آمنہ یٰسین ملک
کبھی وقت تھا کہ پردہ صرف عورتوں کے لیے تھا، لیکن اب پردہ ہر شخص کے دل پر پڑ چکا ہے۔ یہ پردے کپڑے کے نہیں، کردار کے ، نیت کے، نیتوں کے ان دیکھے پردے۔ آج انسان روشنیوں کے بیچ رہتے ہوئے بھی اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے۔ ایک ایسا اندھیرا جو نظر نہیں آتا، لیکن روح کو کھا رہا ہے۔ پردے کے سائے میں بگڑتی روح۔
پردہ جو چھپاتا ہے، یا پردہ جو بےنقاب کرتا ہے؟ پردہ بظاہر انسان کو چھپاتا ہے، لیکن حقیقت میں وہی پردہ اس کے اصل چہرے کو بےنقاب کرتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم اکیلے ہیں، کوئی نہیں دیکھ رہا، مگر جو آنکھ ہر وقت جاگتی ہے، جو دل کی دھڑکنوں کو بھی سنتی ہے، وہ تو سب جانتی ہے۔ہر مذہب، چاہے وہ اسلام ہو، ہندومت، عیسائیت، سکھ مت یا کوئی اور، ہمیں سکھاتا ہے کہ اندر کی صفائی ہی اصل نجات ہے، مگر ہم نے وہ اندر کا آئینہ مٹی سے ڈھانپ دیا ہے، ایک ایسے پردے سے جو بظاہر محفوظ لگتا ہے، مگر حقیقت میں ہمیں گرا رہا ہے۔
تنہائی کا لمحہ، یا روح کا امتحان؟ کبھی تم نے خود سے پوچھا ہے: ’’میں تنہائی میں کیا کرتا ہوں؟‘‘ یہی تنہائی تو اصل آزمائش ہے۔ وہ لمحہ جب تم کسی کے سامنے نہیں ہوتے، سوائے اپنے ربّ کے۔ وہ آنکھیں جن سے تم غلط دیکھتے ہو،وہ ہاتھ جن سے تم کسی کی عزت کو چھیلتے ہو، وہ الفاظ جو دلوں کو زخمی کرتے ہیں، سب کچھ پردے میں ہوتا ہے، مگر اس ’’پردے‘‘ کے پار بھی ایک ربّ ہے، جو سب کچھ دیکھتا ہے تو کیا ہم واقعی اکیلے ہوتے ہیں؟
بگڑتی روح جو چیختی ہے، مگر ہم سنتے نہیں، دل کے اندر کوئی خاموش چیخ رہا ہے۔ تمہیں کبھی رات کو نیند نہ آنے کی وجہ ملی؟ وہ جو تمہیں کھوکھلا محسوس کراتا ہے؟ یہ وہی روح ہے جو تمہارے عملوں سے زخمی ہو چکی ہے۔ ہم نے اپنے دل کو وقتی لذتوں کے پردے میں قید کر دیا ہے مگر روح تو ہمیشہ سچ کی پیاسی رہتی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ تم پلٹو، صاف ہو جاؤ، اپنے خالق کی طرف لوٹو۔
پردہ۔ جو عزت دیتا ہے یا حقیقت چھپاتا ہے؟ ہم نے پردے کو صرف ظاہری شے سمجھ لیا۔ اصل پردہ تو وہ ہے جو نیت پر ہوتا ہے، آنکھ پر ہوتا ہے، دل پر ہوتا ہے۔ جب تم کسی کا راز افشا کرتے ہو، جب تم اپنے ربّ کی نافرمانی کرتے ہو،جب تم جان بوجھ کر گناہ کرتے ہو، تو کیا وہ پردہ عزت کا رہتا ہے؟ نہیں! وہ نفاق کا پردہ بن جاتا ہے۔ ایک ایسا نقاب، جو تمہیں خود تمہارے ربّ سے دور کر دیتا ہے۔
مذاہب کی مشترکہ پکارہے کہ خود کو پہچانو!دنیا کے تمام مذاہب، اگرچہ رسم و رواج میں مختلف ہوں، مگر روحانیت کی بنیاد ایک ہے۔ اپنے نفس کو پہچانو، پاک بنو، سچ کے راستے پر چلو۔ اسلام کہتا ہے کہ ’’جس نے اپنے نفس کو پاک کر لیا، وہی کامیاب ہوا۔‘‘ ہندومت سکھاتا ہے ’’سچ کے بغیر مکتی نہیں ملتی۔‘‘عیسائیت کہتی ہے “Blessed are the pure in heart, for they shall see God.”،سکھ مت کہتا ہے ،’’جو اپنے اندر کا ربّ پہچان لے، وہی سچا ہے۔‘‘ تو پھر ہم کس پردے کے پیچھے چھپے بیٹھے ہیں؟اب بھی وقت ہے، پردہ ہٹا دو۔تمہیں کوئی الزام دینے نہیں آیا۔ یہ تحریر ایک آئینہ ہے جو تمہارے سامنے رکھ رہی ہوں تاکہ تم خود کو دیکھ سکو۔ کیا تم وہی ہو جو دوسروں کے سامنے ظاہر کرتے ہو؟ کیا تمہاری تنہائی، تمہاری حقیقت ہے؟کیا تم اپنی روح کو وہ غذا دے رہے ہو، جس کی اسے ضرورت ہے؟ یہ دنیا کا پردہ کبھی بھی اُٹھ سکتا ہے، مگر تمہارے دل کا پردہ تمہارے اختیار میں ہے۔ اِسے آج ہٹا دو، سچائی کو جگہ دو، اپنے خالق کے قریب ہو جاؤ، وہ انتظار کر رہا ہے صرف تمہارے ایک پلٹنے کا۔
پردہ ہٹا کر روشنی میں آو۔ یہ تحریر کسی ایک مذہب کے لیے نہیں، یہ ہر اُس انسان کے لیے ہے جو تنہائی میں گناہ کرتا ہے اور پھر روحانی خالی پن محسوس کرتا ہے۔ تم ابھی زندہ ہو، ابھی موقع ہے۔ ابھی بھی ربّ تمہیں دیکھ رہا ہے، ابھی بھی تمہاری روح کچھ کہہ رہی ہے۔ ’’پردے کے سائے میں بگڑتی روح‘‘ ایک خاموش چیخ ہے جو تمہارے ضمیر کے کان سن سکتے ہیں، اگر تم سننا چاہو۔‘‘
(بدریون، پلوامہ، کشمیر)