Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
گوشہ خواتین

پرانی بوتل میں نیا مشروب! | کیا آج کی ساس کل سے بہتر ہے؟ تلخ و شریں

Towseef
Last updated: August 22, 2024 12:12 am
Towseef
Share
9 Min Read
SHARE

پہلے ساسوں کا سارازور بہوؤں سے گھریلو کام کاج کروانے پر ہوتا تھا مگر اب وہ بہو کو’’گھر داری اور سلیقے‘‘ پر لیکچر دینے کی بجائے فیشن میں اس کی برابری کرنے پر دھیان دیتی ہیں۔سیانے کہتے ہیں مچھر اور مکھی کی طرح ساس کی زندگی میں بھی نہ سکون ہوتا ہے اور نہ یہ کسی کو سکون لینے دیتی ہیں۔ کہا یہ بھی جاتا ہے کہ سانسوں کی طرح ساسوں کا بھی کوئی بھروسہ نہیں ۔ پہلے پہل بہوئیں یہ دعا کرتی تھیں کہ ’’ ربایا تے سس چنگی ہووے یا اودی فوٹو دیوار تے ٹنگی ہووے‘‘ کیوں کہ کچھ دہائیاں قبل ساس بہوں کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں ہوتی تھیں۔

گھر میں اگر کوئی جانور پال رکھا ہو تو اس کا خیال بھی بہو ہی رکھتی تھی ،غرض یہ کہ ساس ایک سخت کمانڈو افسر کی طرح سارا دن بہو کی حرکات و سکنات پر کڑی نظر رکھتی تھی اور جہاں اس سے غلطی ہوئی بیٹے کو فوراً خبر کردی جاتی۔ انہی سختیوں کے دیکھتے ہوئے کہا جاتا تھا کہ ساس کبھی ماں نہیں بن سکتی ۔ بدلتے وقت نے ساس بہو جیسے رشتے کو بھی بدل دیا ہے۔آج کی ساس پہلے کی نسبت پڑھی لکھی وار سمجھدار ہے جو بہو سے ہر سطح پر برابری کرنے کے ہر گُر سے واقف ہے۔ بیوٹی پارلر میں ساس یا بہو؟ بہو تو بیوٹی پارلر جاتی ہی ہے لیکن ساس بھی اب گھر بیٹھے دیسی ٹوٹکوں پر یقین نہیں رکھتی ، وہ بھی نئے سے نئے بیوٹی پارلر کا رخ کرتی ہے اور وہاں جا کر اپنے بناؤ سنگھار کا اہتمام کرتی ہے۔ اس کے تقاضے کسی طور بھی بہو سے کم نہیں ہوتے۔اب وہ زمانے گئے جب ساس کا نام سنتے ہیں سفید بال، عام اور قدرے سستے ملبوسات پہننے والی موٹی ضعیف خاتون کا خیال ذہن میں آتا تھا، اب تو فیشن میں ساسیں بہو ؤں سے دو قدم آگے دکھائی دیتی ہیں۔ معروف برانڈز کے ملبوسات، ہیرڈائی اور دیگر فیشن کے تقاضے اب بہو سے زیادہ ساسیں پورے کرتی ہیں۔ پہلے سااس اپنی عمر کی مناسبت سے ملوسات میں ہلکے رنگوں کا انتخاب کرتی تھی مگر آج یہ حالات کہ بیٹے کی شادی پر ماں کے کپڑوں کی چمک دمک سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ دلہن کی ساس ہے۔اس طرح پہلے ساسیں شادیوں پر بھی میک اپ سے پرہیز کرتی تھیں مگر اب وہ بھی مہنگے پارلر سے تیار ہوتی ہیں او ر دلہن کی ساس ہے۔ اسی طرح پہلے ساسیں شادیوں پر بھی میک اپ سے پرہیز کرتی تھیں مگر اب وہ بھی پہلے پارلر سے تیار ہوتی ہیں۔ ہاؤس وائف مسز راشد کہتی ہیں۔’’ پہلے ساسوں کا سارازور بہوؤں سے گھریلو کام کاج کروانے پر ہوتا تھا مگر اب وہ بہو کو’’گھر داری اور سلیقے ‘‘ پر لیکچر دینے کی بجائے فیشن میں اس کی برابری کرنے پر دھیان دیتی ہیں۔

سوشل میڈیا پر سرگرم پہلے ساس بیٹے کی بہو کی کئی باتوں کو سچ مان لیتی تھی مگر اب وہ خود سوشل میڈیا پر سرگرم رہتی ہے کہ یہ دیکھے کہ بیٹا اور بہو کس قدر سچ بول رہے ہیں۔ اپنے سمارٹ فون کی برکت سے وہ اپنے بچوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھتی ہے۔ کہیں ڈنر کر رہے ہیں یا پھر برگر کھا رہے ہیں۔پہلے باہر کے کھانے بہو کھانے جاتی تھی مگر اب بہو کے ساتھ ساتھ ساس بھی باہر کے کھانے انجوائے کرتی ہے۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی ریستوران میں جانا ہو اور ساس پیچھے رہ جائے،وہ سب سے آگے ہوتی ہے اور خود تجویز کرتی ہے کہ کہاں سے کیا کھایا جائے۔ پھر وہ آرڈر بھی خود دیتی ہے کہ کیا کیا نو جاں ہوگ، بل بھاری ہو یا ہلکا، وہ بیٹا ہی ادا کرے گا۔ ایک ہاؤس وائف مسز کو ثر کہتی ہیں،’’ہمارے زمانے میں ساسیں یہی بات دوہراکر ہمیں بلیک میل کرتی تھی کہ شوہر کے دل کا راستہ بیٹ سے ہو کر گزرتا ہے لہٰذا اچھے اچھے کھانے بنایا کرو، اگر نہیں آتے تو شوہر کی خوشنودی کے لیے سیکھ لو۔

ورکنگ ساس خواتین کی پڑھائی کے تناسب میں اضافے کی بدولت اب ساسیں بھی پڑھی لکھی اور زمانے کے ساتھ چلنے پر والی ہیں اور پہلے کی طرح گھر داری کے ساتھ اپنے کیرئر پر فوکس بھی کرتی ہیںبلکہ ورکنگ بہو کو برابرکی ٹکر دیتی نظر آتی ہیں۔ چاہے وہ کسی بینک میں کام کر رہی ہوں یا کسی سکول اور کالج میں پڑھاتی ہوں، انہیں اپنے سماجی تعلقات کی بھی فکر رہتی ہے۔

مغر ب میں تو چونکہ مستقل بیوی رکھنے کا بھی کئی رجحان نہیں ،لہٰذا وہاں ساس کا تو کوئی تصور ہی نہیں تھا لیکن مشرق میں گھر ساس کا راج ہوا کرتا تھا مگر اب ساس گھر بیٹھ کر بہو اور بیٹھے کے واپس آنے کا انتظار نہیں کرتی بلکہ مختلف تقریبات میں جانا پسند کرتی ہیں۔پہلے ساس بیٹے اور بہو اپنے شوہر کو بنیاد بنا کر جھگڑتی تھی مگر اب ایسا نہیں کیونکہ اب بیٹے کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ساس اور بہو کے مابین کس نوعیت کی مقابلہ بازی چل رہی ہے۔

ماڈرن ساس نے کیا بدلا ہے؟ اگر دیکھا جائے تو ماڈرن ساس نے کچھ نہیں بدلا بلکہ صرف اپنا چولا بدلا ہے۔ ذہنیت وہی ہے۔ وہی دو تلواریں ہیں جو ایک نیام میں نہیں رہ سکتیں۔ نیا پن تو ہے مگر سوچ وہی ہے، ماڈرن ساس پرانی بوتل میں نیا مشروب ہے۔ پہلے پہل بیٹے بیویوں کے سامنے ماں کے بنائے ہوئے کھانوں کی تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے، ہر کام میں اپنی ماں کی مثال دیتے تھی اور اب تبدیلی یہ آئی ہے کہ اکثر بیٹے اپنی والدہ کی ملبوسات کی چوائس پر فخر کرتے ہیں کہ شاپنگ کرنے کا ڈھنگ میری والدہ کو ہی آتاہے۔

بہو ہمیشہ تذبذب کا شکار رہتی ہے کہ نہ جانے سسرال والوں کو اس کی کون سی بات بری لگ جائے، دوسری طرف ساس بھی بہو کے ساتھ گھلنے ملنے کی بجائے شش و پنج کی کیفیت میں مبتلا رہتی ہے۔ ایک عورت جس نے 20 یا 30 سال ایک گھر میں حکمرانی کی ہو تی ہے، اپنے گھر کی ساری ذمہ داریاں بخوبی نبھائی ہوتی ہیں لیکن جب ایک نیا فرد گھر میں آتا ہے اور اس کی ذمہ داریاں بانٹنے کے ساتھ ساتھ گھر میں اپنی اہمیت او رساکھ بھی بنانے لگتا ہے ایسے میں ساس یہ محسوس کرنے لگتی ہے کہ اس کی اہمیت گھر میں کم ہونے لگی ہے۔

بہو اپنے شوہر پر ماں سے زیادہ حق جتاتی ہے، ایسی صورت میں بہو کو چاہئے کہ وہ ساس کا نقطہ نظر سمجھنے کی کوشش کرے۔ ماہرِ سماجیت شمیم آصف کہتی ہیں کہ ’’پہلے مائیں اپنے بچوں کے لیے بہو کے دُکھ درد سہہ لیتی تھیں مگر اب رویوں میں تبدیلی ہونے کی وجہ سے ساس بھی برداشت نہیں کرتی کہ بیٹا جب کمانے کے قابل ہو جائے تو اسے مکمل طور پر بیوی کے حوالے کر دیا جائے۔ پہلے ساسیں کہتی تھیں کہ اس عمر میں اچھا نہیں لگتا کہ گہرے رنگ کے ملبوسات پہنے جائیں اور شاپنگ پر پیسہ برباد کیا جائے مگر اب ماڈرن ساسیں اپنی زندگی بھر پور طریقے سے گزارنے کی قائل ہیں اور اپنی زندگی میں کسی کی مداخلت بھی برداشت نہیں کرتیں۔‘‘
���������������

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
ملک بھر میں عیدالاضحیٰ جوش و خروش سے منائی گئی
برصغیر
جامع مسجد میں نماز عید کی اجازت نہ دئے جانے پر دکھ ہے، حکومت کو عوام پر بھروسہ کرنا چاہئے:وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ
تازہ ترین
جموں وکشمیر میں عید الالضحیٰ کی تقریب سعید مذہبی جوش و خروش کے ساتھ منائی گئی
تازہ ترین
تاج محل سے امن کی دعا، شاہی جامع مسجد میں ادا کی گئی نماز عیدالاضحیٰ
تازہ ترین

Related

گوشہ خواتین

! تلاشِ وجودکا پہلا قدم خود کا محاسبہ فکر و فہم

June 4, 2025
گوشہ خواتین

رشتے نبھانے کی بنیادی شرط صبر و برداشت غور طلب

June 4, 2025
گوشہ خواتین

آٹیزم سپکٹرم ڈس آرڈر :اسباب، علامات اور علاج فکرو ادراک

June 4, 2025
گوشہ خواتین

عورت کا عزت و احترام ،گھر کے لئے سکون و آرام گھر گرہستی

June 4, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?