فضلو لوہار اور نندو نائی دونوں جھجر شہر کے جنوب میں ساتھ ساتھ کے دو محلوں میں رہتے تھے۔ دونوں لنگوٹیا یار تھے۔ نہ صرف ہم عصر تھے بلکہ تقریباً ہم عُمر بھی۔
فضلو لوہار یعنی فضل دین گو خاندانی لوہار تھا لیکن اپنے پیشے سے کوسوں دور۔ دراصل اُس کے باپ کرم دین نے اپنے خاندانی پیشے سے بغاوت کرکے محلے میں کرانے کی ایک چھوٹی دوکان کھولی تھی جو فضلو کے کاروبار سنبھالنے کے بعد اب خاصی بڑی دوکار بن چکی تھی۔ اس کاروبار کی تبدیلی کے باوجود کرم دین، کرما لوہار اور فضل دین، فضلو لوہار کے نام سے پورے علاقے میں مشہور تھے۔ کئی بار تو لوگ غلطی سے لوہاری کے کام کے لئے بھی فضلو کی دوکان پہ آجاتے تھے۔ فضلو نہایت خوش اخلاق اور باتمیز انسان تھا اور یہ بھی ایک وجہ تھی کہ اُس کی دوکان علاقے بھر میں مشہور تھی۔ نندو نائی یعنی نند کمار کا بھی کچھ ایسا ہی حال تھا۔ وہ ایک خاندانی طور تو نائی تھا لیکن پیشے کے اعتبار سے ایک مقامی پرائیویٹ سکول میں چپراسی تھا۔
جب فضلو اور نندو دونوں آٹھویں جماعت کے امتحان میں لگاتار دو سال فیل ہوتے گئے تو کرم دین نے اپنے بیٹے فضلو کو اپنی دوکان پہ بٹھا دیا۔ نندو نے بھی سکول جانا چھوڑ دیا اور ایکدم بیکار ہوگیا۔ وہ اب بیشتر وقت فضلو کے ساتھ اُس کی دکان پر گزارتا تھا اور باقی وقت آوارہ گردی میں ضائع کرتا۔ آخر کرم دین نے نندو کے باپ سے کہا کہ اپنے سکول کے ارباب اقتدار سے کہہ کر بیٹے کو سکول میںلگوا دو ورنہ لڑکا بگڑ جائیگا۔ اس لئے کرم چند نے پرنسپل سے منت سماجت کرکے اپنے بیٹے کو بھی اپنے ہی سکول میں چپراسی لگوا دیا۔
سکول چپراسی نند کمار اپنے علاقے میں نندو نائی کے نام سے مشہور تھا۔
نوکری لگنے کے باوجود نندو ہر روز صبح اور شام کا وقت اپنے جگری یار فضلو کی دوکان پر گزارتا تھا اور چھٹی کا دن تو پورے کا پورا فضلو کی دوکان پر گزر جاتا تھا۔
دوسرے علاقوں کے اکثر لوگوں کو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ فضلو مسلمان ہے اور نندو ہندو ہے۔ وہ ان دونوں کو بھائی یا قریبی رشتہ دار سمجھتے تھے کیونکہ کئی بار تو دوکان پر اکیلا نندو ہی ہوتا تھا جو باقاعدہ دوکان کا سامان بیچتا تھا۔
نندو کے گھر میں ماں باپ کے علاوہ ایک چھوٹا بھائی اور ایک چھوٹی بہن تھی ، جو سکول میں بالترتیب پانچویں اور تیسری جماعت میں پڑھتے تھے۔ فضلو کے گھر میں والدین کے علاوہ ایک چھوٹا بھائی تھا جو ابھی پانچویں کلاس میں پڑھتا تھا۔
فضلو اور نندو کی دوستی کو دیکھ کر اکثر رشک کرتے تھے لیکن علاقے میں لوگوں کا ایک ایسا طبقہ بھی تھا جو خودساختہ دیندار اور قوم پرست تھے جنہیں یہ دوستی کھلتی تھی اور وہ حسد اور غصے کی آگ میں اندر ہی اندر جلتے تھے۔ دراصل انسانی فطرت ہی عجیب چیز ہے۔ اکثر لوگ کسی کی تکلیف دیکھ نہیں سکتے اور دل پسیج جاتا ہے اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن سے دوسروں کی دوستی، ترقی یا خوشحالی برداشت نہیں ہوپاتی۔
لیکن فضل دین اور نند کمار الگ الگ مذاہب کے ہونے کے باوجود اس سوچ سے بالاتر تھے۔ اُن کے گھرانوں کو بھی اس کی ذرّہ بھر پرواہ نہیں تھی لیکن دونوں گھرانوں کے تعلقات دن بہ دن مستحکم ہوتے جارہے تھے۔
کچھ عرصے بعد دونوں دوستوں کی شادیاں بھی تقریباً ساتھ ساتھ ہوئیں اور دونوں گھرانوں نے ایک دوسرے کی شادی بیاہ کی تقریب میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیا۔ اب دونوں کی بیویاں بھی آپس میں سہیلیاں بن گئیں اور ایک دوسرے کے گھر آنا جانا پہلے سے بھی زیادہ ہوگیا۔
دونوں گھرانے ایک دوسرے کے تیوہار مل جُل کے مناتے تھے۔ سوائے مذہبی فرائض کے دونوں گھرانوں کا طور طریق اور رہن سہن تقریباً ایک جیسا تھا۔ ان دونوں گھرانوں کے طریقِ زندگی میں دراصل اُن کے ماں باپ کااہم رول تھا جنہوں نے شروع سے ہی انکی ایسی تربیت کی تھی جس میں بچپن سے انہیں احساس دلایا گیا تھا کہ انسانی رشتہ سب سے افضل ہے اور مذہب، فرقے یا طبقے کی اہمیت ایک بعد ہے۔
فضلو نے پیشے کی تبدیلی کے باوجود کبھی اس بات پر اعتراض نہیں کیا کہ لوگ اُسے لوہار کہہ کے پکارتے ہیں۔ اُسے پورا احساس تھا کہ وہ خاندانی لوہار ہے اور نمک، چائے، تیل وغیرہ بیچنے سے اُس کی بنیاد بدل نہیں سکتی۔ اُسے فخر تھا کہ لوگ اُسے فضلو لوہار کہہ کر پکارتے ہیں۔
یہی حال نند کمار کا تھا۔ اُسے بھی نندو نائی کہے جانے پر کوئی شکایت نہیں تھی بلکہ فخر تھا کہ وہ اپنے دادا جان کے پیشے کی وساطت سے جانا جاتا ہے۔
کم تعلیم اور غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے کے باوجود نندو نائی اور فضلو لوہار کے خیالات بہت بلند تھے۔ اُن کی سوچ فرقہ پرستی، توہم پرستی اور تنگدلی سے بالاتر تھی۔ یہی وجہ تھی کہ دونوں کی دوستی نہ صرف قائم و دائم تھی بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ مزید مستحکم ہوتی گئی۔ دونوں دوستوں کے گھر کے افراد چھوٹے بہن بھائیوں اور دیگر لوگوں کا ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا، آپسی تعلقات اور میل جول کو دیکھ کے لگتا تھا جیسے قریبی رشتہ دار ہوں۔
اچانک ملک میں انقلاب آیا… انتخابات میں ایک پارٹی واضح اکثریت سے جیت گئی اور اُس نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالتے ہی ملک میں فرقہ پرستی کو ہوا دی۔
دراصل اس پارٹی نے فرقہ پرستی کو بنیاد بنا کے ہی انتخابات جیتے تھے۔ بس پھر کیا تھا۔ اس پارٹی نے حکومت کی آڑ لے کے اپنا ایجنڈا مسلط کرنا شروع کردیا۔ نئی حکومت نے سیکولرازم کے معنی بدل ڈالے۔ تعصب آہستہ آہستہ سیکولرازم کے پردے سے باہر آنے لگا۔
حکومت وقت کی پشت پناہی اور شہہ پہ تعصب اور فرقہ پرست لوگوں کو کھلی چھوٹ مل گئی اور وہ کھلے عام اقلیتوں اور نیچی ذات کے لوگوں کو ہراسان کرنے لگے۔ یہ فرقہ وارانہ اور تعصبی وباء تیزی سے پورے ملک میں پھیلنے لگی۔ حکومت ٹس سے مس نہیں ہورہی تھی اور نظم وضبط لاگو کرنے والے ادارے خاموش تماشائی بنے بیٹھے تھے۔ اقلیتوں اور پچھڑی ذات کے لوگوں کا جینا مشکل ہورہا تھا۔
لاکھ وسیع القلبی،دوستی اور محبت کے باوجود فضلو لوہار اور نندو نائی بھلا اس بیماری سے کیسے بچ سکتے تھے؟ بدلتے حالات کے پیش نظر دونوں گھرانوں کا ایکدوسرے کے گھرآنا جانا کم ہونے لگا۔ بچوں نے بھی ملنا جلنا کم کردیا۔ بزرگ لوگ خاموش تماشائی بن گئے۔ انہیں محسوس ہونے لگا جیسے برسوں کی روایات اور بھائی چارے میں دراڈیں پڑنے لگی ہیں، لیکن وہ دخل دینے سے قاصر تھے۔
فضلو اور نندو، جو ایک دن بھی ایکدوسرے سے ملے بغیر نہیں رہ سکتے تھے، اب کئی کئی دن ایک دوسرے سے ملتے نہیں تھے۔ آہستہ آہستہ دونوں کا ایکدوسرے سے ملنا کم ہوتا گیا۔ کچھ کچھ جانتے ہوئے بھی دونوں نے اس غیر معمولی تبدیلی کی وجہ جاننے کی کوشش نہیں کی۔
ایک دن جب کئی ہفتوں کے بعد نند کمار عرف نندو نائی فضل دین عرف فضلو لوہار کی دوکان پہ آیا تو فضلو کی خوشی کی انتہا نہ رہی تو اُس نے پوچھ ہی لیا۔ کیا بات ہے نندو اب تم کئی کئی دن ادھر کا چکر نہیں لگاتے؟ کوئی ناراضگی ہے کیا؟ کیا ہم سے کوئی غلطی ہوگئی ہے؟۔‘‘
نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں بس یونہی کام میں مشغول رہتا ہوں، فرصت ہی نہیں ملتی۔‘‘ نندو نے بات ٹالتے ہوئے کہا۔
’’ نہیں یار کوئی وجہ تو ہے۔ بھابھی اور بچوں کو دیکھے ہوئے بھی تو کافی دیر ہوگئے۔ میں دو بار بیوی بچوں کو لیکے اتوار کے دن تمہارے گھر آیا پر دونوں بار گھر میں تالہ لگا ہوا تھا۔ شائد آپ لوگ کہیں گئے ہوئے تھے، فضلو نے پھر پوچھا۔
’’ نہیں کوئی وجہ نہیں اصل میں چھٹی کے دن بیوی بچوں کو گھمانے لے جاتا ہوں اسلئے مل نہیں سکا۔‘‘ نندو نے پھر باٹ ٹال دی۔
’’ تو پھر لگتا ہے کسی نے یہاں آنے سے منع کیا ہے۔ تم ضرور کچھ چھپا رہے ہو سچ سچ بتائو کیا بات ہے‘‘ فضلو نے پھر اصرار کیا۔
آخر نندو نے ہچکچا تے ہوئے کہا ۔’’ یار ہماری برادری والے مجھے تم اور تمہارے گھروالوں سے ملنے کو منع کرتے ہیں۔ کہتے ہیں آپ لوگوں سے میل جول نہ رکھوں۔‘‘
فضلو نے محسوس کیا کہ ملک میں سیکولرازم کا پردہ سرکنے لگا ہے اور فرقہ پرستی کا گھناو نا چہرہ بے نقاب ہونے لگا ہے۔ اس وباء کو پھیلنے سے روکا نہ گیا تو اس کے نتائج اچھے نہیں ہونگے۔
فضلو لوہار نے بے حد جذباتی ہوکے پوچھا۔ ’’ تو پھر تم نے کیا سوچاہے کہ کیا تم اب کبھی مجھ سے نہیں ملو گے؟۔
نندو نائی جواب دئے بغیر وہاں سے چلدیا اور فضلو سوچ میں گم ہوگیا۔
رابطہ؛راولپورہ سرینگر
موبائل نمبر؛9419011881