ان کے لباس کو کبھی میلا نہیں دیکھا۔ ان کا لباس ایک جیسا ہوتا تھا مگر صاف شفاف۔
وہ اپنے طلبہ سے بہت محبت کرتے تھے۔مجھے بھی ان کی شفقت ومحبت کی بھینی بھینی خوشبو میسر ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں اپنے طالبعلمی کے زمانے میں ہفتے میں کم از کم ایک مرتبہ ضرور فینان صاحب کے گھر بغیر کسی سابقہ اجازت کے دھمک جایا کرتا تھا۔ ان کی والدہ دروازہ کھولتیں ، نام پوچھتیں اور پھر ان سے ملاقات ہوتی تھی۔ وہ اپنے قیمتی اوقات میں سے چند لمحے اپنے اس حقیر فقیر طالب علم کو دینے میں بالکل تردد نہیں کرتے تھے، نہ ان کے چہرے پر کبھی شکن آتی تھی۔
فینان صاحب حقیقی معنوں میں مربی تھے۔وہ اپنے شاگردوں کی خاموش تربیت کرتے تھے۔میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔غور وفکر اور سوچنے سمجھنے کا طریقہ سیکھا، زندگی کرنے اورجینے کا گر سیکھا۔ محنت، جد وجہد، لگن اور پورے اخلاص سے کام کرنے کا جذبہ سیکھا۔اچھے استاد کی خصوصیات کو جانا اور پہچانا۔یہی وجہ ہے کہ میں نے انہیں ہمیشہ یاد کیا اور آج بھی کرتا ہوں۔ ان کی باتیں آج بھی میرے لیے مشعل راہ ہیں۔ ان سے میں نقشہائے حیات میں رنگ بھرتا ہوں اور انہیں ایک آئیڈیل استاد مانتا ہوں۔اپنی کلاسوں میں، اپنے طلبہ اور شاگردوں سے ان کا ذکرخیر کرتا ہوں۔ ان کی یادوں کوان سے ساجھاکرتا ہوںاور انہیں بتاتا ہوں کہ ایسے اساتذہ سے ہم نے تعلیم حاصل کی ہے۔اور ایک استاد کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔
پروفیسر فینان صاحب پورے جوش ونشاط سے بھرے ہوئے تھے۔بہت فعال تھے ۔ پوری لگن محنت اور حوصلے سے تدریس کا فریضہ اس طرح ادا کرتے تھے جیسے ان کو اس سے حقیقی معنوں میں عشق ہو،نشہ ہو۔ ٹرانسلیشن پر وہ بے انتہا توجہ دیتے تھے اورپوری دلچسپی سے پڑھاتے تھے۔ طلبہ کو مارکیٹ کے لیے تیار کرتے تھے۔خود بھی بڑی بڑی عالمی کانفرنسوں میں انٹر پریٹر کی حیثیت سے شرکت کرتے تھے۔بلکہ ان کا نام ایک برانڈ کی حیثیت رکھتا تھا۔یہ الگ بات ہے کہ اخیر میںانہوں نے’’ کار وافکار‘‘ کے ہجوم کی وجہ سے کانفرنسوں میں بحیثیت انٹر پریٹر جانا بند کردیا لیکن موقع ومحل کے اعتبار سے ٹرانسلیشن کا کام بھی کرتے تھے اور مختلف مناسبتوں پرانٹر پریٹیشن بھی۔ وہ اسے چھوڑ بھی کیسے سکتے تھے۔ یہی ان کی شناخت اور پہچان تھی۔
پروفیسر فینان نے ہمیشہ اپنے طلبہ کی زندگیوں میں رنگ بھرا اور میرے جیسے تشنگانِ علم و ادب کو سیراب کیا ۔ دو چار ماہ قبل جامعہ ملیہ اسلامیہ کے عربی شعبے سے بڑی خاموشی سے سبکدوش ہوگئے۔ میں سمجھتا ہوں ان کی سبکدوشی سے عربی کے ایک سنہرے عہد کا خاتمہ ہوگیا۔صدر شعبہ پروفیسر محمد ایوب ندوی نے ان کی الوداعی تقریب منعقد کرکے بڑا اہم فریضہ انجام دیا۔جس کے لیے وہ پوری عربی برادری کی طرف سے شکر وامتنان کے مستحق ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالی پروفیسر فینان صاحب کو صحت اور عمر طویل عطا کرے اور انہیں سلامت رکھے او ر خوش بھی۔ میں نے ان کی شاگردی میں بڑے اچھے لمحے اور سنہرے دن گزارے ہیں جن کے سہارے یہ سطریں قلمبند کرسکا۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگ کہیں کہ میں ان کی تعریف میں بہت کچھ کہہ گیا لیکن یہ سطریں تعریف نہیں حقیقت ہیں۔ ایک شاگرد کا اس کے استاد کو خراج تحسین ہیں ؎
تازہ خواہی داشتن گر داغ ہائے سینہ را
گاہے گاہے باز خواں ایں قصۂ پارینہ را
نوٹ : مقالہ نگارصدرشعبۂ عربی/ اردو/ اسلامک اسٹڈیز، باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری ہیں ۔
9086180380