سبزار احمد بٹ
سارہ اپنے چھوٹے بیٹے کو درد میں چیختے چلاتے دیکھ کر بے قرار تھی۔ اپنے پرانے لیکن شاندار مکان کی کھڑکی سے بار بار جھانک رہی تھی ۔سلمان بخار سے جل رہا تھا سارہ نے ڈبے میں سے گیلی مٹی نکال کر سلمان کے سر پر رکھ دی۔ چند منٹوں میں سلمان کا بخار اترنے لگا اور سارہ کو تھوڑا سکون اور اطمینان نصیب ہوا۔پوری رات گزر چکی تھی۔ سارہ کی باہیں درد سے دکھ رہی تھیں ۔آنکھیں سرخ ہو چکی تھیں اور جسم کا ایک ایک انگ تھکن سے چور تھا۔ اتنے میں بلڈوزر نے مکان کا ایک حصہ گرا دیا۔سارہ کی سوچوں اور یادوں کا تسلسل ایک دم ٹوٹ گیا اور وہ پرانے مکان کی مسماری کا دلخراش منظر دیکھنے میں پھر منہمک ہو گئیں ۔ ایک ایک اینٹ گرتی تھی تو سارہ کو لگتا تھا جیسے اس کا ایک ایک انگ کاٹا جا رہا ہے۔ آنکھوں سے اشکوں کی لڑی جاری تھی ۔ اتنے میں سلمان ڈیوٹی سے گھر واپس آیا۔ ماں کو اس حالت میں دیکھ کر چونک گیا۔ ماں کیا بات ہے ؟ تم اتنی اداس کیوں ہو؟ بیٹا کچھ نہیں بس اپنی یادوں کا جنازہ دیکھ رہی تھی اسی لیے آنکھ بھر آئی۔ماں نے معصوم لہجے میں کہا۔ماں پہیلیاں مت بجھاؤ ۔صاف صاف بولو کیا بات ہے؟ بیٹا یہ بلڈوزر دیکھ رہے ہو۔
ہاں ماں اسے میں نے ہی یہ پرانا مکان ڈھانے کے لیے بھیجا تھا۔لیکن اس میں پریشان ہونے کی کیا بات ہے۔ یہ تو اب پرانا ہو چکا ہے ہم نے تو اب نئی کوٹھیاں بنائی ہیں ۔ اب ہم ایک شاندار محل میں رہ رہے ہیں ۔ہمارے محل خانے میں کس چیز کی کمی ہے اور یہ بوسیدہ مکان تو اس ماڈرن کالونی میں ایسا ہی لگتا ہے جیسے کسی حسین و جمیل لڑکی کے ماتھے پر بدنما داغ ۔ہاں بیٹا پرانی چیزیں اور پرانے انسان تو پھر بدنما داغ ہی لگتے ہیں ۔ماں نے ایک سرد آہ بھرتے ہوئے جواب دیا۔ماں اس مکان میں ایسا کیا تھا جو تم رو رہی ہو۔ اس نئے مکان میں تو سہولیت کا ہر سامان ہے آپ کے پاس ۔ یہ تو مٹی کا گھر تھا ۔ہاں بیٹا، لیکن تھا تو ایک گھر ہی نا۔اور ہم بھی کون سے سونے کے بنے ہیں ۔ ماں کے جواب سے سلمان رنجیدہ ہو گیا اور تھوڑا سنجیدہ بھی ۔اس نے ماں کا ہاتھ پکڑا اور نئے حویلی نما مکان کے اندر لے جانے لگا۔ بیٹا اس مکان میں میری کھٹی میٹھی یادیں ہیں ۔ وہ یادیں جب میں اس گھر میں دلہن بن کر آئی تھی ۔ وہ یادیں جب تم بیمار تھے اور میں تمہیں گود میں بھر کر ان سیڑھیوں سے بے قراری کے عالم میں اوپر نیچے کرتی تھی ۔ وہ یادیں جب میں نے اپنی تین بیٹیوں کو اسی گھر سے رخصت کیا۔ وہ یادیں جب میں مزدوری کر کے گھر واپس آکر اس گھر میں پہنچ جاتی تھی۔ اور تمہیں دیکھ کر میری ساری تھکان دور ہوجاتی تھی۔ اور وہ یادیں جب تمہارے بڑے بھائیوں نے ہمیں اللہ کے رحم و کرم پر چھوڑ کر اپنی بیویوں کا ہاتھ تھاما اور چلے گئے۔ اتنا ہی نہیں تمہارے والد صاحب کی تجہیز و تکفین کی یادیں بھی اس گھر میں محفوظ تھیں۔ سلمان نے ماں کے کاندھے پر سر رکھا اور بہت اطمینان سے ماں کی یادوں کی داستان سن رہا تھا ۔ جیسے ماں اسے گھسیٹ کر اس کی یادوں کے محل میں لے جا رہی تھی۔ بیٹا تمہارے ختنے کا جشن بھی اسی مکان میں ہوا تھا اور تمہاری ولیمہ کی دعوت بھی اسی مکان میں ہوئی تھی ۔ اس مکان میں ابابیلوں نے گھونسلے بھی بنائے ہیں ۔جب میں کبھی تنہا ہوتی تھی تو ان ابابیلوں سے باتیں کرتی تھیں۔ اتنے میں مکان کا آدھے سے زیادہ حصہ ڈھہہ چکا تھا اور مٹی کے برتنوں کے ٹوٹنے کی آواز صاف سنائی دیتی تھی ۔بلڈوزر نے اپنا رخ صحن میں موجود پرانے پیڑ کی جانب کیا ۔ سارہ نے اپنے بیٹے کو کس کے پکڑا جیسے بلڈوزر اسی کی جانب آرہا ہو۔ بیٹا یہ کیا یہ تو اس پیڑ کو بھی گرا رہا ہے۔ خدا کے لئے اسے روک دو۔میری یادوں کا آشیانہ تو گرا چکے ہو لیکن اس پرانے پیڑ پر سینکڑوں پرندوں کے آشیانے ہیں ۔ یہ کہاں جائیں گے۔ گھر مسمار ہونے کا دکھ میں جانتی ہوں ۔ اس پیڑ کے ساتھ تو تمہارا ماضی جڑا ہے ۔جب میں تمہیں اس پیڑ کے نیچے سلایا کرتی تھی اور خود کھیتوں میں کام کرنے جاتی تھی۔ یہ پیڑ تمہیں سایہ فراہم کرتا تھا اور اس پر موجود پرندے تمہیں لوریاں سناتے تھے۔ اتنے میں بلڈوز نے پیڑ کو ایک زوردار دھکا مارا اور پیڑ سے یکے بعد دیگرے گھونسلے گر کر چکنا چور ہو گئے۔ سارہ کی آنکھوں میں جیسے اندھیرا چھا گیا ۔ کچھ گھونسلوں میں انڈے تھے اور کچھ گھونسلوں میں چھوٹے چھوٹے بچے تھے جو اڑ نہیں سکتے تھے ۔ انڈے بھی نیچے گر کر چکنا چور ہو گئے اور بچوں کی چوں چوں بھی ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی ۔ اتنے میں چڑیوں نے آکر شوروغل مچایا جیسے بلڈوزر والے سے کہہ رہیں ہوں خدا کے لیے ہمارے گھر مسمار مت کرو ۔ ہم اس کھڑی دھوپ میں کہاں جائیں گے۔ لیکن ان مظلوموں کی کون سنتا، نقار خانے میں طوطے کی آواز کون سنتا ہے ۔ بلڈوزر ڈرائیور اس سب سے بے خبر اونچی آواز میں گانا سن رہا تھا اور اپنے کام میں منہمک تھا۔ سارہ بیٹے کی طرف متوجہ ہوئی، بیٹا اس جگہ پر ایسا کیا بنانا ہے جو اتنے پرندوں کے گھر اور سایہ دینے والا یہ پیڑ گرا دیا۔ سارہ نئے مکان کی کھڑکی سے پرانے گھر کی تباہی کا یہ منظر دیکھ رہی تھی اور بہت ہی معصومانہ انداز میں بیٹے سے پوچھا۔ ماں اس جگہ تو گاڑی کے لئے گراج بنانا ہے۔ بیٹا اتنے جانداروں کا گھر اجاڑ کر ایک بے جان چیز کے لیے گھر بنانا ہے ۔یہ کہتے ہوئے ماں کی آنکھیں پتھرا گئیں اور زبان جیسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی۔
���
اویل نورآباد، کولگام
موبائل نمبر؛70067384436