کپوارہ//سرحدی ضلع کپوارہ میں شعبہ صحت کی کوئی بھی کل سیدھی ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے جس کی وجہ سے عام لوگ شدید مشکلات کا سامنا کررہے ہیں ۔شعبہ صحت کی ناقص کارکردگی کے مظاہرے سے حالیہ دنوں میں ایک نوزائدہبچہ لقمہ اجل بن گیا ۔تفصیلات کے مطابق این ایچ ایم ملازمین کیہڑتال ختم ہونے کے ایک روز قبل رامحال ویلگام کے وائسہ پائین کی درد زہ میں مبتلا خاتون مغلی بیگم زوجہ غلام محمد میر کو پرائمری ہلتھ سنٹر ویلگام میں داخل کیا گیا لیکن وہاں پر نیم طبی عملہ نے درد زہ میں مبتلا خاتون کی طرف کوئی تو جہ نہیں دی ۔مریضہ کے ساتھ ایک مقامی شہری اور سابق ڈپٹی سرپنچ رفیق احمد نے کشمیر عظمیٰ کو بتا یا کہ پہلے مریضہ کو اسپتال میں داخل کیا گیا اور اس کے بعد انہیں یہ کہہ کر کا غذ کے ایک ٹکڑے پر دوائی لکھ دی کہ اب آپ کو بچے جننے کا وقت نہیں ہے اور مریضہ کو اسپتال سے رخصت کیا گیا ۔انہو ں نے کہا کہ جب انہوں نے مریضہ کو گھر پہنچایا تو کچھ دیر بعد اس کے درد میں اضافہ ہوااور اس نے بچے کو جنم دیا تاہم افراد کنبہ نے یہ محسوس کیا کہ نو ائد بچہ بھی بیمار ہے اور قریب 3گھنٹہ زندہ رہنے کے بعد بچہ مر گیا ۔علا قہ کی ایک آشا ورکر نے کشمیر عظمیٰ کو اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتا یا کہ این ایچ ایم ملازمین اگرچہ ہڑتال پر تھے تاہم اسپتال میں موجود دیگر عملہ نے سخت لا پرائی کا مظاہرہ کر کے مریضہ کی طرف کوئی توجہ نہیں دی اور اگر انہیں کسی دوسرے اسپتال منتقل کیا جاتا تو اس کا نوازئد بچہ شاید بچ جاتا ۔انہو ں نے کہا کہ مریضہ کی طرف کو ئی توجہ نہیں دی گئی جس کے نتیجے میں گھر پہنچنے پر مریضہ نے سخت مشکل حالات میں بچے کوجنم دیا لیکن کچھ گھنٹوں کی بعد نوزائد بچہ فوت ہو گیا ۔اس واقعہ کے خلاف مقامی لوگو ں میں زبردست غم وغصہ پایا جارہا ہے ۔علاقہ کے لوگو ں کا کہنا ہے کہ این ایچ ایم ملازمین کی ہڑتال سے اگرچہ اثر پڑ گیا لیکن پھر بھی ویلگام کے پرائمری ہیلتھ سنٹر میں مریضوں کے علاج و معالجہ کے لئے بہتر سہولیات میسر نہیں ہیں ۔علاقے کے لوگو ں نے بتا یا کہ اسپتال میں ماہر امراض خواتین کوئی ڈاکٹر تعینات نہیں ہے جس کی وجہ سے اکثر درد ذہ میں مبتلا خواتین کو ہندوارہ یا سرینگر منتقل کیا جاتا ہے ۔اس حوالے سے بلاک میڈیکل آ فیسر ویلگام ڈاکٹر جاوید احمد نے کشمیر عظمیٰ کو بتا یا این ایچ ایم ملازمین جن میں ڈاکٹر بھی شامل ہیں ہڑتال پر تھے لیکن پھر بھی نیم طبی عملے نے وائسہ کی درد ذہ میں مبتلا خاتون مغلی کا ابتدائی علاج و معالجہ کیا جبکہ ڈیوٹی پر تعینات عملہ نے درد ذہ میں مبتلا خاتون سے اسپتال کا ریکارڈ طلب کیا جو اس کے پاس نہیں تھا اور ناہی اس کے ساتھ کوئی آشا ورکر تھی جو مریضہ کے بارے میں طبی عملے کو صحیح جا نکاری فراہم کرسکیں ۔انہو ں نے بتایا کہ انہو ں نے مریضہ کے حوالے سے ڈیوٹی پر تعینات ملازمین سے ایک رپورٹ طلب کی تاکہ اس واقعہ کی تحقیقات کی جائے ۔