سبزار احمد بٹ
نئے شہر میں ابھی دو چار دن ہی ہوئے تھے اور یہاں بچوں نے آسمان سر پر اٹھایا تھا۔ بیگم ان بچوں کو کیا ہو گیا۔ حارث اور ذکرہ تو چپ ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں ۔
بیگم گیس پر پریشر کوکر رکھتے ہوئے ۔
میں نے پہلے ہی کہا تھا ہم اپنے ہی گاؤں میں ٹھیک ہیں۔ انہیں پرائے شہر کی ہوا راس ہی نہیں آئی۔ لیکن تم کو کون سمجھائے تمہیں تو اپنا آبائی گاؤں چھوڑنے کا جیسے بھوت سوار ہوگیا تھا۔
سبدر دراصل اپنے آبائی گاؤں خوشحال پور میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ بڑے سکون سے رہ رہا تھا۔ سبدر کو بہت ہی نیک اور ملنسار ہمسائے نصیب ہوئے تھے، جو دکھ سکھ میں سبدر کے کام آتے تھے۔ بہت سے لوگ رہ رہے تھے وہاں۔اس دن بھی سبدر آفس سے چھٹی لے کر کسی رشتہ دار کے ہاں دعوت پر گیا تھا۔ اپریل کا مہینہ تھا اور حارث کا سالانہ امتحان چل رہا تھا. جس وجہ سے اسے ساتھ لینا ممکن نہیں تھا۔ اس لئے وہ ہمسایہ سریش کو بتا کر گئے تھے کہ حارث آجائے تو اسے اپنے گھر میں رکھنا جب تک ہم واپس لوٹیں گے۔ ہو سکتا ہے آنے میں دیر ہوجائے۔ سبدر اپنی بیگم سلیمہ اور بیٹی ذکرہ کو لے کر جوں ہی واپس گھر آیا تو اسے پورا گاؤں سنسان نظر آیا۔ اور حارث بھی کہیں نظر نہیں آرہا تھا۔ ایک گلی میں چھوٹے سے بچے کو دیکھا تو بلا کر لایا۔ بیٹا سریش انکل کے گھر پر حارث ہوگا، اسے بلا کر لاؤ۔ کہو کہ ابا بلا رہے ہیں ۔ انکل حارث وہاں نہیں ہے اور سریش انکل بھی گھر پر نہیں ہے کیوں وہ کہاں گئے ہیں ۔ انکل حارث کو۔۔۔۔۔۔
کیا ہوا حارث کو۔جلدی سے بتاؤ کیا بات ہے۔ انکل حارث اسکول کی گاڑی سے اتر رہا تھا کہ کسی موٹر سائیکل والے نے ٹکر مار دی اور وہ بھاگ گیا ۔
یا اللہ رحم فرما۔ پھر کیا ہوا۔ کہاں ہے حارث۔
حارث کو سریش انکل اور نظام انکل ہسپتال لے گئے ہیں ، اور بھی بہت سے لوگ ان کے ساتھ ہیں۔ میری امی بھی گئی ہے ان کے ساتھ۔
او مائے گاڑ ۔ سبدر نے فوراً جیب سے فون نکالا اور سریش کو فون ملایا۔
ہلو سریش۔۔۔ہیلو ۔
ہاں سبدر بولو۔
سریش کیا ہوا حارث کو اور کہاں ہو تم۔
بھگوان کی دیا سے حارث بیٹا ٹھیک ہے۔ ۔ اور ہم SKIMS میں ہیں ۔سب ٹھیک ہے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
سبدر اپنی بیوی کو لے کر فوراً سکمز SKIMS پہنچا۔ جہاں حارث خون میں لت پت بیہوش پڑا تھا اور نظام صاحب، ہاجرہ، سکندر اور سریش گڑگڑا کر اس کے بچنے کیلئے دعائیں مانگ رہے تھے۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی سبدر اور سلیمہ کی چیخ نکل گئی۔ اتنے میں ڈاکٹر صاحب کمرے سے نکلے ۔کیوں شور مچا رکھا ہے۔
جناب یہ حارث کا باپ ہے۔ شریش نے ڈاکٹر صاحب سے کہا۔
اووہ
بڑے خوش نصیب ہو کہ ان لوگوں نے وقت پر حارث کو ہسپتال پہنچایا ۔وقت پر اگر یہ لڑکا ہسپتال نہیں پہنچتا اور خون کا انتظام نہیں ہوتا تو اس لڑکے کا بچنا نا ممکن تھا۔ تمہیں تو ان لوگوں کا شکریہ ادا کرنا چاہیے ۔ ۔ سبدر من ہی من میں سوچ رہا تھا کہ ان سب کا شکریہ ادا کیسے کروں جنہوں نے میری غیر موجودگی میں اپنا گھر بار چھوڑ دیا اور میرے بیٹے کو ہسپتال لے آئے۔ اور اپنی رگوں سے خون نکال کر میرے بیٹے کی زندگی بچا لی۔ خیر دو دن بعد حارث کو ہسپتال سے چھٹی ملی اور سب لوگ ہنسی خوشی گھر لوٹے۔ چند مہینے گزرنے کے بعد نہ جانے سبدر کو گاؤں چھوڑنے کی کیا سوجھی ؟ کہ اس نے اپنی ساری زمین بیچ ڈالی۔ اپنا آبائی مکان بیچ ڈالا۔ والدین سبدر کے اس فیصلے سے بے حد ناخوش تھے لیکن سبدر نے ان کی بھی پروا نہیں کی ۔ بیگم کو بھی یہ فیصلہ صحیح نہیں لگا۔ وہ بار بار سبدر کو یاد دلاتی تھی کہ کس طرح سے ہمارے ہمسایہ ہمارے کام آتے ہیں ۔ کس طرح سے ہم مل جل کر رہتے ہیں ۔اور کیسے ان ہمسایوں نے ہمارے بیٹے کو بچانے میں مدد کی۔ اُس کا خیال تھا کہ شاید سبدر کے پلان میں کچھ تبدیلی آجائے ۔لیکن کہاں؟ سبدر مرغے کی ایک ٹانگ والی بات پر اڑا رہا۔سبدر نے شہر میں ایک مکان خرید لیا۔ ۔بالآخر مجبور ہو کر بیوی نے بھی ساتھ دیا اور دونوں اپنے بچوں کو لے کر نئے شہر میں منتقل ہو گئے۔ نئے شہر میں ایک دو دن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ ہاں مگر بچوں کو یہ ماحول اس لئے راس نہیں آیا کیوں کہ گاؤں میں بچے باقی بچوں کے ساتھ کھیلتے کودتے تھے جبکہ نئے شہر میں آکر اس طرح بند ہوگئے جیسے کسی قید خانے میں بند تھے۔ حارث نے تو دو دن سے کھانا بھی نہیں کھایا اور اب سر درد کی شکایت بھی کر رہا تھا۔ حارث کو پہلے چونکہ حادثہ پیش آیا تھا اس لئے اس کے معاملے میں سبدر اور اس کی بیوی حساس تھے ۔ اس دن بھی سبدر اپنے دفتر سے لوٹا اور اندر آتے ہی پوچھنے لگا۔
حارث نے کچھ کھایا کیا؟
نہیں کچھ نہیں ۔حارث کے سر میں بھی درد ہے۔
گاؤں کی یاد آتی ہے شاید۔
بیگم تم کیوں نہیں سمجھاتی اس کو ۔کیا تھا اس گاؤں میں جس کی حارث کو یاد آتی ہے۔
سبدر کیسی باتیں کرتے ہو تم ۔۔
اس گاؤں میں ہم نے ساری زندگی گزاری ہے۔
اس گاؤں کے لوگ ہر وقت ہماری مدد کرتے تھے اور ہم ان کی۔ ہم ایک دوسرے کے لئے سچ میں سایہ تھے۔ ۔اور یہ بچے وہاں بچوں کے ساتھ کھیلتے تھے۔ اس گاؤں میں حارث کا بچپن کھو گیا ہے۔ یہاں تو یہ بچے جیسے قید خانے میں بند ہو گئے۔ بیگم تم نہیں دیکھتی ہو یہاں کی چکا چوند زندگی ۔ کتنی رونق ہے یہاں۔ ہر چیز دستیاب ہے۔
ہاں مگر وہ محبت، وہ ایک دوسرے کے کام آنا۔ یہاں یہ سب تو نہیں ہے سب کی اپنی اپنی الگ ہی دنیا ہے۔
خیر چھوڑو تم نہیں سمجھو گی یہ سب تمہیں تو بس گاؤں اور گاؤں کے لوگ چاہئے ۔یہ بتاو حارث کہاں ہے۔
اپنے کمرے میں ۔ سبدر نے کورٹ نکال کر کیل پر ٹانگ دیا اور حارث کے پاس گیا۔ حارث کیا بات ہے۔
ابو سر درد ہے اور کچھ کھانے کا دل نہیں کرتا ہے۔
چلو میں تمہیں ہسپتال لے چلتا ہوں ۔
نہیں ابو امی نے دوائی لائی ۔ میں کھا کر ٹھیک ہو جاؤں گا۔ اگلے دن پھر سبدر اپنے آفس گیا۔ دن کے بارہ بج گئے اور سلیمہ حارث کے کمرے میں آئی۔
حارث۔۔حارث بیٹا، حارث تم بات کیوں نہیں کرتے۔
سلیمہ نے حارث کے ماتھے پر ہاتھ رکھا۔ حارث بخار سے جل رہا تھا۔او میرے خدا۔ اب کیا ہوگا۔ اتنے میں حارث الٹیاں کرنے لگا۔
سلیمہ نے سبدر کو فون کیا۔
ہیلو ہیلو۔
ہاں ہاں بولو ۔
سبدر آپ فوراً گھر آجاؤ
کیوں، کیا ہوا؟ کیا بات ہے؟
حارث بہت بیمار ہے۔وہ بخار سے جل رہا ہے۔ اور الٹی بھی آئی ہے ۔ مجھے کچھ نہیں سوجھتا، آپ ہی بولو ۔ میں کیا کروں ۔
بیگم کسی ہمسائے کو بھلاؤ۔ اور حارث کو ہسپتال پہنچاؤ ۔ جب تک میں پہنچتا ہوں
ٹھیک ہے۔ بیگم نے فون رکھ دیا اور بھکاری کی طرح گھر گھر کا دروازہ کھٹکھٹانے لگی۔ چِلا چِلا کر کہا۔ خدا کے لیے میری مدد کرو، میرا بیٹا بخار سے جل رہا ہے۔ لیکن کسی نے دروازہ نہیں کھولا۔ سب اپنی دنیا میں مست تھے۔ در در بھٹکنے کے بعد پھر واپس حارث کے پاس آئی ۔حارث میرے لعل۔ میرے جگر کے ٹکڑے ۔ بے قراری کے عالم میں سلیمہ نے پھر فون ہاتھ میں لیا اور دیکھا ۔سبدر نے پانچ بار فون کیا تھا۔ سلیمہ نے سبدر کو واپس فون کیا لیکن اب کی بار آواز ہلک میں ہی اٹک گئی. ہچکی بند گئی ۔
کیا ہوا بیگم۔ سبدر کی طبیعت کیسی ہے ۔ ہیلو کچھ تو بولو۔ میرا دل بیٹھا جا رہا ہے۔
کچھ نہیں سبدر ۔ پڑا ہے بستر پر۔ ہمارا سب کچھ ختم ہو گیا ۔حارث اگر اسی طرح رہا تو وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں بیگم کچھ نہیں ہوگا ۔ میں ٹریفک جام میں پھنس گیا ہوں۔ لایا کسی کو بھلا کر۔
نہیں آیا کوئی ۔ میں ایک ایک گھر کا دروازہ کھٹکھٹا چکی ہوں ۔ سبدر کون آئے گا۔ ہم اس شہر میں اجنبی ہیں ۔ کون جانتا ہے ہمیں اس پرائے شہر میں ۔
ماں ماں۔ حارث نے دھیمی آواز، میں پکارا ۔
بیگم نے فون رکھ دیا۔ ہاں بیٹا بولو۔ بولو بیٹا۔
سلیمہ نے پھر ٹھنڈے پانی میں بگوئی رومال حارث کے سر پر رکھ دی۔ چند منٹ کے بعد سبدر ہانپتا ہوا اندر آیا۔ کیا بات ہے۔
ابھی ابھی ہوش آیا ہے۔ سبدر چلو اسے ہسپتال لے چلتے ہیں ۔ دونوں حارث کو لے کر ہسپتال پہنچے۔ ملاحظہ کرنے کے بعد ڈاکٹر ان دونوں سے مخاطب ہوا۔ بڑے خوش نصیب ہو آپ۔ اگر پانچ منٹ اور دیر ہوجاتی تو اس لڑکے کا بچنا مشکل تھا۔
دو تین گھنٹے ہسپتال میں رہنے کے بعد ڈاکٹر نے چند ادویات تجویز کیں اور گھر بھیج دیا۔ گھر پہنچ کر سبدر معصومانہ انداز میں اپنی بیوی سے گویا ہوئے۔
بیگم ۔ ایک بات کہوں۔۔۔۔
ہاں کہو ۔ ہم گاؤں واپس جائیں گے۔
۔۔ کون سا گاؤں ۔اور کس کے پاس جائیں گے۔
ماں باپ سے لڑ کر آئے ہو یہاں ۔ اور وہ گاؤں کی زمین بھی تو بیچ ڈالی۔ اپنا آبائی مکان تک بیچ ڈالا۔۔اب جائیں گے تو کہاں جائیں گے۔
میں نہ کہتی تھی کہ ماں باپ سے مت لڑو اور یہ زمین مت بیچو۔
سبدر خاموش ہوگیا۔ جیسے آج پیش آئے اس واقعے نے سبدر کو پرائے شہر کا معنی و مفہوم سمجھایا ہو۔
���
اویل نورآباد، کولگام