فکر ِ صحت
لیاقت علی جتوئی
انسانی صحت اور غذا کے درمیان تعلق پر کی جانے والی ایک تحقیق میں محققین کا کہنا ہے کہ اگر آپ خود کو دل کے امراض اور ذیابطیس وغیرہ سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو ’’کریش ڈائٹ‘‘ کو اپنانے کے بجائے روزانہ کی غذا سے ایک خمیری روٹی یا ’چِیز پیزا‘ کی ایک سلائس کے مساوی کیلوریز کم کردیں، اس طرح آپ آسانی سے ہائی بلڈ پریشر، ہائی بلڈ شوگر، کمر کے اِرد گرد اضافی چربی اور کولیسٹرول کی غیرمعمولی سطح میں قابلِ ذکر حد تک کمی لاسکتے ہیں۔دو برس تک جاری رہنے والی اس تحقیق میں شامل افراد کو اپنی کیلوریز کی یومیہ کھپت میں 12فی صد یعنی 300کیلوریز کٹوتی کا کہا گیا۔ کم کیلوریز لینے کے اس عمل میں ان افراد کے وزن میں اوسطً 16 پونڈ (زیادہ تر چربی) کمی آئی۔ ’’دو سال تک کیلوریز کے استعمال میں محدود پیمانے پر مسلسل کمی کرکے ایسے نوجوان، جن کا وزن زیادہ نہیں ہے خود کو متعدد امراض کے خطرات سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔یہ تحقیق اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ نوجوان اور ادھیڑ عمر کے افراد، وزن بڑھانے کے بعد سخت قسم کا ڈائٹ کورس اختیار کرنے کے بجائے اگر بروقت اپنی کیلوریز کے استعمال میں محدود پیمانے پر کمی کرنے کی عادت اپنا لیں تو اس سے ہماری آبادی کا ایک بڑا حصہ طویل عمر تک صحت مند زندگی گزارنے کی بنیاد ڈال سکتا ہے‘‘۔ تحقیق یہ بتاتی ہے کہ’’ کیلوریز میں کٹوتی ہر جاندار چیز پر دونوں طرح سے اثرانداز ہوتی ہے، جبکہ ورزش صرف انسانی صحت کے دورانیہ پر اثرانداز ہوتی ہے، زندگی کے دورانیہ پر نہیں‘‘۔تحقیق کے گروپ میں عمومی وزن یا عمومی سے کچھ زائد وزن کے حامل نوجوانوں اور ادھیڑ عمر کے افراد کو شامل کیا گیا تھا اور نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ کیلوریز کے استعمال کو محدود طور پر کم کرنے کا ان افراد کی صحت پر قابلِ ذکر حد تک اثر پڑا، مزید برآں جن لوگوں کی صحت عمومی طور پر اچھی تھی، ان کی صحت مزید بہتر ہوگئی۔’’کیلوریز کے استعمال میں کمی کا اثر نہ صرف ان لوگوں پر دیکھا جاتا ہے جن میں موٹاپے اور ذیابطیس کے خطرات زیادہ پائے جاتے ہیں بلکہ ان لوگوں کی صحت بھی مزید بہتر ہوجاتی ہے جن میں جسمانی بیماریوں کے خطرات کم ہوتے ہیں‘‘امریکا کے محکمہ زراعت کے مطابق، ایک اوسط بالغ خاتون کو روزانہ 16سو سے 24سو کیلوریز جبکہ مرد حضرات کو 2ہزار سے 3ہزار کیلوریز کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک شخص کو حقیقتاً روزانہ کتنی کیلوریز کی ضرورت ہوتی ہے، اس کا دارومدار آپ کی عمر، صنف، وزن اور جسمانی سرگرمیوں کی نوعیت پر ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق، کیلوریز میں محدود پیمانے پر کمی لاکر انسان اپنی جسمانی صحت کو بہتر اور بہت ساری بیماریوں کے خطرات سے خود کو محفوظ رکھ سکتا ہے لیکن یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ہر شخص کو اس کی عمر، صنف، وزن اور جسمانی سرگرمیوں کے مطابق کیلوریز کی ضرورت ہوتی ہے، جس سے کم کیلوریز کا استعمال اس کی صحت پر منفی اثرات مرتب کرسکتا ہے۔ظاہر ہے کہمزے مزے کے مسالے دار کھانے انسان کی کمزوری رہے ہیں۔ آخر کون ایسا شخص ہوگا جو کھانوں میں ذائقے کی تلاش میں نہ رہتا ہو۔ نئے ذائقوں کی تلاش کی جستجو کے نتیجے میں انسان خوراک کے ساتھ مختلف تجربات بھی کرتا رہتا ہے اور یہ ناقابل یقین حد تک ایک تخلیقی عمل ہے۔ لیکن جو کھانے ہم کھاتے ہیں اور وہ جو کچھ ہمارے ساتھ کرتے ہیں، وہ اس سے بھی زیادہ دلچسپ ہے، خاص طور پر جب بات الٹرا پراسیسڈ کھانوں کی ہو۔
ہم روزمرہ میں مختلف طرح کے پراسیسڈ کھانے کھاتے ہیں۔ پکلنگ، کیننگ، پیسچورائزنگ، فرمنٹنگ، ری کونسٹیٹیوٹنگ ۔ یہ سب فوڈ پراسیسنگ کی شکلیں ہیں، اور حتمی نتائج اکثر کافی مزیدار ہوتے ہیں۔ ایک خصوصیت جو ’الٹرا پراسیسڈ‘ فوڈز (یوپی ایف) کو منفرد کرتی ہے وہ یہ ہے کہ انھیں پہچان سے کہیں زیادہ اور کیمیائی طور پر تبدیل کر دیا جاتا ہے اور اس میں ایسے مختلف طریقے اور اجزا استعمال کیے جاتے ہیں جو ہم گھر پر کھانا پکاتے وقت عام طور پر استعمال نہیں کرتے۔چند برس قبل ڈاکٹر کرس وان ٹولکین نے غیرملکی نشریاتی ادارے کے لیے ایک تجربہ کیا تھا جس میں انھوں نے ایک ماہ تک ’الٹرا پراسیسڈ کھانا کھایا۔ یہ کوئی اچھا تجربہ ثابت نہیں ہوا۔ اس تجربے کے دوران ڈاکٹر ٹولکین نے ایک ایسی غذا کھائی جس میں انھیں 80 فیصد کیلوریز الٹرا پراسیسڈ کھانوں سے حاصل ہوئیں۔ مہینے کے اختتام پر ڈاکٹر ٹولکین نے کم نیند، سینے اور معدے میں جلن، سستی، قبض، پائلز اور وزن میں سات کلو اضافے کی اطلاع دی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے خود کو دس سال بوڑھا محسوس کیا۔ ڈاکٹر ٹولکین کے تجربے کے ساتھ ساتھ کی گئی ایک اور تحقیق میں اس کی کچھ سائنسی وجوہات بتائی گئی ہیں۔اس تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے مقابلے میں جو کم یوپی ایف غذا کھاتے ہیں، الٹرا پراسیسڈ غذا کھانے والے افراد نے روزانہ 500 سے زیادہ کیلوریز کھائیں۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ بھوک کے لیے ذمہ دار ہارمونز میں اضافہ ہوا اور اس ہارمون میں کمی ہوئی جس سے ہمیں پیٹ بھرنے یا سیری کا احساس ہوتا ہے، جس سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ بہت سے لوگوں نے کیوں زیادہ کھانا کھایا اور وزن بڑھا لیا۔ لیکن وزن میں اضافہ زیادہ یو پی ایف والی غذا سے وابستہ مسائل میں سے ایک مسئلہ ہے۔ کئی دیگر مطالعات میں دیکھا گیا ہے کہ یو پی ایف غذا کے طویل عرصے تک کھانے اور دل کی بیماری، موٹاپا، ذیابطیس کی دونوں اقسام، کچھ طرح کے کینسروں اور حتیٰ کہ ڈپریشن میں بھی ایک طرح کا تعلق ہے۔
فوڈ اور نیوٹریشن کی سائنسدان ڈاکٹر ایما بیکٹ یہ سمجھ سکتی ہیں۔ ’الٹرا پراسیسڈ کھانے ذائقہ دار ہوتے ہیں۔‘ بطور ماہرِ غذائیات ان کے پاس بہت سی آسان وضاحت ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ چربی اور کاربوہائیڈریٹ یا نشاستہ دار غذا سے ہماری محبت ’ارتقاء کا خمار‘ ہے۔ ’جب ’نیچرل‘ سیلیکشن نے ہماری ذائقہ کی حس کا انتخاب کیا تو اس وقت توانائی اور نمک کے ذرائع بہت کم تھے۔‘ڈاکٹر ٹولکین اعتراف کرتے ہیں کہ ’الٹرا پراسیسڈ غذا کھانا ایک ایسی چیز بن گیا ہے جس کے متعلق میرا دماغ صرف مجھے بتاتا ہے، چاہے مجھے اس کی ضرورت نہ بھی ہو۔ درحقیقت ان کی دماغی سرگرمی کے اسکینز سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انعام کے لیے ذمہ دار دماغ کے حصے ان حصوں سے مل گئے ہیں جو بار بار کام کرنے والے خود کار رویے کو کنٹرول کرتے ہیں۔ بنیادی طور پر ان کے دماغ کو الٹرا پراسیسڈ غذا کی لت پڑ گئی تھی۔ ڈاکٹر ٹولکین یہ بھی اعتراف کرتے ہیں کہ ’واقعی مزیدار کھانے کا ایک ضمنی اثر یہ ہوتا ہے کہ اسے کھانا ختم کرنا واقعی مشکل ہو جاتا ہے۔جنک فوڈ کے لیے مثبت جذبات ہمیں فوری طور پر متاثر کرتے ہیں۔ لیکن منفی اثرات میں اضافہ ہونے میں وقت لگتا ہے۔ ہمارے لیے یہ یقین کرنا آسان ہے کہ ہمارے پاس بعد میں (اپنی کھانے کی عادات) کو تبدیل کرنے کا وقت ہو گا، یا اس کا نتیجہ بہرحال ناگزیر تھا۔‘ آسان زبان میں: اب آپ اسے پسند کریں گے، لیکن بعد میں آپ کو پچھتاوا ہوگا۔تمام صورتِ حال کا جائزہ لینے کے بعد سوال یہ اُٹھتا ہے کہ اگر یوپی ایف صحت کے لیے اتنا ہی خطرہ ہیں تو وہ ہیں ہی کیوں۔ ڈاکٹر بیکٹ کہتی ہیں کہ ’آسٹریلین گائیڈ ٹو ہیلتھی ایٹنگ‘ میں ہم ان غذاؤں کو ’صوابدیدی کھانے‘ کہتے ہیں، کیونکہ یہ ضرورت نہیں، انتخاب ہیں۔لیکن وہ کہتی ہیں کہ جن کے پاس انتخاب کی سہولت ہے انھیں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ’ہر ایک، صحت کے لیے کھانے کے انتخاب کی پوزیشن میں نہیں ہوتا۔ الٹرا پراسیسڈ کھانے طویل عرصے تک چلتے ہیں، نقل و حمل میں آسان ہوتے ہیں، اور ان کی تیاری میں بہت کم وقت لگتا ہے۔ جب ہمارے پاس وقت یا کیش کم ہو تو یہ توازن کے لیے اچھا آپشن ہو سکتے ہیں۔