پروفیسر نحوی بحیثیت اقبال شناس تو معروف ہیں ہی لیکن بہ حیثیت کالم نگار بھی اُن کا علمی اودبی قد کافی اونچا ہے۔ ایک عرصہ تک وہ وہ ریاست جموں و کشمیر کے موقرروز نامہ ’’کشمیر اعظمیٰ‘‘ کے لئے مستقلاً ’’سر حد ِ ادارک ‘‘ کے تحت ہفتہ وار اپنا فکر انگیز کالم لکھتے آرہے ہیں جس کو باذوق قارئین قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یوں تو ادبی دنیا میں اُنہیں زیادہ تر اقبال شناس ہی جانتا ہے لیکن اس سے باہر بھی عمومی سطح پر وہ اپنے کالموں اور تقاریر و خطبات کی بدولت وسیع پیمانے پرقارئین وسامعین میں معروف نام ہیں۔ کتاب اور اخبار میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ کتاب کو صرف صاحب ذوق لوگ ہی پڑھتے ہیں جب کہ اخبار کا مطالعہ چپراسی سے لے کرپرائم منسٹر تک ہر ایک اپنی بساط کے مطابق کرتا ہے۔ اس لئے عمومی سطح پر ایک صاحب قلم کی لوگوں میں منفرد پہچان بنانے میں اخبارات کا کلیدی رول ہوتا ہے۔پروفیسر نحوی صاحب پچھلے چالیس برس سے مختلف اخبار و جرائد کے لئے مضامین، مقالات و کالم لکھتے رہے ہیں۔ یہ مضامین و کالم زندگی کے مختلف شعبہ ہائے سے تعلق رکھتے ہیں۔ نحوی صاحب کے کالم لکھنے کا مقصد وقت گذاری نہیں بلکہ وہ معاشرے کی اصلاح اور اس کی خوشحالی میںاپنا حصہ ادا کرناچاہتے ہیں۔ چنانچہ ’’ احساس وادراک‘‘ کے پیش لفظ میں فرماتے ہیں :’’ان مضامین (اور کالموں) کو سپردِ قلم کرنے کے پیش نظر صرف ایک جذبہ کارفرما ہے کہ جس معاشرے کا میں ایک فرد ہوں ، اس کی ہمہ جہت ترقی ، خوشی حالی اور سکت و کشادگی میں میرا اپنا حصہ ادا ہوا ‘‘۔
شعرو ادیب، نظام تعلیم، اساتذہ، عورت، وقت، انسانیت، انسان دوستی، زبان کی حفاظت وغیرہ اور اس جیسے دوسرے پچاسوں کالموں کے تحت انہوںنے اپنے دل کی آواز دوسروں تک پہنچائی ہے۔میرا اپنا ماننا ہے کہ بحیثیت ماہر اقبال اور اقبالیات نحوی صاحب ایک دائرے سے باہر نہیں نکل سکتے تھے کہ موضوع کے تحت کام کرنے کے اپنے حدود ہوتے ہیں لیکن بحیثیت کالم نگار ایک شخص آزاد ہوتا ہے وہ چیونٹی سے آسمان تک کسی بھی چیز کو بھی اپنا موضوع بنا سکتا ہے۔ اس وقت میرے سامنے نحوی صاحب کے کالموں کا ایک اہم مجموعہ ’’احساس و ادراک‘‘ ہے۔ دوسو چودہ صفحات پر مشتمل یہ کتاب جون ۲۰۱۱ء میں شائع ہو کر قارئین سے داد تحسین حاصل کر چکی ہے۔ اگر چہ اس کتاب کے اکثر کالم مختلف اخبارات، رسائل و جرائد میں ادب دوست حضرات و خواتین پڑھ چکے ہیں لیکن اس کے باوجود اس کتاب کو خرید کر دوبارہ ان کالموں اور مضامین کو پڑھ کر اپنے علم میں اضافہ، روح کو تازہ کر کے کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا۔
’’احساس و ادراک‘‘ سنتیس (۳۷) موضوعات پر مشتمل ہے جس میں تیراہ (۱۳) کالم اقبال کی فکرو فن سے تعلق رکھتے ہیں اور باقی موضوعات، دینی، علمی، ثقافتی، ادبی، اخلاقی وغیرہ مسائل کو احاطہ کئے ہوئے ہیں۔ کتاب کے پہلے صفحہ پر اقبال کایہ شعر درج ہے ؎
آج بھی ہو جو براہیم ؑکا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا
کتاب کے پہلے حصے یعنی وہ حصہ جس میںاقبال کے متعلق مضامین وکالم ملتے ہیں میں پروفیسر نحوی صاحب محقق اقبال ہونے کا بین ثبوت پیش کرتے ہیں۔ دراصل نحوی صاحب کو ہماری ریاست میں حافظ اقبال، محبِ اقبال اور شارحِ اقبال جیسے القاب سے ملقب کیا گیا ہے۔ لیکن ان اقتباسات جن میں نحوی صاحب نے کچھ انکشافات کئے ہیں اور کلیات میں استعمال ہوئے لفظ و مرکبات کی تعداد تک بتائی ہے کو پڑھ کر انھیں محقق اقبال کہنے سے کوئی بخل سے کام نہیں لے سکتا مثلاً’’اقبال اردو اور فارسی کا وہ واحد شاعر ہے جس نے غزل کی اصطلاح کا معنیٰ و مفہوم مزاج ومنہاج اور حلیہ بدل کر رکھ دیا۔۔۔اقبال نے اُردو میں بیانوے مقامات پر ’’عشق‘‘ اور فارسی میں دوسو تیس اشعار میں یہ ’’ اصطلاحات‘‘ ایمان و یقین، عرفان و آگہی، تعلق و انسلاک، کا ملِ اعتماد، للہیت اور رسولِ خدا ؐ کے ساتھ گہری محبت کے معنوں میں استعمال کی ہیں۔۔۔اقبال نے ۴۸ مقامات پر ابراہیم ؑکو ایمان و یقین کی سب سے طاقتور علامت، انبیاء کرام ؑکی مقدس جماعت کے ممتاز اسمِ گرامی اور حق و صداقت کے بے مثال علمبردار کے طور پر استعمال کیا ہے۔‘‘
پروفیسر نحوی صاحب نے ریاست کے کئی نامور شعراء پر بھی مضامین لکھے ہیں۔ یوں تو وادی نے سینکڑوں شعراء کو جنم دیا ہے لیکن انہوں نے ماضی یا اپنے ہم عصرشعراء میں سے اُن ہی پر قلم اُٹھایا ہے جن سے وہ خود بھی متاثر ہوئے ہیں۔ شوریدہؔ کشمیری سے اُن کا تعارف ۱۹۷۲ء میںاُس وقت ہوا جب نحوی صاحب نے ڈگری کالج اسلام آباد میںبی ، اے ، فسٹ ائیر میں داخلہ لیا اور پھر یہ تعلق برابر ۱۹سال یعنی۱۹۹۱ء تک برابر رہا۔ شوریدہ صاحب صرف مدرس ہی نہیں تھے بلکہ نبض شناس بھی تھے۔ اُن کی نظر نے پہچان لیا تھا کہ یہ وہ لڑکا نہیں بلکہ وہ تارا ہے جو آگے جا کر آسمان اُفق پر چمک کرسینکڑوں جو ان اسکالرس کی مقدر سنوار سکتا ہے۔شوریدہ کے کہنے پر نحوی صاحب نے کالج میگزین ’’ویری ناگ‘‘ کے گوشئہ اُردو کی ادارت کیا سنبھالی کہ کالج میں ان کے صلاحیتوں کی دھوم مچنے لگی۔ میگزین کی ادارت نے اُن کے ذوق تصنیف و تالیف کو جلاّ دی کہ اب تک درجن سے زیادہ کتابین لکھ چکے ہیں ۔ پروفیسر نحوی صاحب نے جب ۹ نومبر ۱۹۸۶ء میں ’’اقبال اکادمی کشمیر ‘‘ کا سنگ بنیاد رکھا تو وادی کے سبھی شعراء و ادبانے ان کی حوصلہ افزائی کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں مبارک باد دی ۔ شوریدہ صاحب نے مرحبا آفرین ، مبارک وغیرہ الفاظ تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ انہیں ہر طرح کا سپوٹ دیا ۔ اس اکادمی کے زیر اہتمام کوئی بھی تقریب شمالی کشمیر میں ہوتی یا وسطی و جنوبی کشمیر میں، شوریدہ صاحب اس پروگرام میں تشریف لے جاکر محفل کی زینت کو دوبالا کرتے ۔ شوریدہ کے انتقال کے بعد نحوی صاحب نے ان کی رہائش گاہ پر ’’یوم شوریدہ‘‘بڑے تزک و اہتمام سے منایا اور ۱۹۹۲ء میں ’’بیادِ شوریدہ کشمیری‘‘ کے زیر عنوان ایک کتاب ’’اقبال اکادمی کشمیر ‘‘ کے ہی زیراہتمام شائع کی ۔’’ احساس و ادراک‘‘ میں شوریدہ کے بعد جس شاعر پر دوسرا مختصر مگر بہت ہی اہم مضمون ملتا ہے وہ میر غلام رسول نازکی ہیں ۔ نازکی صاحب صرف شاعر نہیں تھے بلکہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ ان کی نعتیہ شاعری جامی کی نعتیہ شاعری سے کچھ کم نہیں ۔ چنانچہ نحوی صاحب ان کے متعلق لکھتے ہیں :’’ کشمیر میں جن لوگوں نے نعتیں لکھی ہیں وہ یقینا عقیدت و احترام کی شہکار ہیں لیکن ناز کی مرحوم کے ’’ نمرود نامہ ‘‘ کی رباعیاں اور ’’ چراغ راہ‘‘ کی ایک سو تیرہ رباعیاں دیگر شعراء کی نعوت پر کئی اعتبار سے منفرد نازک ، لطیف ، جذبہ شوق میں غرق اور اردوئے معلی میں ڈھلی ہوئی معلوم ہوتی ہیں ۔‘‘
غلام رسول نازکی اُردو شعراء میں سب سے زیادہ اقبال سے متاثر نظر آتے ہیں ۔ اقبال کے افکار و عقائد کو نازکی صاحب نے اپنی شاعری میں بہترین انداز میں پیش کیا ہے ۔ اقبال کے اس شعر ؎
جو میں سربہ سجدا ہوا کبھی تو زمین سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں
کا منظوم ترجمہ کس بہترین پیرائے میں کرتے ہیں ؎
میہ وون نکتاہ حکیمن ، نے نوازن
طبیبن ، مرشدن ، دانائے رازن
دلس چُھی قبلہ ساساہ کعبہ ساساہ
میہ ونتم کیاہ کرکھ پانژن نمازن
پروفیسرنحوی صاحب کو دوسرے ماہرین اقبال پر اس لئے بھی فوقیت ہے کہ وہ اُن لوگوں کے بھی محبِ ہیں جو اقبال کے پُرستار ہیں۔ میر غلام رسول نازکی کو اس لیے پسند کرتے ہیں کہ وہ مداح رسولؐ تھے اور ساتھ ساتھ میں اقبال سے متاثر بھی ۔ ’’ اقبال اکادمی‘‘ کا پہلا جلسہ ’’جو تاج ہوٹل‘‘ میں ہوا میں آل احمد سرور ‘ حامدی کشمیری ‘ مرزا عارف بیگ ‘ شوریدہ کشمیری جیسے بڑا ادباء شعراء کے ساتھ ساتھ غلام رسول نازکی نے بھی تقریر کی ۔ سلطان الحق شہیدی کونحوی صاحب نے شبنمی اداسیوں کا شاعر کہا ہے ۔شہیدی وادی کے بڑے شاعروں میں شمار ہوتے ہیں ۔شہیدیؔ صاحب اقبال کی شاعری سے متاثر نظر آتے ہیں ’’ خضر سوچتا ہے ولر کے کنارے ‘‘ پر تضمین کرتے ہوئے انہوں نے کشمیر کے پُر آشوب حالات کی منظر کشی کی ہے ؎
ہمالہ کے چشمے ہیں میراث اپنی
یہ دریا یہ جھرنے ہیں میراث اپنی
بدلتے نہیں ہیں مگر اپنے دھارے
’’ خضر سوچتا ہے ولر کے کنارے ‘‘
پروفیسر نحوی صاحب تیس سال تک کشمیر یونیورسٹی میں اسٹوڈنٹس کی علمی پیاس بجاتے رہے ۔ اس یونیورسٹی نے مادر کشمیر کو چند ایسے اساتذہ دئیے جو اپنی ذہانت اور قابلیت کی بنیاد پر ملکی سطح پر مشہور تھے۔ ان ہی میں ایک اہم نام پروفیسر قاضی غلام محمد مرحوم کا ہے ۔ قاضی غلام محمد ریاضی کے استاد تھے۔ اس مضمون پر موصوف کو اس طرح کی دسترس تھی کہ نمبروں کے ساتھ کھیلتے رہتے تھے ۔ ماہر ریاضی کے ساتھ شاعری بھی کرتے تھے ۔ غالب کا کلام ازبر تھا ۔ اپنی بذلہ سنجی اور مزاح نگاری سے اپنے حلقہ یاراں اور شاگردوں کو ہنستے ہنساتے لوٹ پوٹ کرتے تھے ۔ پروفیسر نحوی صاحب یونیورسٹی کے اساتذہ میں سے سب سے زیادہ ان ہی سے متاثر نظر آتے ہیں ۔ چناںچہ جب ۱۹۸۸ء میںنحوی صاحب کا تقرر بحیثیت لکچرر شعبہ اُردو میں ہوا تو پروفیسر قاضی نے ان کا ماتھا چوما اور مبارک باد دی اور کہا :’’ یونیورسٹی میں جو بھی کوئی لکچرر تعینات ہو جائے کشمیری کے ساٹھ لاکھ کی آبادی میں اس کا کوئی ہمسر نہیں ہونا چاہیے ۔‘‘
پروفیسر نحوی صاحب تقریباً تیس سال تک اعلیٰ تعلیم کے سب سے بڑے مرکز کشمیر یونیورسٹی سے وابستہ رہے ۔ اس لئے تعلیمی نظام ، سیلبس ، اُستاد ، طریقہ تدریس وغیرہ پر ان سے زیادہ کس کی نظر ہو سکتی ہے ۔ انہوں نے اپنے ایک کالم ’’ تعلیمی نظا م معیار و میزان‘‘ میں کشمیر کی تعلیمی صورت حال پر واویلا کیا ہے اور اسے سٹھ سال انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہونے کے باوجود فرسودہ اور غیر متوازن قرار دیا ہے ۔ وہ یہاں کی تعلیمی انڈسٹری کو دولت کمانے کی انڈسٹری سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے تعلیمی مراکز میں مادیت پر زیادہ اور روحانیت وانسانیت پر بہت کم زور دیا جاتا ہے اسی لئے جب اسٹوڈنٹس ان اداروں سے تعلیمی اسناد حاصل کرنے کے بعد مختلف شعبہ ہائے میں ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو صرف پسینہ، دولت، گاڑی غرض عیش و آرام کی زندگی حاصل کرنے کی سوچتے ہیں نہ کہ دوسروں کے کام آنے کی ۔ نحوی صاحب صاف گو ، پاکیزہ دل اور مخلص انسان ہیں ۔ شاید ہی انہوں نے کسی کی تنقیص یا تنقید کی ہو ۔ اپنے مضامین یا کالموں میں جہاں وہ تعلیمی معیار کی گرافت کا رونا روتے ہیں اور تعلیمی سربراہان کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں، وہیں انہیں اپنے قیمتی مشوروں سے بھی مستفید فرماتے ہیں ۔ چنانچہ لکھتے ہیں :’’ پرائمری اور ثانوی سطح پر طالبین اور طالبات کے لیے ایسا نصاب ترتیب دیا جانا چاہیے ، جو ہر اعتبار سے متوازن ، آسان ، سہلالفہم اور طلبہ کی دلچسپی بڑھانے اور انہیں تعلیم کی راہوں کو آسانی سے طے کرنے کا ذریعہ بننا چاہیے ۔ اساتذہ کی ترقیوں کے مواقع آسان بنادئے جائیں ، ان کی تنخوائوں میں تفاوت کو دور کیا جائے ، اسکولوں میں بہتر سہولیات میسر رکھی جائیں ۔‘‘
نحوی صاحب کے کالموں میں جہاں خوبصورت اوراخلاقی و تعمیری اشعار جابجا ملتے ہیں، وہیں موضوع کی مناسبت سے حدیث اور اقوال صحابہ سے اپنے کالم پر سند کی مہر لگا دیتے ہیں ۔ پروفیسر نحوی صاحب کے والد محترم اور دادا جی وادی کشمیر کے بڑے عالموں میں گردانے جاتے ہیں ۔ ان کی صحبت اور تعلیم و تربیت نے نحوی صاحب کو جہاں نطق کا غازی بنا دیا وہیں قلم کا دھنی بھی بنا دیا ۔بڑے بڑے اسکالر وں اور علمائے دین ان کی تقاریر سن کر جہاں ان کی فصاحت و بلاغت کی داد دیتے ہیں، وہیں سیرت رسولؐ اور تاریخ پر اچھی نظر رکھنے کی سرٹفکیٹ بھی عنایت فرماتے ہیں ۔اس کا ثبوت ان کے اُس واقعہ سے ہوتا ہے جب انہیں کالج کے ایک محفلِ مباحثہ میں پہلی پوزیشن حاصل ہوئی اور ان کی تقریر کو بہترین تقریر قرار دیا گیا اور پھر کالج کے سالانہ میگزین ’’ویری ناگ‘‘ کی ادارت نے ان کی تحریر کو بھی اور سمت دے دی ۔ چنانچہ فرماتے ہیں ۔ ’’بیس پچیس مقررین نے دھواں دار تقریریں کیں ،لیکن خوش نصیبی سے میری تقریر بہترین قرار دی گئی اور میری عزت افزائی ایک آکسفورڑ انگلش ڈکشنری اور نقد انعام سے کی گئی ۔۔۔ اس دن سے لے کر گریجویشن مکمل ہونے تک کالج کے تمام مباحثوں، مذاکروں اور ادبی سرگرمیوں میں میرا بڑھ چڑھ کرحصہ رہا۔ اگلے سال کالج میگزین ’’ویری ناگ‘‘ کی ادارت کی ذمہ داری جناب شوریدہ کاشمیری مرحوم نے میرے اوپر ڈال دی ۔ مجھے تقریر اور تحریر دونوں میں حوصلہ ‘ہمت ‘ پذیرائی اور دادو تحسین کے اولین مواقع کالج کے چناروں کے سایوں میں حاصل ہوتے رہے۔‘‘
نحوی صاحب جہاں احادیث و اشعار سے اپنے کالموں کو پر مغز بنا دیتے ہیں وہیں بزرگوں کے اقوال و ملفوظات لکھ کر اپنے کالم کو مستند و معتبر بنادیتے ہیں ۔ اپنے ایک کالم جو’’ زبان کی اہمیت ‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے میں شیخ احمد سرہندی کا یہ مشہور قول لکھتے ہیں ۔ ’ میں زبان سے ایک مناسب جملہ نکالنے سے رُک جائوں یہ میرے نزدیک ایک سال کے نقلی روزے رکھنے اور ایک من سونا خیرات کر دینے سے افضل ہے۔‘‘احساس ذمہ داری ، صدقِ مقال ، زبان کی حفاظت ، تصور وقت ، تار عنکبوت وغیرہ نحوی صاحب کے اہم کالم ہیں ۔ ان کالموں کے ذریعے انہوں نے قارئین کو روحانی غذا فراہم کیا ہے ۔ ’’ انکساری و فروتنی‘‘ کالم کے ابتداء میں لکھتے ہیں :’’ انکساری ایک نیک باطن انسان کی صفات میں سے ایک اہم صفت ہے ۔ مزاج میں انکساری ، نرمی ، عاجزی ، فروتنی اور شگفتگی ایسی ہیں جو انسان کو اعلیٰ اور ارفع مقام عطا کرتی ہیں ۔‘‘
رابطہ :اسسٹنٹ پروفیسر اردو,جی ڈی سی ہندواڑہ
M.no:- 9622706839
E-mail:- [email protected]