فہیم الاسلام
گھریلو تشدد ایک عالمی مسئلہ ہے، مگر کشمیر میں اس کا ایک منفرد اور گمبھیر پہلو سامنے آیا ہے۔ ایک ایسی سرزمین جو اپنی قدرتی خوبصورتی اور ثقافتی رنگینی کے لیے مشہور ہے، وہاں گھریلو ماحول کی تلخ حقیقتیں اکثر پردے میں چھپی رہتی ہیں۔ بند دروازوں کے پیچھے بے شمار خواتین جسمانی، جذباتی اور ذہنی تشدد کا شکار ہوتی ہیں، مگر ان کی کہانیاں اس معاشرے میں دب جاتی ہیں جو خاندانی عزت کو فرد کی عزت پر ترجیح دیتا ہے۔ حالیہ برسوں میں، گھریلو تشدد کا یہ مسئلہ خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے، اور یہ مطالبہ کرتا ہے کہ معاشرہ اس پر فوری توجہ دے۔
کشمیر میں گھریلو تشدد کا مسئلہ اس کی صدیوں پرانی پدرشاہی سماجی ڈھانچے میں جڑا ہوا ہے۔ خواتین کو ہمیشہ سے ایک کمتر مقام پر رکھا گیا ہے، جس کے نتیجے میں وہ استحصال اور بدسلوکی کا شکار بنی رہتی ہیں۔ مزید برآں، ثقافتی رویے خواتین کو صبر اور سمجھوتے کا درس دیتے ہیں تاکہ خاندان کا شیرازہ بکھرنے سے بچ سکے۔ شدید زیادتی کی صورت میں بھی، خواتین کو خاموش رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے، کیونکہ وہ سماجی بدنامی اور تنہائی کے خوف میں جکڑی ہوتی ہیں۔ اس خاموشی نے گھریلو تشدد کو فروغ دیا ہے اور نسل در نسل اس کے دائرے کو بڑھا دیا ہے۔
کشمیر کی دہائیوں پر محیط تنازع نے اس مسئلے کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ فوجی موجودگی اور سیاسی عدم استحکام نے افراد اور خاندانوں پر ناقابلِ برداشت ذہنی دباؤ ڈالا ہے۔ بے روزگاری اور سماجی دباؤ کا شکار مرد حضرات اکثر اپنے گھروں میں غصہ اور مایوسی نکالتے ہیں۔ بیرونی تنازع اور داخلی جبر کا یہ ملاپ گھریلو تشدد کو کشمیر کے عمومی بحران کا ایک افسوسناک نتیجہ بنا دیتا ہے۔
کووڈ۔19 کی وبا نے اس مسئلے کو مزید بڑھاوا دیا۔ لاک ڈاؤن کے دوران متاثرہ خواتین کو اپنے مظالم ڈھانے والوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارنا پڑا۔ مقامی غیر سرکاری تنظیموں اور ہیلپ لائنز نے اس دوران خواتین کی جانب سے مدد کی درخواستوں میں نمایاں اضافہ رپورٹ کیا۔ معاشی مشکلات اور محدود وسائل نے بھی گھریلو کشیدگی کو ہوا دی، جس کا نتیجہ اکثر جسمانی یا زبانی زیادتی کی صورت میں نکلتا رہا۔ وبا کے دوران امدادی خدمات کی کم دستیابی نے متاثرہ خواتین کو مزید بے بس کر دیا۔ایک اور سنگین مسئلہ یہ ہے کہ مسئلے کے حل کے لیے مؤثر ادارہ جاتی نظام موجود نہیں۔ اگرچہ 2019 میں خواتین کے تحفظ کا قانون (PWDVA) جموں و کشمیر میں نافذ کیا گیا، اس کا عملی نفاذ ناکافی ہے۔ متاثرہ خواتین یا تو اپنے حقوق سے لاعلم ہیں یا پھر ایک ایسے عدالتی نظام کا سامنا کرنے سے خوفزدہ ہیں جو اکثر غیر مؤثر اور جانبدار سمجھا جاتا ہے۔ پولیس، جو متاثرین کے لیے پہلا سہارا ہوتی ہے، اکثر ان معاملات کو حساسیت سے نمٹانے کی صلاحیت نہیں رکھتی، جس سے خواتین قانونی چارہ جوئی سے گریز کرتی ہیں۔ مزید برآں، پناہ گاہوں اور مشاورت کی سہولیات کی کمی خواتین کو ظلم سہنے پر مجبور کرتی ہے۔
گھریلو تشدد کے اثرات صرف متاثرہ خواتین تک محدود نہیں، بلکہ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیتے ہیں۔ ایسے ماحول میں پلنے والے بچوں پر نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں، جن میں ذہنی دباؤ، بے چینی اور رویوں کی خرابی شامل ہیں۔ یہ بچے بالغ ہونے پر یا تو خود ظلم ڈھاتے ہیں یا پھر نئے سرے سے مظلوم بن جاتے ہیں۔ خواتین پر بھی ذہنی صحت کے شدید اثرات پڑتے ہیں، جن میں مستقل ذہنی دباؤ، پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر (PTSD) اور خودکشی کے خیالات شامل ہیں۔ان تمام چیلنجوں کے باوجود، امید کی کچھ کرنیں مقامی سطح پر کام کرنے والی تنظیموں کی کوششوں میں نظر آتی ہیں۔ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں متاثرین کو مشورہ، قانونی مدد اور محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتی ہیں۔ مذہبی رہنما بھی اب اس مسئلے پر آواز اٹھا رہے ہیں اور اپنے خطبات میں صنفی مساوات اور تشدد کے خاتمے پر زور دے رہے ہیں۔
اس بحران کا حل جڑوں سے مسئلے کو ختم کرنے اور فوری امداد فراہم کرنے کے لیے جامع حکمتِ عملی میں مضمر ہے۔ تعلیمی نظام میں صنفی مساوات اور احترام کا سبق شامل کرنا ضروری ہے۔ عوامی شعور اجاگر کرنے کی مہمات اور مذہبی رہنماؤں کا کردار اس مسئلے پر بات کرنے کے لیے اہم ثابت ہو سکتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ادارہ جاتی ڈھانچے کو مضبوط کرنا ناگزیر ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس حوالے سے تربیت دی جانی چاہیے۔ خواتین کے لیے مخصوص عدالتوں کا قیام، زیادہ پناہ گاہوں کی فراہمی، اور معاشی خودمختاری کے مواقع جیسے اقدامات اہم ہیں۔
گھریلو تشدد کا خاتمہ نہ صرف خواتین کو تحفظ دینے کا معاملہ ہے، بلکہ ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینے کا عزم ہے جہاں ہر فرد عزت اور سکون سے جی سکے۔ جیسا کہ مہاتما گاندھی نے کہا، ’’ایک تہذیب کا معیار اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی خواتین کے ساتھ کیسا سلوک کرتی ہے۔‘‘ کشمیر کو اپنی ذمہ داری سمجھ کر اس سمت میں اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
[email protected]