Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
کالممضامین

! پردۂ سیاست میں لپٹی ہوئی جنگ، ڈرامہ یا سفارتی تدبیر کہیںیہ جنگ بندی، لڑائی کی سمت بدلنے کی نئی کڑی تو نہیں؟

Towseef
Last updated: June 24, 2025 10:28 pm
Towseef
Share
16 Min Read
SHARE

مسعود محبوب خان

عالمِ اسلام ایک بار پھر ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہے جہاں اسے نہ صرف اپنے وجود، اقدار اور نظریات کا دفاع کرنا ہے بلکہ باطل کے بیانیے کے مقابل حق کی گواہی بھی دینی ہے۔ جنگیں صرف ہتھیاروں سے نہیں لڑی جاتیںبلکہ بیانیوں، شعور اور موقف کی بلندی سے بھی جیتی یا ہاری جاتی ہیں۔ اسلام ایک ایسا دین ہے جو جنگ میں بھی عدل اور امن میں بھی عزّت کا علمبردار ہے۔آج جب تل ابیب سے تہران تک عالمی سیاست کی شطرنج پر ایک نیا کھیل کھیلا جا چکا ہے اور اس کے تماشائیوں کو امن کا لبادہ اوڑھائے گئے فریب کے سائے میں سلانے کی کوشش کی جا رہی ہے، ضروری ہے کہ امتِ مسلمہ ہوش کے ساتھ تاریخ کے اس لمحے کو سمجھے، اسے ریکارڈ کرے اور حق و باطل کی پہچان کے چراغ جلائے۔ تاکہ ہم محض تماشائی نہ بنیں بلکہ تاریخ کے اس باب میں شہادتِ حق کا فریضہ بھی انجام دیں۔

یہ محض کوئی فوجی تصادم نہ تھا یہ بیانیے کی جنگ تھی، طاقت کے توازن، تہذیبی مزاحمت اور سفارتی اسکرپٹ کا ایسا پیچیدہ امتزاج جس میں کردار وہی رہے، مگر مکالمے امریکی قلم سے لکھے گئے۔ ایران پر حملہ اور امریکی مداخلت دراصل ایک طے شدہ سیاسی اسٹیج پلے تھا، ایسا پرفارمنس جس کا مقصد صرف یہی تھا کہ دجالی ریاست کو میدانِ جنگ سے پسپائی کے بجائے ’’بردباری‘‘ اور ’’فہم و تدبر‘‘ کے لبادے میں باعزّت فرار کا موقع دیا جائے۔ یعنی شکست خوردہ سپاہی کو امن کا سفیر بنا کر پیش کیا جائے۔تو گویا آخری منظر آپ نے بھی دیکھ لی؟وہی منظر جس میں بارود کے بادلوں کے نیچے امن کا ہلالی نقاب اوڑھایا گیا اور صدیوں پرانی عداوت کو محض چند لمحوں کے لیے سفارتی تسبیح میں پرو دیا گیا! ایک ایسی خاموشی کی مالا، جس کے ہر دانے میں دھوکہ، فریب اور مصلحت کی دھار چھپی ہوئی تھی۔ یہ صرف ایک جنگ کا اختتام نہ تھا یہ ایک ایسا تماشائی منظرنامہ تھا، جہاں کردار بدلے بغیر مکالمے بدل دیے گئے، جہاں فضائیں بارود سے بھری تھیں، بیانات آتشیں تھے، مگر آخرکار پردہ گرا، ہتھیار جھک گئے اور اسٹیج پر سکوت کا راج قائم ہوگیا۔

ہم نے ٹھوس دلائل کے ساتھ پہلے ہی یہ عرض کیا تھا کہ ایران پر حملہ اور امریکی مداخلت دراصل ایک منصوبہ بند پردہ سازی ہے، ایسا ’’منظرنامہ‘‘ جو شیطانی ذہنوں نے ترتیب دیاتاکہ دجالی ریاست کے ’’ناجائز باپ‘‘ کواس شکست خوردگی سے نکلنے کا موقع دیا جائے جسے وہ ’’فیس سیونگ‘‘ کی مالا میں پرو کر بردباری کا عنوان دینا چاہتا ہے۔ امریکہ جو ہر بار امن کے پیکر کے طور پر سامنے آتا ہے درحقیقت عالمی فساد کا سب سے بڑا معمار ہے۔ افغانستان سے لے کر عراق، شام سے لیبیا تک اور اب ایران و اسرائیل کے حالیہ معرکے تک ہر جگہ اس کی نام نہاد ’’امن سازی‘‘ انسانیت کے لیے قبرستان میں بدل چکی ہے۔ جہاں اس نے ’’جمہوریت‘‘ اور ’’آزادی‘‘ کے نام پر صرف خون، تباہی اور غلامی بانٹی ہے۔ فساد کرنے والے خود کو اصلاح کا علمبردار کہلاتے ہیں اور ظلم، جارحیت، مداخلت اور تباہی کو امن، استحکام اور ذمّہ داری کا لباس پہنا کر دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ مگر اہلِ بصیرت جانتے ہیں کہ یہ لباس جعلی ہے اور اس کے اندر ایک شیطانی وجود چھپا ہے۔

تل ابیب سے تہران تک جو کچھ ہوا، وہ کسی اصلاح کی کوشش نہ تھی بلکہ ایک جھوٹے امن کی مجبوری اور عالمی سیاست کے مجبور اسٹیج پر کھیلا گیا ایک مصنوعی مکالمہ تھا۔ ’’ایران‘‘ وہ قوم جو نہ اپنے شہداء کو بھولتی ہے، نہ اپنی غیرت کا سودا کرتی ہے ایک بار پھر میدان میں اتری۔ زخم کھائے، لہو دیا، مگر مرگ بر اسرائیل کا نعرہ آخری سانس تک گونجتا رہا۔ یہ جنگ ایرانی عوام کے لیے صرف ایک عسکری معرکہ نہ تھی بلکہ عزّت، استقلال اور مزاحمت کا ایک تاریخی امتحان تھی۔ اگرچہ تہران کی فضاؤں میں لمحاتی لرزہ دوڑا، اگرچہ وہ زخموں سے چور ہوا، لیکن اس نے دشمن کے دل میں وہ خوف اتارا جو صرف خوددار لہو ہی اتار سکتا ہے۔ صیہونی غرور کے قلعے میں دراڑیں پڑیں اور تل ابیب کے افق پر لرزتے ہوئے سناٹے برس پڑے۔ ایران کا پیغام واضح، دو ٹوک اور غیر مبہم تھا،’’ہم زخمی ہو سکتے ہیں، مگر جھک نہیں سکتے!‘‘

ایران اس وقت عالمی سیاست میں ایک تنہا مگر نظریاتی طاقت ہے۔ اس کے پاس نہ نیٹو جیسا اتحاد ہے، نہ اسلحے کے انبار، نہ اسرائیل یا امریکہ جیسا پروپیگنڈا نیٹ ورک مگر اس کے پاس مزاحمت کا نظریہ ہے اور وہی اس کی سب سے بڑی قوت ہے۔ یہ صرف فوجی ردّعمل کا سوال نہیں تھا، یہ تہران کے اس ’’سیاسی شعور‘‘ کی آزمائش تھی جو صہیونی غرور کے سامنے خم نہیں کھاتا، قلم اٹھاتا ہے۔ ایران نے جوابی حملوں میں اپنی دفاعی صلاحیت کا نہ صرف مظاہرہ کیا بلکہ اسرائیلی عوامی رائے میں بھی خوف کی دراڑ پیدا کی جو خود ایک اسٹریٹیجک جیت ہے۔

دوسری طرف اسرائیل تھا! وہ اسرائیل جو خود کو ناقابلِ تسخیر سمجھتا ہے، جس کی بنیادوں میں فلسطین کے شہیدوں کی لاشیں دفن ہیں اور دیواروں پر غزہ کے بچّوں کا جما ہوا لہو چیخ چیخ کر گواہی دے رہا ہے۔ لیکن اس بار اس کا سامنا کسی مصلحت پسند عرب حکمران سے نہیں بلکہ ایک ایسی انقلابی تہذیب سے تھا جو صدیوں سے فرعونیت کے خلاف سینہ سپر ہے جس نے استبداد کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جینے کا ہنر سیکھا ہے۔

تل ابیب کی موجودہ حکومت داخلی انتشار، سیاسی زوال اور عالمی دباؤ کی زد میں ہے۔بنیامین نیتن یاہو کو نہ صرف کرپشن اور عدالتی اصلاحات پر عوامی بغاوت کا سامنا ہے بلکہ فلسطینی نسل کشی پر دنیا بھر میں اس کی حکومت کی مذمت ہو رہی ہے۔ اگرچہ جنگ کا آغاز اسرائیل نے کیا، لیکن اس بار وہ پرانا نسخہ یعنی نہتے فلسطینی شہریوں پر اندھی بمباری ایران پر آزمانے کی جرأت نہ کر سکا۔ اسے معلوم تھا کہ یہاں مزاحمت منظم ہے، تیاری مکمل ہے اور ردّعمل فوری اور فیصلہ کن ہوگا۔ چنانچہ جب جنگ کے شعلے اسرائیل کی دہلیز تک پہنچنے لگے، تو امریکہ کو بیچ میں آ کر ’’امن، امن‘‘ کی گردان کرنی پڑی تاکہ جنگ بندی کے پردے میں اسرائیل کی ڈوبتی ساکھ کو کسی حد تک سنبھالا جا سکے۔ اب چھ گھنٹے کی فائر بندی کا اعلان ہے، بارہ گھنٹے کی ’’عارضی صلح‘‘ ہے اور کچھ سفارتی گدیاں ہیں جن پر قطر کی ثالثی اور واشنگٹن کی ترجمانی سے امن کا صلح نامہ لکھا جا رہا ہے۔ یہ اعلان ایک طرح کی تسلّی بخش تھپکی تھی تاکہ دنیا یہ نہ سمجھے کہ امریکہ شکست خوردہ اور اسرائیل رسوا ہو کر پسپا ہوئے ہیں۔

ٹرمپ نے ایک مختصر مگر ’’مکمل‘‘فائر بندی کا اعلان کیا، جسے اسرائیل نے تسلیم کر لیا اور ایران نے مشروط طور پر منظوری دی۔ رپورٹیں بتاتی ہیں کہ یہ معاہدہ قطر کی ثالثی کے ذریعے ممکن ہوا اور ٹرمپ نے دونوں ممالک پر اس کی پابندی کی اپیل کی۔ اس تنازعہ کی شدّت سے عالمی منڈیوں کے توازن میں خلل آیا تھا، خاص طور پر توانائی کے شعبے میں، مگر اس فائر بندی نے تیل کی قیمتوں کو یک ہفتے کی حد میں کم کر دیا۔رائٹرز کے مطابق ایک اعلیٰ ایرانی عہدیدار نے بھی فائر بندی کی تائید کر دی ہے۔ مگر اصل خبر یہ نہیں اصل خبر یہ ہے کہ اب سفارتی دروازے کھل چکے ہیں۔ قطر نے پسِ پردہ ثالثی کا کردار ادا کیا، جب کہ واشنگٹن نے ایک ’’فیس سیونگ‘‘ سیڑھی فراہم کی جس پر چڑھ کر اسرائیل اپنے غرور کی بکھری ہوئی کرچیاں اور باقیات سمیٹ سکے۔ اس منظرنامے کو محض ایک جنگ کا اختتام سمجھنا سطحی نگاہی ہوگی، یہ درحقیقت ایک نئی شروعات ہے۔

اب دنیا کی نگاہیں ان پسِ پردہ معاہدات پر مرکوز ہیں جو غالباً بند کمروں میں طے پا چکے ہیں اور جن کے اثرات آنے والے دنوں میں مشرقِ وسطیٰ کے سیاسی نقشے کو نئے خطوط پر استوار کر سکتے ہیں۔ اس پورے قضیے میں قطر کا کردار خاموش مگر فیصلہ کن رہا۔ چاہے وہ الجزیرہ کے ذریعے بیانیہ سازی ہویا واشنگٹن اور تہران کے بیچ رابطہ کاری، قطر نے ایک مرتبہ پھر اپنی سفارتی مہارت اور جغرافیائی مرکزیت کو منوایا ہے۔ قطری ثالثی نے امریکہ کو ایک قابلِ قبول راستہ دیا اور ایران کو بغیر سر جھکائے عزّت کے ساتھ میدان سے نکلنے کی گنجائش دی۔لیکن آگے کیا ہوگا؟ اب کی بار یہ جنگ بندوقوں سے نہیں، بیانیوں اور اتحادوں سے لڑی جائے گی۔ اصل امتحان اب اس پسِ پردہ امن کی نوعیت کا ہے۔ کیا یہ واقعی جنگ بندی ہے؟ یا صرف جنگ کی سمت اور اسلوب بدلنے کی ایک نئی کڑی؟ کیا واشنگٹن اس خطے میں اپنی روایتی گرفت برقرار رکھ پائے گا؟ یا وہ نیا مزاحمتی اتحاد جس کی تشکیل عراق، شام، حزب اللہ اور حماس جیسے عناصر سے ہو رہی ہے مشرقِ وسطیٰ کی طاقت کا توازن ازسرنو ترتیب دے گا؟ یہ سوالات وقت کے ساتھ واضح ہوں گے، مگر ایک بات یقینی ہے، یہ صرف بندوقوں کا معرکہ نہیں رہا، اب یہ بیانیے اور موقف کا معرکہ ہے اور یہاں فیصلہ محض جنگی طاقت سے نہیں، حکمت، اتحاد اور شعور سے ہوگا۔
اگرچہ جنگ بندی کا اعلان ہو چکا ہے، مگر بعض علاقوں میں گولہ باری اور میزائل حملے تاحال جاری ہیں۔ اسرائیل نے چند مقامات پر مزید کارروائیاں کی ہیں، جس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ جنگ بندی کی شرائط پر مکمل وضاحت اور اتفاقِ رائے ابھی باقی ہے۔ اسرائیل اپنے کئی دفاعی اہداف حاصل کر چکا ہے اور اب وہ ’’باعزت خروج‘‘ کے لیے ایک حکمتِ عملی پر غور کر رہا ہے۔ تاہم اس کا انحصار بڑی حد تک ایران کے ردِّعمل پر ہے۔

ایران نے امریکی ایئر بیس پر جوابی میزائل حملے کیے، مگر وہ زیادہ تر علامتی (Symbolic) ردِّعمل کے طور پر تھے مقصد یہ تھا کہ ایران دفاعی پوزیشن برقرار رکھے، مگر خاموش نہ رہے۔ دوسری طرف ایرانی پارلیمنٹ نے واضح اشارہ دیا ہے کہ اگر ایامِ جنگ میں کسی قسم کا دھوکہ دیا گیا تو ایران آبنائے ہرمز (Strait of Hormuz) کو بند کرنے سے بھی گریز نہیں کرے گا۔ یہ وہ اقدام ہوگا جس کے عالمی معیشت پر دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں خاص طور پر توانائی کی رسد اور تیل کی قیمتوں کے تناظر میں۔ چنانچہ موجودہ صورت حال کسی ’’جنگ بندی‘‘ سے زیادہ، ’’غیر یقینی سیاسی عبور‘‘ کی کیفیت رکھتی ہے جہاں ایک طرف جنگ کے بادل چھٹتے نظر آ رہے ہیں تو دوسری طرف سفارتی بارش ابھی پوری طرح برسی نہیں۔ اب نظریں ان قوتوں پر مرکوز ہیں جو اس انتشار کو نیا توازن دینے کی کوشش کر رہی ہیں یا شاید کسی نئی صف بندی کی تیاری میں ہیں۔

لیکن یاد رہے! یہ وہی امن ہے جس کے نیچے بارود چھپا ہوتا ہے، یہ وہی خاموشی ہے جو طوفان کی ماں ہوتی ہے۔ کون جیتا؟ کون ہارا؟ یہ فیصلہ تاریخ کے صفحات کریں گے اور تاریخ ان کے قلم سے لکھی جائے گی جنہوں نے خون میں بھی قلم تھامے رکھا، جنہوں نے شکست کے لمحوں میں بھی حق کا پرچم تھامے رکھا۔ اب جب کہ اس اسٹیج کا پردہ گر چکا ہے۔ کردار کچھ دیر کو پیچھے ہٹ چکے ہیں۔ مگر داستان ختم نہیں ہوئی یہ صرف وقفہ ہے، اگلی قسط کا عنوان شاید یہ ہو،’’بیت المقدس کا انتقام‘‘ یا ’’تہران کی حکمت‘‘؟ آئیے! کچھ لمحے دم لیتے ہیں اور پھر جب دوبارہ قلم اٹھائیں گے، تو صرف تجزیہ نہیں، ایک نئی حقیقت رقم کریں گے! ضمیر و حق گوئی کے حوصلے کے ساتھ، بصیرت کے ساتھاور خدا کی زمین پر انصاف کی تلاش کے ساتھ۔

12؍ روزہ جنگ شاید ختم ہو، مگر بازار ابھی محفوظ نظر آجاتے ہیں اور توانائی کے نرخ بھی سکون میں لوٹ آئے ہیں۔ مضاف بر این، ہرمز پر ایرانی حملوں کا امکان ابھی باقی ہے اور اسرائیل اپنی فوجی حکمت عملی کا اگلا باب ایران کے ردِعمل پر منحصر کرتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ معرکہ محض ہتھیاروں کا نہیں، ضمیر، شعور اور بیانیے کا ہے۔ آج جب دنیا کی آنکھیں جھوٹے امن کے پردوں میں سچ کو تلاش کر رہی ہیں، اہلِ ایمان کا فریضہ ہے کہ وہ حق کا چراغ بلند رکھیں، ظالم کے خلاف گواہی دیں، اور مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوں۔ یہ وہی وراثت ہے جو ہمیں انبیاء کی صف سے ملی ہے اور یہی وہ پیغام ہے جسے ہر دور کے اہلِ حق نے اپنے لہو سے رقم کیا۔

اللہ تعالیٰ ہمیں وہ بصیرت عطا فرمائے کہ ہم حق و باطل کے درمیان تمیز کر سکیں، وہ حوصلہ عطا فرمائے کہ ہم ظلم کے مقابلے میں خاموش تماشائی نہ بنیں، اور وہ زبان و قلم عطا فرمائے جو قیامت کے دن شہادتِ حق کی روشنی میں جگمگائیں۔
(رابطہ۔9422724040)
[email protected]
�����������������

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
مہمان نوازی میں مشہور کشمیر نے ہمیشہ یاتریوں کا شاندار استقبال کیا: سریندر چودھری
تازہ ترین
5,485 یاتریوں پر مشتمل پہلا قافلہ قاضی گنڈ پہنچ گیا
تازہ ترین
کنگن کے مرکزی بازار میں آتشزدگی ، متعدد دکانیں خاکستر
تازہ ترین
جموں میں منشیات کے نیٹ ورک کا پردہ فاش، 7 گرفتار، ممنوعہ مواد بر آمد: پولیس
تازہ ترین

Related

کالممضامین

آن لائن فریب کاری کے بڑھتے واقعات آگہی

July 2, 2025
کالممضامین

! وہ فصل جس نے زمین کی ملکیت بدل دی ایک اندراج جو جموں و کشمیر میں زمین کی ملکیت طے کرتا ہے

July 2, 2025
کالممضامین

بروکولی اور لال گوبھی کی کاشت! شاخ گوبھی ’وٹامن کے‘سے بھرپور سبزی ہے

July 2, 2025
کالممضامین

! جنگ کے شور میں امن کی چاہت دنیا کس خاموش جنگل میں جی رہی ہے؟

July 1, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?