مرکزی حکومت نے دو سال قبل اندراآواس یوجنا سکیم کا نام تبدیل کرکے اس کا نیا نام پردھان منتری آواس یوجنا رکھا اور یہ ہدف طے کیاکہ 2022تک تمام بے گھر یا کچے مکانات میں رہائش رکھنے والے کنبوں کودیگر سہولیات کے ساتھ پکے گھروں کی تعمیر کیلئے امداد فراہم کی جائے گی ۔اس سکیم کے تحت ملک بھر میں دو سال میں ایک کروڑ مکانات تعمیر کرنے کا ہدف مقرر کیا گیاہے لیکن ریاست میں جہاں اس سکیم پر عمل آوری انتہائی سست روی سے ہورہی ہے وہیں سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں غریب اور مستحق کنبوں کو نظرانداز بھی کردیاگیاہے ۔سکیم کے تحت انہی افراد کو فائدہ دیاجاسکتاہے جن کے نام 2011میں ہوئے سروے میں سماجی و اقتصادی طور پر پسماندہ زمرے میں موجود ہیں ۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ چھ سال قبل ہونے والے سروے کی آج کی تاریخ میں اتنی زیادہ اہمیت ہی نہیں رہتی کیونکہ اگر کوئی کنبہ چھ سال قبل غریب تھا تو ہوسکتاہے کہ اس کی آج کی مالی حالت مستحکم ہو یااسی طرح سے اگر چھ سال قبل گھر کے سبھی افراد ایک ہی کنبہ بن کر رہتے تھے تو آج ان کے کئی کئی کنبے بن چکے ہوں گے ۔اس سکیم کے حوالے سے یہ شکایات بھی ہیں کہ 2011میںکئے گئے سروے کے دوران بنائی گئی فہرست میں کئی ایسے لوگوں کے نام شامل کئے گئے ہیںجو حقیقت میں اسکے مستحق نہیں تھے جبکہ ایسے لوگوں کو نظرانداز کردیاگیاجن کے پاس رہنے کیلئے کوئی ٹھکانہ نہیں اور نہ ہی وہ اس حالت میں ہیں کہ وہ نیا مکان تعمیر کرسکیں ۔پردھان منتری آواس یوجنا کے بارے میں آئے روز شکایات سامنے آرہی ہیں اور غریب کنبوں کا الزام ہے کہ اثرورسوخ نہ رکھنے کی وجہ سے انہیں فہرست میں شامل نہیں کیا گیا۔ حال ہی سرحدی ضلع پونچھ کی تحصیل مینڈھر کا ایک جسمانی طورناخیز ،غریب اور بے گھرشخص جب اسی طرح کی شکایات لیکر متعلقہ حکام کے پاس پہنچاتو اسے بتایاگیاکہ اس کانام فہرست میں شامل نہیں ہے اس لئے اس کی مدد نہیں کی جاسکتی ۔ اگر اس سکیم کے تحت ایک معذور اور بے سہارا و بے گھر شخص کو بھی فائدہ نہیں دیاجاسکتاہے اور اس کانام بھی فہرست میں شامل نہیں توپھر ہر بے گھر کو گھر فراہم کرنے کے نام پر شروع ہونے والی یہ سکیم کیسے کامیابی سے ہمکنار ہوسکتی ہے ۔فہرست کی تیاری سے لیکر آج تک اس میںکئی ایسی خامیاں پائی گئی ہیں جن کا آگے بڑھنے سے پہلے تدارک لازمی ہے ۔حالانکہ حکومت نے اب نئے سرے سے سروے کرکے تمام ان لوگوں کے نام بھی فہرست میں شامل کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے جو پچھلی فہرست میں رہ گئے تھے لیکن یہ عمل جبھی کامیاب ہوسکتاہے جب اس کو ایمانداری کے ساتھ فیلڈ میں جاکرسرانجام دیاجائے نہ کہ گھر بیٹھ کر فہرستیں تیار کی جاتئیں ، جیسا کہ ماضی میں کیا گیا ۔حکومت کو چاہئے کہ اس سکیم کی عمل آوری کیلئے نئے سرے سے کوششیں کی جائیں اور ان سبھی مستحق غریب وبے گھر کنبوں کے نام بھی آج کی تاریخ کے مطابق فہرست میں شامل کئے جائیں جو نظرانداز ہوکر رہ گئے ہیں ۔