گاؤں سے آئے ہوئے اب اُس کو لگ بھگ دو تین مہینے ہو گئے تھے۔اس شہر میںاُس کا کام کرنا بہت مشکل تھا۔ایک طرف یہاں کی گرمی ااور دوسرے طرف یہاں کے ماحول سے ناواقف ہونا اُس کے لئے اور مشکلیں بڑھا رہاتھا۔لیکن اُس نے ہمت نہیں ہاری اور برابر مقابلہ کرتا گیا ۔پہلے پہل جب وہ آیا تھا تو اس کی شکل سے ایسا اندازہ ہوتا تھا کہ زندگی میں کبھی نہایا ہی نہیں ہوگا۔شاید پانی کے ساتھ اس کی دشمنی چل رہی تھی اور کپڑے بھی ایسے پہنے تھے کہ لگتا تھا کہ سالوں سے اس کے کپڑوں نے کبھی پانی ہی دیکھا ہی نہ ہوگا۔کسی سے بات نہ کرنا اور صبح نکل کر شام کو لوٹ آنا۔کپڑوںسے بھی ایسی بو آتی تھی کہ لوگ اس سے دوردور بھاگ جاتے تھے ۔پہلے پہل تو وہ ہر روز ایک ہی شرٹ پینٹ پہن کر کام پر جاتاتھا لیکن شہرکے بعد اس کی زندگی تھوڑی تھوڑی بدلنے لگی۔ایک چیز اس میں ضرور تھی وہ تھی محنت ،جو وہ بہت کیا کرتاتھا۔صبح سے شام اور کبھی کبھی رات گئے تک کام کرتا رہتا تھا۔شاید پیسے جمع کر رہاتھا ۔اس کا کرائیے کا کمرہ بھی بہت ہی بوسیدہ سا تھا جس میں یہ اپنی زندگی بسر کر رہاتھا۔ اور کبھی کبھی اس کرائیے کے کمرے میں خود سے بھڑبھڑاتا رہتا تھا۔
ہر دن کام پر جانا اُس کے لئے ایک نشہ بن گیاتھا۔ایسا لگتا تھا کہ وہ کھانابھول سکتا تھا لیکن کام نہیں۔جب سے اس شہر میں آیا تھا تب سے ایک دن بھی اُس نے آرام نہیں کیا تھا۔ان تینوں مہنیوں کی زندگی نے اب دھیرے دھیرے اُس کے رہن سہن میں تھوڑی بہت تبدیلی لائی تھی ۔لیکن ایک بات تھی کہ وہ ہمیشہ خاموش رہتاتھا۔ سب کچھ بدلنے لگا لیکن اس کی خاموشی نہیں بدلی۔ہاں کبھی کبھی مکان مالکن اس کو کوئی آواز لگاتی تو وہ ہوں ہاں کرکے سر ہلاکر جواب دیتاتھا۔ایک دن کام پر جانے کے لئے سیڑھیوں سے اُتر رہاتھا کہ سامنے مکان مالکن آنٹی کھڑی تھی ۔
کہاں جارہے ہو ۔آنٹی نے پوچھا۔
کام پر ۔۔ ضمیر نے جواب دیا۔
یہ بتاؤ اتنے خاموش کیوں رہتے ہو ؟کبھی تو بات کیا کرو یاکبھی کسی چیز کی ضرورت ہو تومانگا کرو۔آنٹی شفقت سے بولی۔
جی ۔ہاں۔
اب کچھ تو بولواپنے بارے میں ۔
ہاں ۔اُس نے کہا۔
کیا خالی جی اور ہاں کررہے ہو۔ ان کے سوا آپ کے پاس کوئی الفاظ نہیں ہیں کیا؟۔ آنٹی کو تھوڑا غصہ آنے لگا۔
نہیں ایسی بات نہیں ہے۔ ضمیر نے نرمی کے ساتھ جواب دیا۔
کہاںسے آئے ہو ۔آنٹی نے پوچھا
جی میں کشمیر سے آیا ہوں ۔۔ضمیر نے ذرا توقف کرکے کہا۔
اتنی محنت کرتے ہو۔ اور کون کون ہے تمہارے گھر میں ۔۔آنٹی نے سوال کیا
میری دو چھوٹی بہنیں ہیں بس ۔اُس نے آہ بھرتے ہوئے کہا۔
کیا ماں باپ نہیں ہیں ۔آنٹی نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔
نہیں ماں اس دنیا سے چلی گئی اور باپ نے دوسری شادی کی اور اُس کے ساتھ بھاگ کر ہم بھائی بہنوں کو اکیلے چھوڑ گیا۔۔یہ کہتے کہتے
اُس کی انکھوں میں آنسو موتیوں کی طرح چمکنے لگے۔سب ٹھیک ہوگا اللہ پر بھروسہ رکھو۔۔ آنٹی نے دلاسہ دیتے ہوئے کہا۔
جی ۔اُس نے لمبی سانس لے کر جواب دیا۔
آنٹی نے شفقت بھری نگاہون سے اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا ،اپنا خیال رکھا کرو اور کسی چیز کی ضرورت ہو تو اس کو اپناگھر سمجھو اور آج سے مجھے آنٹی نہیں بلکہ اپنی ماں کی طرح سمجھنا ۔۔۔!
جی ہاں ۔ضمیر کے چہرے پر جیسے پھول کھلنے لگے اور اس کے بعد وہ اس کو ماں کہہ کر پکارنے لگا ۔ وہ اس سے اس طرح گھل مل گیا کہ دن بھر جو کچھ کرتا تھاشام کوسب کچھ ماں کو سناتا تھا ۔اب وہ بھی سوچنے لگا کہ ماں کے زندگی میں آنے سے میری زندگی میں کتنا بدلاؤ آنے لگا۔جس کو خاموشی نے گھیر رکھا تھا اب اس کے ہونٹوں پر مسکان ہی مسکان نظر آرہی تھی۔
میں اپنے کمائے ہوئے پیسے اس لاکر میںرکھنا چاہتا ہوں ۔۔ضمیر بولا۔
تمہارا گھر ہے یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے ۔تمہیں کچھ بھی کرنا ہوکبھی بھی پوچھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرنا،جو من میںآئے کیا کرو۔آنٹی نے دلاسہ دیتے ہوئے کہا۔
جی ضرور ۔ضمیر نے سارے بدن میں مسرت کی لہرمحسوس کرتے ہوئے جواب دیا۔
وقت گذرتا گیا اور ضمیر آنٹی کا خیا ل اپنی سگی ماںسے بھی زیادہ رکھنے لگا کیونکہ وہ اب اس کے پیار کوکھونا نہیں چاہتاتھا۔وہ لاکر میں پیسے جمع تو کرتا گیا لیکن چابی ہمیشہ آنٹی کے پاس ہی رکھتا۔اُس کو پتہ تھا کہ مجھے اس کے سوا اور کسی پہ بھروسہ نہیں۔ایک دن دونوں باتوں میںگم تھے کہ باہر سے آواز آئی، کہ کیا کوئی کمرہ خالی ہے کرائیے کے لئے ۔
ہاں ہاں ۔ اندر آجاؤ ۔آنٹی بولی ۔
دد نوجوان دروازے سے اندر آئے اور کہنے لگے کہ انہیں کرائے پر کمرہ چاہئے۔آنٹی نے سر ہلایا اور کہنے لگی کہ ضمیر بیٹا ان کو اپنے کمرے کے سامنے والا کمرہ دکھادو۔
جی ۔ضمیر بولا۔
کیا کرتے ہو؟ کہاں سے ہو اورنام کیا ہے؟۔آنٹی نے پوچھا۔
جی ہم دونوں ایک پرائیویٹ کمپنی میں نوکری کرتے ہے ۔پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں ۔میرا نام راجا اور اس کا ظفر ہے۔ایک نوجوان نے کہا۔
لیکن دونوں کمروںکے لئے ایک ہی ’’باتھ روم‘‘ ہے ۔۔آنٹی نے بول کے رکھا۔
چلو میں دکھاتا ہوں آپ لوگوں کو کمرہ ۔ضمیر بولا۔
اس کے بعد دونوں نوجوان کمرہ دیکھنے لگے اور ضمیر سے کہنے لگے کہ اس کا کرایہ کتنا ہے ۔مجھے نہیں پتہ آنٹی سے ہی پوچھ لو ۔ضمیر بولا۔
جی۔ظفر بولا۔
کرایہ کتنا ہوگا۔ نوجوان نے آنٹی سے پوچھا۔
دو ہزار ماہانہ ۔۔آنٹی بولی
کچھ کم نہیں ہوسکتا۔ ظفر نے ملتجی انداز میں کہا۔
نہیں ہوسکتا، دوہزار فائنیل ہے، اس سے ایک روپیہ بھی کم نہیں لوں گی اور اپنا شناختی ثبوت (ID Proof)پہلے دے دو۔آنٹی ذرا تحکمانہ انداز میں کہا۔
دراصل دونوں نوجوان دن بھر کمرا ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک گئے تھے لہٰذا انہوں نے دو ہزار روپے پر حامی بھر لی اور کچھ پیسے ایڈوانس دے کر یہ کہنے لگے کہ ہم کل سامان لے کر آرہے ہیں۔اور یہ ہمارا آئی ڈی پروف ہے۔
جی جب آنا ہو آجاؤ۔آنٹی بولی
اچھااب چلتے ہے۔یہ کہکر نوجوان چلے گئے۔
میں بھی دوکان پر جارہاہوں ۔ضمیر نے آنٹی سے کہا
کیوں ؟شام کا کھانا میرے ساتھ ہی کھانا ،میں تب تک تیاری کرتی ہوں۔آنٹی نے ضمیر سے کہہ دیا۔
کچھ کام ہے واپس آکے بتاتا ہوں ۔۔ضمیر نے جواب دیا
ٹھیک ہے ۔آنٹی بولی
رات کو واپس آنے کے بعد ضمیر نے آنٹی کے ساتھ کھانا کھایا اور ادھر اُدھر کی باتیں کرنے لگیں۔اچھا تو اب میں سوتا ہوں ماں ،ضمیر نے آنٹی سے کہا۔
ہاں سو جاؤ بیٹا ،دن بھر کام سے تھک جاتے ہو ۔
صبح مجھے جلدی کام پر جانا ہے۔ضمیر نے کہا
ٹھیک ہے پر اپنے صحت کا بھی خیال رکھا کرو۔آنٹی نے ہمدردی سے کہا
جی ۔اللہ حافظ ۔
صبح ضمیر سویرے ہی کام پہ چلا گیا اور دن بھر کی تھکان کے بعد جب وہ شام کو واپس لوٹا تو دیکھا کہ دونوں نوجوان اُس کے بغل والے کمرے میں رہنے کے لئے آگئے تھے۔
کچھ دن گذر جانے کے بعدضمیر برتن دھونے کے لئے واش روم جارہا تھا تو یہ دونوں نوجواں آپس میں آنٹی کے متعلق گندی گندی باتیں کر رہے تھے۔ کیا مال لگتی ہے ۔راجا نے بولا
ہاں بھائی ۔پتہ نہیں اتنی خوبصورت بیوی کو پتی کیوں چھوڑ گیا۔ظفر نے کہا
اس لئے چھوڑا ہوگا کیوں کہ یہ چالو مال لگتی ہے ۔راجا بولا
اگر کچھ بات اس کے ساتھ بن جائے تو زندگی کا مزہ ہی کچھ اور ہوگا۔ظفر بولا
دونوں زور زور سے ہنسنے لگے۔ضمیر ان باتوں کو برداشت نہ کرسکا، چونکہ ان کا دروازہ کھلا تھا،جس سے ان کی آواز باہر آرہی تھیں ۔ضمیر برتن دھوئے بنا ہی اُٹھ کر ان کے دروازے کے پاس چلا گیا اور اُن سے کہنے لگا کہ آنٹی کے بارے میں وہ یہ غلط باتیں کیوں کررہے ہیں، وہ ہماری ماں کے برابر ہے۔ ہم اس گھر میں رہتے ہیں اور ایسا سوچنا بھی گناہ ہے۔ کیا ہماری اپنی ماں بہن نہیں ہے ؟
ماں ہوگی تمہاری، گھر ہوگا تمہارا۔ہم کرایہ دار ہیں، ظفر نے بے پرواہ ہوکر جواب دیا۔
میں صبح آنٹی کو سب کچھ بتاؤں گا ۔ ضمیر نے ذرا غصے سے بولا۔
نہیں ضمیر ایسا مت کرو۔راجا نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کو اپنے کمرے میں کھنچ لیا ۔باتوں باتوں میں اتنی گرماگرمی ہوئی کہ ایک دوسرے پر ہاتھ اُٹھنے لگے۔یہاں تک کہ ظفر نے کوئی وزنی چیز ضمیر کے سر پر دے ماری جس کی وجہ سے ضمیر وہیں پر گر گیا۔اب دونوں پریشان ہوئے اور اس کو ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگے۔لیکن ضمیر ہوش میں نہیں آیا۔ دونوں بھاگنے کی سوچ رہے تھے مگر انکے آئی ڈی کارڑوں کی کاپیاں آنٹی کے پاس تھیں۔
پہلے اس کواپنے کمرے میں لے جاتے ہے اس کے بعد آنٹی کو بولتے ہیں۔ظفر نے مشورہ دیا۔
دونوں نے ضمیر کو اُٹھایا کے کمرے میں لے گئے اور آنٹی کو آواز لگانے لگے۔آنٹی اوپر آئی تو دیکھ کے حیران ہو گئی کہ ضمیر بیڈ پر پڑا ہواتھااور یہ دونوں خوف زدہ اس کے سامنے کھڑے بیٹھے تھے۔
یہ کیا کیا آپ لوگوں نے۔آنٹی نے کرخت لہجے میں پوچھا۔
آنٹی یہ آپ کے بارے میں برُی برُی باتیں کر رہاتھا۔ہم سے برداشت نہیں ہوا ۔ہاتھا پائی ہوئی تو اچانک اسکے سر پر چوٹ لگ گئی ۔ظفر نے وضاحت دیتے ہوئے کہا۔
باتیں ہی کر رہا تھا نا، تمہیں اس کو مارنا تو نہیں چاہئے تھا ۔مجھے بولنا تھا میں خود سزا دیتی ۔اب کیا ہوگا۔میں پولیس کو فون کرتی ہوں ۔۔۔۔آنٹی بولی
نہیں نہیں آنٹی ۔۔پلیز۔۔پہلے کچھ سوچتے ہیں ظفربولا۔
کیا سوچنا ہے تمہیں تو پھانسی ہونی چاہئے۔آنٹی بولی۔
نہیں پلیز ہمارے پاس ایک مشورہ ہے اگر آپ مانو ۔ظفر بولا
کیا مشورہ ہے۔ آنٹی غصہ میں بولی ۔
ہمارے پاس کمپنی کے ایک لاکھ روپیہ ہیں ۔جن سے ہمیں کل کمپنی کے لئے سامان خریدنا تھا۔ آگر آپ یہ رکھ لو گے اور ہمارا ساتھ دو گے ۔۔راجابولا
کیسا ساتھ۔ خون کو اپنے سر لے لوں ۔اور پھانسی پہ چڑھ جاوں۔آنٹی نے چلاِکر کہا
نہیں آنٹی اگر ہم اس کو خودکشی دکھائیں تو نہ آپ پہ الزام آئے گا اور نہ ہم پر ۔اس کے لئے آپ یہ ایک لاکھ رکھ لو۔ظفر بولا
آنٹی نے کچھ دیر کے لئے خاموشی اختیار کی ۔اور پیسوں کے بارے میں سوچنے لگی ۔اور کہنے لگی کہ اسکا کرو گے ۔
آپ آنٹی بس دیکھتے رہیں ۔۔ظفر بولا۔
دونوں نے ایک پردہ پنکھے کے ساتھ باندھا اور آنٹی سے کہنے لگے کہ اب ضمیر کو اس کے ساتھ لٹا کر خودکشی جتلائینگے۔اوریہ رہاآپ کا ایک لاکھ روپیہ۔آنٹی نے پیسے پکڑے اور ان کا ساتھ دینے لگی۔چونکہ ضمیر کا جسم کافی بھاری تھا لہذا اُن دونوں سے اُٹھایا نہیں جا رہا تھا لہذا انہوں نے آنٹی کو بھی مدد کے لئے کہا ۔راجا نے پیر،ظفر نے جسم کے بیچ کے حصے کو پکڑا اور آنٹی کو سینہ اور سر کو پکڑنے کے لئے کہا ۔جوں ہی آنٹی نے ضمیرکے سینے پر ہاتھ رکھا تو محسوس کیا کہ اس کا دل دھڑک رہا ہے اور سانسیں ابھی چل رہی ہیں۔لیکن پیسوں کے کے چکر میں چپ رہی ۔جوں ہی انہوں نے ضمیر کو لٹکانے کے لئے اُٹھایا تو ضمیر نے اچانک آنکھیں کھولیں اور اس کی زبان سے یہ الفاط نکلے کہ’’ ان سے تو مجھے گلہ نہیںیہ تو مجھے جانتے ہی نہیں لیکن آپ تو میری ماں بنی تھی نہ ،ہاں۔ماں۔ !
٭٭٭٭
ریسرچ سکالرڈاکٹر ہری سنگھ گور سنڑل یونیورسٹی
ایم۔پی [email protected]