اتنے حجابوں پر تو یہ عالم ہے حسن کا
کیا حال ہو جو دیکھ لیںپردہ اُٹھا کے ہم
جگر مراد آبادی
کائنات کی اتھا گہرائیوں میں ہزار پردے حائل ہیں یہ پردے کسی صورت میں گلابی ہیں اور کسی صورت میں خونی قسم کے ہیں ۔ آسمان کی بلند سطحیں بھی پردوں سے مخفی ہیں جن میں ہزار قسم کے رنگ ہیں آسمان کا وہ رنگ بظاہر نیلا پردہ رکھتا ہے جس سے دنیا کے انسان دیکھتے ہیں لیکن یہ نیلے رنگ کا پردہ کون سا رنگ تب اختیار کرتا ہے جب یہ کسی آدمی یا شخص پر مہربان اور نا مہربان ہوتا ہے وہ وہی بہتر بتا سکتا ہے ۔ آدمی اور شخص یہاں دونوں معنوں میں استعمال کیے جا سکتے ہیں آدمی وہ جو آدم کی نسل سے شکلاً ہو اور شخص وہ جو کسی بنیاد پر شخص بن چکا ہو یعنٰی اطوارِ خاص کا مالک ہو۔ مالک ہونا خود میں ایک اعزاز سے کم نہیں ہے جو مالک ہوتا ہے اس سے ہر حال میں مالک سننا پسند ہوتا ہے جیسے جی مالک، ہاں مالک ، حکم مالک، آپ مالک ہے ، مالک ابھی آیا، مالک ابھی گیا، مالک کا حکم سر آنکھوں پر ۔ اس مالک کے لفظ سے ایک کہانی یاد آئی۔ مالک اور مالکن اپنے خوشنما باغ میں کرسیوں پر بیٹھ کر چائے کی چسکیوں کے ساتھ ساتھ اخبار کا مطالعہ کرتے ہوئے اس خبر کی جانب دھیاں دیتے ہیں ’’ جلد ایک زور دار طوفان آنے والا ہے لوگوں سے اپیل ہیں دعائیں کریں ‘‘ ۔ مالک اور مالکن ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھتے ہیں اور آپس میں گفتگو کرتے ہیں’’ دعائیں مانگنی ہیں لیکن یہ تو نہیں لکھا ہے کون سی دعائیں مانگنی مقصود ہیں ‘‘ مالکن کو فوراً نوکر کی یاد آتی ہے اور نوکر کو بُلا کر کہتی ہیں ’’ نوکر تم جا کر دعائیں مانگ لینا کیونکہ طوفان آنے والا ہے ‘‘۔ نوکر’’ جی مالکن اب کی باربازی نوکر کے ہاتھوں میں آئی نوکر دعائیں مانگنا شروع کرتا ہے ’’ میرے اللہ تو ہزار پردوں میں چھپا ہے آج میری دعا سن لے پردوں سے باہر آ اور خطرناک طوفان لا کر میرے مالک اور مالکن کو ہمیشہ کے لئے ختم کر تاکہ میں مالک کے ظلم سے آزاد ہو سکوں‘‘ ۔ کہتے ہیں نا مظلوم کی دعا سے بچنا چاہئے ۔ جی ہاں ہم بات کر رہے تھے کائنات کے ان پردوں کی جنہیں فطرت نے فطرت کے لئے بنایا ہے لیکن ایسے بھی پردے موجود ہیں جنھیں انسان نے بنایا ہے کبھی اچھائی کو چھپانے کی خاطر اور کبھی بُرائی کو ڈھانکنے کی خاطر واہ پردے تیری ذات بھی عجیب قسم کی ہے ۔ آنکھ کا پردہ اُٹھ گیا تو شرم چلی جائے گی ، کان کے پردے نہ ہوں تو بہرہ بن جائے گا۔ دل کا پردہ پڑ گیا تو بات اثر کرنے سے قاصر ہے ۔ دماغ کا پردہ پھٹ گیا تو آدمی نہ شخص کر رہے گا اور نہ آدم رہے گا۔ جسم کا پردہ چلا گیا تو آدمی الف ننگا ہو جائے گا گویا پردہ اور آدم لازم ملزوم ہیں یعنی پردہ نہ ہو گا تو انسان کی ذات مکمل نہیں ہو گی ۔
نقاب اٹھائو گے تو ہر شے کو پائوگے سالم
یہ کائنات بطور حجاب ٹوٹتی ہے
مشکور حسین یاد
آدم فطرتاً رنگین مزاجی کا مالک ہے اور اس رنگین مزاجی کا مظاہرہ وہ ہر جگہ کرتا ہے پردہ ہی لیجئے پردہ ڈالنے میں ، پردہ کرنے میں ، پردہ کھینچنے میں ، پردہ اُٹھانے میں ، پردہ ہٹانے میں آدم کس طرح رنگین مزاجی اور نازک مزاجی سے کام لیتا ہے اس کی ہزار مثالیں موجود ہیں ۔ ہر آدمی اور شخص چاہئے امیر ہو یا غریب گھر میں پردے ڈالنے کا شوقین بھی ہوتا ہے اور مجبور بھی شوقین اس لئے کہ رنگین مزاجی کی طلب ہوتی ہے مجبور اس لئے کہ زندگی کی ناتوانی، تلخیوں اور کمزوریوں کو چھپانا مقصود ہوتاہے اگر گھرانہ غریب ہے تو پردے سادہ،سستے اور سیاہ یا سفید رنگ کے ہونگے کیونکہ سیاہ پوشی غم کی علامت ہے اور سفید خود سفید پوشی کا استعارہ ۔ گھرانہ اگر امیر ہے تو گھر کے تمام پردے امیرانہ وضع قطع کے ہونگے مثلاً اگر صاحب خانہ تند مزاجی کا مالک ہے تو پردے سرخ رنگ کے بادامی کشیدہ کاری سے پُر ہونگے ،صاحب مالک اگر صوفیانہ مزاج رکھتا ہے تو پردے نہایت صوفیانہ قسم کے ہونگے جن میں سفیدی مائل، مٹیالے اور بھورے رنگ یا گلابی رنگ کے کشیدہ بوٹے والے پردے شامل ہیں غرض ہر جگہ پردہ لازمی ہے ۔
دنیا بذات خود ایک پردہ ہے جس میں مختلف قسم کے پردوں سے کام لیا جاتا ہے ۔ دنیا میں رہنے والے لوگ پردہ سے کام نہ لیں تو فطرت کی مخالفت ہو گی فطرت کی مخالفت گویا قیامت کو خود دعوت دینا ہے قیامت کی بہت ساری قسمیں موجود ہیں جیسے قیامت کبریٰ ، قیامت صغریٰ، اور یہ تمام قیامتیں مختلف قسم کے پردو ں میں پوشیدہ ہے کسی شخص پر جب انفرادی طور قیامت آتی ہے تو اس کے پردوں سے وہی واقف ہو گا کسی کا جینا کسی کے لئے قیامت سے کم نہیں ہوتا، کسی کا مرنا کسی کے لئے قیامت جیسا ہوتا ہے ، کسی شخص یا فرد کوکسی سے جدا ہونا اس کے لئے قیامت کہلاتا ہے ۔ کوئی آدمی جب تکلیف سے دوچار ہوتا ہے تو قیامت کا لفظ دہرا کر تکلیف کا تاثر پیش کرتا ہے قیامت صغریٰ اور قیامت کبریٰ کا پردہ ہر شخص اور نفس کے لئے الگ الگ قبر رکھتا ہے گویا قبر پردہ ہے ۔ ان پردوں کا جو قیامت سے جڑے ہوتے ہیں ۔ زمین اور آسمان کے درمیان کی دنیا وسعی ہیں جو مختلف سطحوں پر مختلف صورتوں میں خوبصورت بھی ہے اور بدصورت بھی جن کا دماغ خوبصورتی کی لذتوں کو محسوس کر سکتا ہے ان کے لئے خوبصورت اور جن کا دماغ بدصورت حسن رکھتا ہے ان کے لئے بدصورت دنیا کی افزائش دنیا سے شروع ہو کر پردوں پر ختم ہوتی ہے آدمی کا پیدا ہونا اور پردے کا شروع ہونا آدمی کا مر جانا اور پردہ کا پڑ جانا دونوں صورتیں ضروری ہیں ۔
زندگی اک سوال ہے جس کا جواب موت ہے
موت بھی اک سوال ہے جس کا جواب کچھ نہیں
امن لکھنوی
دنیا کی تاریخ گواہ ہے اس بات کی کہ پردہ کبھی غیر ضروری کیا جائے تو اس کے مضر اثرات پڑتے ہیں اور سودا گاٹے کا ہاتھ آتا ہے جن لوگوں نے اپنی آنکھوں پر، اپنے کانوں پر ، اپنے دل پر، اپنے دماغ پر غیر ضروری سطح پر پردہ ڈالا وہ خسارے میں پڑ گئے اور کوئی ان کا سننے والا نہیں ہے اور نہ وہ سننے کے لئے تیار ہیں کہ اصل حقیقت کیا ہے ؟ زندگی گزارنا اپنے آپ میں ایک بڑا صبر ہے وہ صبر جس سے نہ کرتے ہوئے بھی کرنا پڑتا ہے ۔ ابن آدم کی ذات مختلف اقسام کے عناصر سے مربوط ہے اور ان عناصر میں پردہ ایک اہم رول ادا کرتا ہے وہ پردہ جو پڑ جاتا ہے وہ پردہ جس سے ہٹایا جاتا ہے اور وہ پردہ جس سے رکھا جاتا ہے ۔ جس سے ہٹایا جاتا ہے وہ کئی راستے ہموار کرتا ہے جن سے زندگی کا فلسفہ حاصل ہو جاتا ہے اور حل ہونے کے عمل میں نئے مختلف مراحل کو جنم دیتا ہے جن سے زندگی کی الجھنیں بڑھ جاتی ہیں اور سلسلہ اندیشہ ہائے دور دراز کا سفر طے کرنے پر آمادہ بھی ہو جاتا ہے اور مجبور بھی۔ مجبور اس لئے کہ اس کے سوا کو ئی چارہ نہیں ہے اور آمادہ اس لئے کہ جینا ضروری ہے ۔ اس متضاد عمل کے درمیان حضرت آدم تباہ بھی ہو جاتا ہے اور فنا بھی لیکن وہ سرود زندگی کی ان رنگینیوں کو کیسے فراموش کر سکتا ہے جن سے سکون و راحت حاصل ہوتی ہے جن کی طلب کے لئے فرشتے بھی نالاں ہیں آدم اور قدرت کے درمیان بھی مختلف پردے حائل ہیں جنھیں نہ کبھی مٹایا جا سکتاہے اور نہ ہی ہٹایا جا سکتا ہے لیکن آدم انسانیت کے درجے پر آکر ہوش سنبھالے اور ذات کا تصور مثبت انداز میں حاصل کرے تو پردے دوری پر آسکتے ہیں اور قربت کا اندیشہ قوی نظر آنے لگے گا جن سے رابطہ قائم ہو جائے گا رابطہ قائم ہوا تو سفر آسان بن سکتا ہے جس میں امیدیں قوی پیدا ہو سکتی ہیں اور راستے قریب تر مگر یہ عمل خاص مشکل ہے ۔ جہاں ارادوں کی ضرورت ہے امنگوں کی خواہش مطلوب ہے نیزدل کی زمین کا آباد ہونا شرط اول ہے جس میں روح اور نظر کی پاکی لازمی ہے دماغ اور عقل کی وسعتیں ضروری ہیں ۔ جس میں شرافت اور ندامت وسیلہ جان بھی ہے اور قوتِ ایمان بھی ۔ جہاں لذت زبان بھی شیرینی معلوم ہوتی ہے اورتمام قوتیںتوفیقِ الٰہی کے مطابق کام کرتی ہیں اس طرح اس عالم کی خاموشی کافی نہایت لذیز معلوم ہوتی ہے اورتسکین دل کی حالت ہی نرالی ہوتی ہے جہاں غم اورخوشی کی کیفیتیں یکساں ہوتی ہیں اورزندگی قلندانہ صفات کو چھوتی ہے جس سے مومنانہ طریقہ کارقرار دیا جاتا ہے جہاں زبان ہاتھ دل آنکھ اور بدن کا ہر زرّہ بے نیاز ہو کر محو تماشا نظر آتا ہے اور کن کی حالت فیکون ہو جاتی ہے جہاں بندہ مومن کا کلام کلام اللہ بن جاتا ہے اس کی نگاہ نگاہ الٰہی بن جاتی ہے اس کا فرمان فرمانِ ازل ثابت ہوتا ہے جس میں نہ کوئی کمی ہوتی ہے اورنہ ہی لاپرواہی کا شائبہ گزرتا ہے جو تمام نقائص سے پاک ہوتا ہے اور روحانی سطح پرلامکاں سے بھی اوپر کائنات کی ابتداء جن پردوں کے ہٹ جانے سے منسوب ہے ان کی تحقیق تاروز قیامت جاری ہے جس نے علم کی سرحدوں کومحدود سے لامحدود کر دیا اورآدم کی ذات میں ہی تسخیر کا مادہ پیدا کر کے اس سے شک کی طرف دھکیل دیا اس شک نے نئے راستے تلاش کئیے اس تلاش کے دوران کچھ ایسے پردے بھی ہاتھ لگے جنھوں نے چاند ستاروں کی روشنی کے امکانات کو شک کے دائرے سے نکال کر حقیقی منظر نامے پر لا کھڑا کر دیا اور نئی زمین کی تحقیق شروع ہوئی اس تحقیق نے آدم کو شک میں مبتلا کر کے ایک تعمیر نو کی طرف گامزن کیا جو انسان کے ہاتھ میں ہوتے ہوئے بھی اس کے ہاتھ میں نہیں ہے جہاں فرشتے تو کیا دنیا کی ہوا بھی جا نہیں سکتی جو صرف اور صرف ایقان اور ایمان کی دلیل مظبوط بنانے کی غرض سے کچھ کے تماشے بھی کھیلتا ہے اور سراب کے مانند دھونکے دیتا ہے جہاں کا علم حضرت انسان کو لاعلم بھی کرتا ہے اور بے بس بھی جہاں لاچارگی اورمایوسی کا ایک ہی واحد علاج ہے وہ ہے ایمان اورصدقِ دل الٰہی کا تصور ہے جس سے حاصل کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے بلکہ یہ عمل فضل مربی کا ہر صورت میںمحتاج ہے اور یہ محتاجی کا راستہ بھی نہایت دشوار ہے جہاں تمام وسوسے اورشکوک سے آدمی کا گزرنا لازمی ہے ۔
خدا ایسے احساس کا نام ہے
رہے سامنے اور دکھائے نہ دے
بشیر بدرؔ
بس جان گیا میں تری پہچان یہی ہے
تو دل میں آتا ہے سمجھ میں نہیںآتا
اکبر الہ آبادی ؔ