زاہدہ بیگم ۔سرنکوٹ، پونچھ
مرکزی حکومت کی جانب سے چلائے جانے والی اسکیم پردھان منتری آواس یوجنا (پی ایم اے وائی)کا مقصد یہی ہے کہ ان بے سہارا ،غریب اور امداد کے مستحق لوگوں کو گھر مہیاکرایا جاسکے، جن کے پاس رہنے کو گھر نہیں ہیں۔مگر کیا کہیں گے ان ذمہ داران، افسران اور عوامی نمائندگان کو،جن کے رشوت خوری کی وجہ سے غریب اپنے حق سے محروم رہ جاتے ہیں؟ان کی وجہ سے ہی مرکزی وریاستی حکومتوں کی تمام اسکیموں کا مقصد پوری طرح سے عمل میں نہیں آتا ہے۔ اسی بات کو ذہن میںرکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا تھاکہ اب پیسہ براہ راست مستحقین کے بینک اکائونٹ میں جائے گا۔ مگر اس کے باوجود رشوت خوروںنے اس کا بھی حل نکال لیا کہ جب تک رشوت نہیں دو گے، آپ کی فائل آگے بڑھنے ہی نہیں دیں گے۔کاش! رشوت کے یہ پجاری غریبوں کے حالات پر بھی نگاہ ڈالتے تو بہتر ہوتا،جس سے حکومتیں اپنے مقاصد میں صد فیصد کامیاب ہو پاتیں۔
رشوت کے پجاریوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے یہاں صرف ایک خاتون شہناز اخترکی مثال پیش کرنا ہی کافی ہوگا،جو خطہ جموں کی تحصیل سرنکوٹ کے گاؤں موہڑھ بچھائی کے محلہ ہدوڑیا وارڈ نمبر پانچ میں رہتی ہیں۔ ان کی شادی 1995 میں عبد الغنی کسانہ سے ہو ئی تھی جو پیشے سے استاد ہیں۔ کچھ گھریلو تنائو اور جھگڑوں کی وجہ سے یہ شادی زیادہ دن نہ چل سکی اور آخرکاران کا طلاق ہو گیا۔ عبد الغنی سے شہناز کا ایک بیٹا بھی ہے جس کا نام سجاد احمد ہے ۔وہ بھی طلاق کے بعد ماں کے ساتھ ہی رہتا ہے۔ اس کی عمر تیس سال ہے۔وہ بہت ہوشیاراور پڑھا لکھا ہونے کے باوجودبے روزگارتھا،اپنی بے روزگاری اور ماں کی تنگدستی کا گہر ا اثر اس کی ذہنی صلاحیت پر پڑا۔نتیجتاً اچانک وہ ذہنی مریض بن گیا۔ ماںطلاق کے بعد اسی بیٹے کے سہارے بیٹھی تھی لیکن بیٹے کی اس بیماری نے اس کے سپنوں کو توڑ کر رکھ دیا ہے۔یہاں اس بات کا اندازہ لگانے میں ذرا بھی مشکل نہیں کہ آ ج اس مہنگائی کے دور میں ایک بے روزگار، بے سہارا پچاس سالہ خاتون کیسے اپنا گزارا کر سکتی ہے، جس کے گھر میں تیس سال کا جوان بیٹا ذہنی مریض بھی ہو؟
ایک ماں ہونے کے ناطے جو اس عورت کے پاس تھا، وہ سب بیٹے کے علاج کے لئے لگا دیااورابھی بھی بیٹے کا علاج کرا رہی ہے۔جس کے لئے بہت سارے پیسوں کی ضرورت ہے ۔یہ اکلوتا بیٹا جس کا نہ باپ ،نہ بھائی اور نہ ہی رہنے کے لئے مکان ہے ، یہ ماں بیٹے سڑک کے کنارے اس سردی میں ایک ٹینٹ کے نیچے گزارہ کر رہے ہیں۔ انہیں دو وقت کی روٹی بھی مشکل سے نصیب ہوتی ہے۔ لوگ اس کی تھوڑی بہت مدد کرتے ہیں لیکن اس سے گزارہ نہیں چلتا ہے۔ مہینے کا تقریباً چالیس ہزار روپیہ بیٹے کے علاج پر ہی خرچ ہوجاتاہے۔گھر کے سلسلے میں شہناز آ ختر بتاتی ہیں کہ’’پردھان منتری آواس یوجنا(پی ایم اے وائی) کے تحت جو مکان دئے جاتے ہیں، اس کے لئے میں نے سال 2020 میں ہی فارم بھرا تھا۔لیکن آج تک کچھ نہیں ملا۔انہوں نے الزام لگایا کہ مکان دلانے کے لئے سیکریٹری عبد الرحمان نے مجھ سے پانچ ہزار روپیہ کمیشن بھی لی تھی، لیکن آ ج تک مجھے مکان کے پیسے نہیں ملے۔
میںنے کئی باراس سلسلے میں مقامی سرپنچ محمد تاج سے سوال بھی کیا کہ آخر مجھے ابھی تک مکان کیوں نہیں ملا ؟لیکن ان سے ہمیشہ بس یہی جواب ملاکہ’’ مل جائے گا مکان‘‘۔انھوں نے مزید کہا کہ’’شادی ٹوٹنے کے بعد میرے پاس صرف ایک میرا بیٹا ہی میری امید کا سہارا تھا۔ لیکن جب وہ اچانک ذہنی مریض ہو گیا تو میری وہ امید بھی ٹوٹ گئی۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’میں نے یہ سوچ کردوسری شادی نہیں کی تھی کہ میرا بیٹا بڑا ہوکر میرا سہارا بنے گا۔ پہلے میں اپنے بھائیوں کے پاس رہتی تھی لیکن آج ایک ٹینٹ میں گزارا کر رہی ہوں اور اس انتظار میں بیٹھی ہوں کہ پردھان منتری آواس یوجنا اسکیم کے تحت جو مکان سب کو ملتے ہیں،ایک دن وہ مجھے بھی ملے گا ۔میں نے وقت سے فارم بھی بھرا، فائل بھی لگائی اور جس جس دفتر میں جانے کے لئے کہا گیا، ان دفاتر کے چکر بھی لگائے، سر پنچ سے بھی بات کی، لیکن کسی نے میری مدد نہیں کی اور کسی نے یہ نہیں بتایا کہ میرے پیسے اکاؤنٹ میں اب تک کیوں نہیں آئے؟ میری سرکار سے اپیل ہے کہ میری مدد کی جائے، مکان بنا نے اور بیٹے کے علاج کے لئے میری مدد کی جائے‘‘۔
یہ بات بالکل سچ ہے کہ غریبوں کے لئے اسکیمیں تو بہت بنی ہیں لیکن ان کا گراؤنڈ لیول پر کام بغیر رشوت کے نہیں ہوپاتا ہے۔اس لئے حکومت کے ذمہ دار افسران اور عوامی نمائندگان کو اس طرف فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ پھرکسی لاچار، بے بس،غریب شہناز اختر کی امیدیں نہ ٹوٹیں اور مایوسی کی حالت میں اس کے دل یا ذہن میں یہ سوال پیدا نہ ہو کہ پردھان منتری آواس یوجنا سے کیا ملتا ہے! گھر یا مایوسی؟
[email protected]