زینب رانی۔بنارس
دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ۔اسلام لفظ ’’سلم‘‘سے ماخوذ ہے ،جس کے معنی اطاعت اور امن کے ہے یعنی اسلام کے معنی ’’سلامتی‘‘ کے ہیں، عربی میں لفظ اسلام کے معنی اپنے آپ کو کسی امر کی جانب متوجہ کرنا ہے۔ اپنے آپ کو اطباع کے لیے پیش کر دینا۔
دین اسلام فطری دین ہے ،اس میں حیا کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے’’حیا ایمان کا حصہ ہے‘‘۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر دین کی ایک خصوصیت ہوتی ہے اور اسلام کی خصوصیت ’’حیا‘‘ ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ـــ’’مسلمان مردوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں‘‘(سورہ نور آیت۳۰) ا س آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں مرد کو بھی اپنی حدود و قیود میں رہنے کی طرف اشار ہ کیا گیا ہے اور لازم قرار دیا ہے کہ مرد بھی خواتین کی عزت و احترام کا خیال رکھتے ہوئے اپنی نظریں جھکائے رکھیں تا کہ گناہوں سے بچ سکیں۔
ابتدائے اسلام سے لے کر آج تک، اسلام مخالف طاقتیں اسلام پر حملہ آور رہی ہیں۔ اس میں کبھی اسلحوں کا استعمال کیا گیا اور کبھی زبان وقلم کا۔ لیکن زمانہ حال میں سائنسی ایجادات کی وجہ سے یہ حملے زیادہ خطرناک اور وسیع صورت اختیار کرگئے ہیں۔ ایسے اسلحے ہیں کہ لاکھوں انسانوں کو چندسیکنڈوں میں موت کی نیند سلادیں اور ذرائع ابلاغ کا نظام اتنا پھیل گیا ہے کہ چند منٹوں میں کسی بھی غلط اور زہریلے بیان سے کروڑوںلوگوں کے اذہان مسموم کئے جاسکتے ہیں۔جہاں اور بہت سے اسلامی احکام پر اعتراضات کی بوچھار ہے، وہاں اسلام میں پردے کے نظام کو خاص طور سے نشانہ بنایا جارہا ہے۔ پردے کے مسئلے پر ہمارا چند گروہوں سے سامنا ہے۔ کچھ تو وہ غیرمسلم ہیں جو اسلام کے کھلے ہوئے دشمن ہیں اور ان کا مقصد اسلام کو بدنام کرنا اور لوگوں کو اس سے متنفر کرنا ہے، وہ سرے سے ہی پردے کے مخالف ہیں اور اس کو وحشت، بربریت، خلاف انسانیت اور خواتین پر ظلم گردانتے ہیں اور براہ راست دین اسلام پر حملہ آور ہیں۔ کچھ وہ ہیں کہ ہیں تو مسلمان مگر مغرب زدہ ہیں ،اگرچہ پردے کی یکسر مخالفت کی ہمت نہیں ہے مگر مغرب کے نقّادوں کو مطمئن کرنے کی کوشش میں کہتے ہیں کہ پردہ صرف نظر کا ہے اور پردے سے مراد صرف شرم وحیا ہے تاکہ قدامت پرستی اور تنگ نظری کے الزام سے اپنے کو بچائیں اور انہیں کھلے دل ودماغ اور ترقی پسند ہونے کا سرٹیفیکیٹ مل جائے۔ معترضین میں ایک طبقہ وہ ہے جو صرف نام سے مسلمان ہے۔ ایسے لوگ مذہب سے بالکل بے بہرہ ہیں، خواہشات نفسانی کے بندے اور ہوس کے غلام ہیں۔
عورت کے معنی ہی پردہ کے آتے ہیں۔عورت کا پردہ ایک زیور ہے اور عورت کے حسن کی زینت ہے۔افسوس صد افسوس! آج کے اس پرفتن دور میں مسلم عورتوں کی فحاشی وعریانیت قابل بیان نہیں ہے۔ بن سنور کر نکلنا، لباس وانداز سے بے خیالی کا مظاہرہ کرنا، مصنوعی خوشبوؤں کی دبیز پردوں میں فحاشی کا تعفن پھیلانا، فیشن ایبل انگریزی وضع کے چست وباریک لباس پہن کر گلیوں، کلبوں، بازاروں، ہوٹلوں، پارکوں، اسکولوں اور کالجوں میں آزاد وبے حجاب غیر محرموں کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر گردوپیش سے بے خبر نہ شرمِ نہ خوفِ خدا،بلکہ اس فیشن زدہ عریانیت کو عروج و ارتقا کا نام دیا جارہا ہے جب کہ اس انسانیت سوز بے پردگی نے انسانی وقار پر ایسا شب خون مارا ہے کہ عفت وپاکدامنی جیسے الفاظ بے معنی ہوکر رہ گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آئے دن عصمت دری کے دلخراش وکربناک واقعات پڑھنے اور سننے کو ملتے ہیں۔ ایک امریکی محقق کی تحقیق کے مطابق(امریکہ جسے ترقی یافتہ ملک گرداناجاتا ہے)ہرپانچ منٹ کے بعد ایک عورت کا دامن عصمت تارتار کیا جاتا ہے یعنی چوبیس گھنٹے میں عصمت دری کے ۸۸۲حادثات رونما ہوتے ہیں، بنت حوا کی عزت داغدار کی جاتی ہے۔
میں پورے یقین کے ساتھ کہہ رہی ہوں کہ آج کے اس پرفتن دور میں اسلامی طرز زندگی اپنالی جائے، پردے کا ایسا اہتمام کیا جائے جیسا اسلام کا نظریہ ہے تو آج بھی خواتین کی عزت وآبرو پامال ہونے بچ سکتی ہے، کیوں کہ جب بنت حوا شرم و حیا کے زیور سے اپنے آپ کو آراستہ کرلیں گی تو ان کی عفت وپارسائی پر بدنگاہی کی سیاہی نہیں پوتی جا سکے گی۔ لیکن فی الوقت تو مخالف طاقتیں عورتوں کے سروں سے چادر اتارکر انھیں بے پردہ کرنے کی ناپاک کوششیں کی جارہی ہیں۔ پردہ پہ پابندی لگاکر انھیں عریانیت کے دلدل میں ڈھکیلنے کی ناپاک سازشیں رچائی جارہی ہیں۔ مخالفین پردہ پر کچوکے لگارہے ہیں۔لیکن یاد رہے جو خواتین کی دل و جان سے پردے کی پاسداری کرتی ہیں،اُن کا مقام ومرتبہ بلند ہوجاتا ہے۔ اس لیےمخالف عنصر سے گھبرانے کی ضرورت نہیں بلکہ قرآنی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اسلامی حجاب کو اپنا نا نہایت ضروری ہے ۔اسی میں ہماری دین و دنیا کی بھلائی ہے۔ باری تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں پردہ کا اہتمام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
mohammadnomanraza1@gma