عظمیٰ یاسمین
تھنہ منڈی// سب ڈویژن تھنہ منڈی کے گاؤں لوہر کریوٹ میں واقع گورنمنٹ پرائمری سکول شدید مسائل کا شکار ہے، جہاں اساتذہ کی عدم موجودگی کے باعث بچوں کا تعلیمی مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے۔ اسکول میں ایک خاتون استانی نے چھ ماہ کی رخصت لے رکھی ہے، جبکہ دوسرے استاد کو منگوٹہ ہائی سکول میں اٹیچ کر دیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں یہ تعلیمی ادارہ صرف ایک ’آیا‘ اور باورچی کے رحم و کرم پر چل رہا ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق، اس سکول میں 18 بچے زیر تعلیم ہیں، جن کا تعلق غریب اور پسماندہ طبقے سے ہے۔ اساتذہ کی عدم دستیابی کے باعث نہ صرف ان بچوں کی تعلیم متاثر ہو رہی ہے بلکہ ان کا مستقبل بھی داؤ پر لگ گیا ہے۔ والدین شدید پریشان ہیں کہ ان کے بچوں کے سیکھنے کا عمل رک گیا ہے اور انتظامیہ کی بے حسی نے معاملے کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ اس تشویشناک صورتحال پر والدین اور مقامی لوگوں نے متعدد بار زونل ایجوکیشن آفیسر تھنہ منڈی اور چیف ایجوکیشن آفیسر راجوری سے رابطہ کیا، تاہم کوئی موثر کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔ ذرائع کے مطابق، زونل ایجوکیشن آفیسر کا موقف ہے کہ یہ اساتذہ ضلع ترقیاتی کمشنر راجوری کے احکامات کے تحت ’مشن یوتھ سروے‘ میں تعینات کئے گئے ہیں، اس لئے اس معاملے میں وہ کچھ نہیں کر سکتے۔ یہ صورتحال ایک اہم سوالیہ نشان کھڑا کرتی ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں کی زبوں حالی اور انتظامی لاپروائی کا شکار غریب طلباء کا مستقبل کون سنوارے گا؟ کیا ’مشن یوتھ سروے‘جیسے پروگرام بچوں کی بنیادی تعلیم سے زیادہ اہم ہیں؟ اگر سرکاری تعلیمی ادارے یوں ہی نظر انداز کئے جاتے رہے تو غریب طبقے کے بچوں کو معیاری تعلیم کیسے فراہم کی جائے گی؟ لوہر کریوٹ کے مقامی باشندوں اور والدین حکام بالا سے مطالبہ کرتے ہیں کہ فوری طور پر اس سکول میں اساتذہ کی تعیناتی کی جائے، تاکہ ان معصوم بچوں کا تعلیمی نقصان روکا جا سکے۔ اگر فوری اقدامات نہ کئے گئے تو والدین اور مقامی افراد سخت احتجاج پر مجبور ہوں گے، جس کی تمام تر ذمہ داری متعلقہ حکام پر عائد ہوگی۔