غور طلب
مولانا ارشد کبیر مظاہری
آج کی دنیا میں جہاں ایک طرف سائنس ترقی کی منازل طے کر رہی ہے، وہیں انسانی اقدار، اخلاقیات اور معاشرتی توازن زوال کا شکار ہیں۔’’میرا جسم میری مرضی‘‘جیسا نعرہ اسی زوال پذیر تہذیب کا پرچم بردار ہے۔ اسے عورت کی آزادی، خودمختاری اور خود ارادیت کا عنوان دیا جا رہا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ آزادی کی یہ تعبیر کیا واقعی عورت کی فلاح کی ضامن ہے یا تباہی کا پیش خیمہ؟
میرا جسم میری مرضی‘ کا مطلب کیا ہے؟کیا یہ صرف اتنا سا ہے کہ عورت کو تعلیم، صحت، روزگار، تحفظ اور عزت دی جائے؟ اگر ایسا ہے تو اسلام اس کا سب سے بڑا داعی ہے۔
لیکن اگر اس کا مطلب یہ ہے کہ عورت مردوں کی طرح ہر قسم کی اخلاقی، جنسی اور معاشرتی پابندیوں سے آزاد ہو جائے — تو یہ نہ صرف فطرت کے خلاف ہے بلکہ انسانیت کے لیے زہر ہلاہل ہے۔یہ نعرہ دراصل مغربی تہذیب سے مستعار لیا گیا ہے، جہاں فرد کی آزادی کو اتنا مطلق مانا گیا کہ نہ خاندان بچا، نہ معاشرت، نہ انسانیت کی حرمت۔
اسلام نے عورت کو وہ مقام دیا جو کسی اور تہذیب نے نہیں دیا۔چنانچہ حضرت خدیجہؓ، حضرت فاطمہؓ، حضرت عائشہؓ، حضرت رابعہ بصریؒ یہ سب وہ روشن مثالیں ہیں جنہوں نے علم، کردار، روحانیت، اور تقویٰ سے دنیا کو منور کیا، مگر کبھی’’میرا جسم میری مرضی‘‘کا نعرہ نہیں لگایا۔کیونکہ اسلام عورت کو آزاد کر کے بے مہار نہیں کرتابلکہ باوقار بناتا ہے۔اسلام کہتا ہے،’’مرد عورتوں کے محافظ و ذمہ دار ہیں‘‘۔’’اپنے گھروں میں وقار کے ساتھ رہو۔‘‘یہ آیات پابندی نہیں، تحفظ اور عزت کی ضمانت ہیں۔
’’میرا جسم میری مرضی‘‘کی عملی تعبیر مغربی دنیا میں دیکھ لیں: جنسی آزادی کے نام پر بے راہ روی،خاندان کا ادارہ تباہ،زنا، اسقاط حمل، جنسی بیماریاں عام۔باپ کا پتہ نہ ہونا، تنہائی، ڈپریشن اور خودکشی۔کیا یہ وہی آزادی ہے جس کے لیے ہم اپنی بیٹیوں کو تیار کر رہے ہیں؟آزادی جب قانون، اخلاق اور فطرت کی حدود کو توڑ دے، تو وہ’’فراڈ‘‘بن جاتی ہے نہ کہ’’اختیار‘‘۔
ایک بیٹی کی پکار:آج کی بیٹی کو تعلیم دو، شعور دو، تحفظ دو،اگر ایسا شعور مت دو جو اس کی عصمت چھین لے،ایسی آزادی مت دو جو فراخ دلی کے پردے میں فحاشی کو پروان چڑھائے،ایسا لباس مت دو جو جسم دکھانے کا ذریعہ بنے۔ہماری بیٹیاں آسماں کی چمکتی چاندنی ہیں، بازار کی رنگین روشنی نہیں۔انھیں ایسا بنائو کہ فاطمہؓ کی حیاء، عائشہؓ کا علم، خدیجہؓ کا وقار ان کی شخصیت کا حصہ بن جائے۔
جدید لڑکیوں کے لیے پیغام:ہم تمہیں روکنے نہیں آئے،ہم تمہیں بچانے آئے ہیں۔جسم تمہارا ہے، مگر وہ اللہ کی امانت ہے۔تم آزاد ہو، مگر ذمہ دار بھی ہو۔جسم تمہاری پہچان نہیں، کردار تمہاری شناخت ہے۔لباس تمہاری زیبائش نہیں، پردہ تمہاری حفاظت ہے۔نعرہ تمہاری ترقی نہیں، تربیت تمہارا زینہ ہے۔
’’میرا جسم میری مرضی‘‘کا نعرہ دراصل عورت کو اس کی فطری شناخت سے کاٹ کر ایک مصنوعی آزادی کا لالی پاپ تھمانے کی کوشش ہے۔اسلام عورت کو عزت، وقار، اختیار، تحفظ اور روحانیت دیتا ہے — مگر اس کی حدود میں۔یاد رکھو!آزادی جب حیاء کھو دیتی ہے تو عزت کی لاشیں چوراہوں پر بکتی ہیں۔حیاء جب اختیار کے ساتھ چلتی ہے، تو عورت بنتی ہے ایک ایسی روشنی جو نسلوں کو اُجالا بخشتی ہے۔