چند برس قبل ہندوستان کے شہر چندی گڑھ میں ایک میڈیاکانفرنس کے بعد منتظمین شہر کے ایک صاف ستھرے اور بارونق علاقے میں واقع ایک نئے سنیما ہال میں فلم دکھانے لے گئے۔ فلم کا نام’’ ویر زارا‘‘ تھا اور یہ ۴۸۔۱۹۴۷ء میں ایک پاکستانی لڑکی کی ہندوستانی پائلٹ لڑکے سے محبت کی داستان تھی۔ وہ لاہور اُسے ملنے آتا ہے اور منگیتر صاحب دھوکے اور پولیس کی مدد سے اُسے جیل بھیج دیتے ہیں جہاں وہ معصوم اور بے گناہ ہیرو اپنی پوری جوانی جیل کی کالی دیواروں کے پیچھے گزار دیتا ہے۔ پھر ایک پاکستانی وکیل لڑکی اس کا کیس ہائی کورٹ میں لڑتی ہے اور عدالت قوم کی طرف سے اس کے بائیس سال ضائع کرنے پر معذرت کرتے ہوئے اسے رہا کر دیتی ہے اور وہ واپس اپنے پنجاب چلا جاتاتھا۔ اس دوران دو چار بڑے ہی کمال کے گانے بھی گاتا ہے اور جاتے ہوئے ہیروئن کو بھی ساتھ ہی لے جاتا ہے، فلم مکمل ہوجاتی ہے۔ شاہ رخ، پریتی زنٹا، رانی مکھرجی اور امیتابھ بچن کے ساتھ ہیما مالینی اس کی سٹار کاسٹ تھی۔ ہمدردی کا تمام ووٹ اس کے ساتھ ہوتا ہے، اس لیے فلم دیکھنے والے اس پر خوب تالیاں بجاتے ہیں، فلم ختم ہوئی تو میزبانوں نے تاثرات جاننے چاہے۔ میرے لیے تو وہی صاف ستھرا سینما ہی حیران کیے دیتا تھا جس کی کرسیوں کے بازو میں کافی کے کپ کی جگہ بھی تھی اور ماحول اس قدر نیٹ اور کلین تھا کہ یقین نہیں آتا تھا اسے آلودہ کرنے والی کوئی سیٹی، کوئی نعرہ اور پاؤں میں پھینکا ہوا کوئی ریپر تک نہیں تھا۔ہمارے ایک دو نیک قسم کے صحافی دوستوں نے فلم اور اس کے موضوع پر نہیں بلکہ پاکستانی لڑکی کے ہیروئن ہونے پر اعتراض کیا کہ ان کی غیرت کے لیے یہ قابل اعتراض تھا، باقی انہیں فلم سے کوئی پرابلم نہیں ہوا۔ فلم یہاں وہاں خوب چلی اور اس نے ہمدردی اور پیسہ بٹورا۔
دیکھا جائے تو ہم بحیثیت مجموعی ایسے ہی کھلے دل کے ہیں اورفلم کو فلم ہی لیتے ہیں، ہم نے پدماوت کے لیے بھی یہی کیا ہے ۔ہمارے سنسر بورڈ نے پہلے چار ایک اعتراض لگائے مگر پھر فلم کی خوبصورتی دیکھ کربنا کچھ کاٹے اسے پاس کر دیا اور سینماؤں میں ریلیز کرنے کی بخوشی اجازت دے دی۔ البتہ ا سی فلم پر ہندوستان میں ایک غدر مچا ہوا ہے۔ ہدایت کار کا سراور ہیروئن دپیکا پدوکون کا ناک کاٹنے پر اکاون لاکھ روپے کا انعام بھی رکھا گیا ہے، ایک ہندو انتہا پسند تنظیم کے سربراہ نے ہدایت کار کی ماں کے نام پر اسے تکلیف پہنچانے کے لیے ’’لیلیٰ کی لیلیٰ ‘‘کے نام سے فلم بنانے کا بھی اعلان فرما دیا ہے۔ دو صوبوں میں سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود فلم ریلیز نہیں ہو سکی۔ جلاؤ گھیراؤ، آگ لگاؤ قسم کی مہم پورے راجپوتانہ میں چل رہی ہے، میوار اجمیر اور چتوڑ میں اس کا زور زیادہ ہے۔ انتہا پسند ہندو دباؤ میں آکر انڈیا کے سنسر بورڈ نے فلم کا نام تک بدل دیا اور اسے پدماوتی سے پدماوت کر دیا،اس کے بے شمار سین کاٹ دیے، اسے ریلیز کرنے میں قسم قسم کی پابندیاں لگیں۔ بالآخر سپریم کورٹ نے مداخلت کی اور اسے سینما گھروں کی سکرینوں تک آنے کی اجازت ملی۔ اپنی ریلیز کے پہلے ہی دن اس نے ایک محتاط اندازے کے مطابق اٹھارہ سے بیس کروڑ روپے کا کامیاب بزنس کیا۔ امید کی جا رہی ہے کہ یہ جلد ہی سو کروڑ کمانے والی فلموں کے کلب میں شامل ہو جائے گی۔
یہ ساری دلچسپ باتیں ہیں اور ہم اس کی کہیں زیادہ تفصیل آئے روزاخبارات کے صفحات میں دیکھیں گے مگر فلم دیکھنے کے بعدمیرے لیے اصل غور و فکر کا ایشو ہی کچھ اور ہے، اور وہ ہے مسلمان ناظرین اور تماش بینوں کا رویہ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے اہل دانش کا معاملہ بھی کچھ مختلف نہیں ہے، اس سے قبل کہ تاریخ کے صفحات پر لکھے حقائق کی طرف جائیں پہلے آپ کو یہ بتا دوں کہ رام لیلا بھنسالی ایک باہنر اور باذوق ہدایت کا ر ہے، اس کی فلموں کے موضوعات کی سلیکشن، فلم کی عمدہ عکاسی اور کرداروں کے لیے مہنگے اورشاندار لباس یا کاسٹیوم سے لے کر مہنگے تاریخی سیٹ بنانے اور لگوانے کی مہارت نے اسے فلم میکنگ میں بہت منفرد اور نمایاں مقام دے رکھا ہے۔فلم دیکھ کر اس کی تحسین کیے بنا نہیں رہا جا سکتا۔ اس قدر خوبصورت اور جاذب نظر فلم کہ آپ اسے بھلا نہ سکیں۔ یہی اس کا کمال ہے کہ فلم دیکھنے والے اس کی مرضی سے تاریخ دیکھتے ہیں۔ علاؤ الدین خلجی جیسا بھی کامیاب بادشاہ رہا ہو، اسے لوگ سکندر ثانی کہتے رہے ہوں اور اس نے منگولوں کو چھ بار شکست دے کر قندھار اور غزنی تک پر قبضہ کر کے وحشی منگول حملوں کا مستقل سدباب کر دیا ہو،پہلی بار دہلی میں مارکیٹ بنائی ہو اور قیمتوں کا تعین کیا ہو کہ مہنگائی ختم کر دی ہو، ۳۵ برس بہترین حکمرانی کی ہو، بے شمار فلاحی کام کیے ہوں، شراب بنانے اور پینے پر پابندی لگائی ہو، مضبوط مرکزی حکومت بنائی ہو، مگر اس فلم میں وہ ایک جنگلی، وحشی اور درندہ قسم کا انسان ہے اور ایک عورت کی خاطر ہر رشتے اصول اور قاعدے کو چیونٹی کی طرح مسل کے رکھ دیتا ہے۔ اس کی بے رحم، بے لحاظ کینہ پرورآنکھیں، لمبے بال،جنگلیوں جیسی عادتیں کسی وحشی منگول یا کسی تاریک دور کے بادشاہ اور حاکم جیسی نظر آتی ہیں۔ اس کی اداکاری ایسی کہ مسلمان ناظرین ہر ہر سین کے بعدشرمندگی سے سر جھکاتے جائیں، اپنی تاریخ پر شرمندگی سے زمین میں دھنستے جائیں اور ہندو رانی پدماوتی کی بہادری، غیرت اور ذہانت کے گن گانے لگیں اور راجپوت راجہ کی شیردلی اور اساطیری رویّے پر عش عش کر اٹھیں۔
میں گزشتہ کئی روز سے تاریخ میں سے پدماوتی ڈھونڈ رہا ہوں۔ خلجی خاندان کے اس سلطان کی حیوانیت کے قصے تلاش کر رہا ہوں جو ہر خوبصورت لڑکی پر ریجھ جاتا ہوگا، ایک بدنگاہ پنڈت راگھو چیتن جو جادوگر بھی تھا اور جسے راجہ نے چتوڑ گڑھ سے نکال دیا تھا ،سے راجپوت راجہ کی رانی پدما وتی کی خوبصورتی کے قصے سن کر اسے حاصل کرنے نکل کھڑا ہو، کسی کی بیاہتابیوی پر بری نگاہ رکھنے اور اسے ایک رات کے لیے اٹھانے اور اپنے حرم کا حصہ بنانے کے لیے مہینوں چتوڑ کے قلعے کے باہر بیٹھا اور بندے مرواتا رہا ہو،مجھے آپ سے معذرت کر لینی چاہیے کہ میری تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئی ہیں اور میں یہ سب ڈھونڈنے میں ناکام رہا ہوں۔یہ دُرست ہے کہ پرانے ادوار کے بادشاہ بہت سے ناروا اور ناگوار کام کرتے رہے ہیں ان ادوار میں ان کو روا سمجھا جاتا رہا ہوگا مگر تاریخ کی بے رحم آنکھوں سے تو کوئی بھی ایسا کام اور حکمران نہیں بچ پاتا۔ یہ خلجی صاحب نے تاریخ دانوں کو کیا رشوت تھما دی کہ اس کے عہد میں ایسی کوئی کہانی نہ لکھی گئی، نہ معروف اور مشہور ہوئی،حتیٰ کہ ایس لال نے بھی علاؤ الدین خلجی پر اپنی تاریخی کتاب میں اس واقعہ کا سرے سے ذکر ہی نہ کیا ہو؟ اور پورے دو سو سال بعد ایک شاعر ملک محمد جائثی اپنے ہندو راجہ کے لیے ایک تصوراتی نظم لکھیں کہ جس کا نام پدماوت ہو اور محبت اور رومانس کے جذبات سے بھری ہواور یہ کہانی سات سو برس پرانے کسی عہد کی ہو مگر پدماوت نام سے (جو اب فلم کا نام ہے)ایسی مقبول زبان دی ہو کہ وقت کے ساتھ ساتھ اسے ایک تاریخی حقیقت جان لیا جائے اور ایک فرضی خوبصورتی پر ایک پورا افسانہ بنا کر عوام الناس کے جذبات سے کھیلا جائے؟
اگر دیکھا جائے تو اس موضوع پر جذبات تو مسلمانوں کے بھڑکنے چاہیے تھے کہ ان کی تاریخ کو بگاڑا گیا اور ان کے ایک بادشاہ کی یوں بے عزتی اور رسوائی کی گئی، مگر ہم تو سدا کے سادھو اور بے نیاز ٹھہرے۔ ایک آواز تک بلند نہیں ہوئی، اُلٹا اسے دُرست مان کر سنیماہال سے باہر نکلتے ہیں اور افسردہ اور شرمندہ شرمندہ گھروں کی راہ لیتے ہیں۔ پھر بھی کہتے ہیں ہم انتہا پسند ہیں؟ ویسے معاف کیجیے !یہ بے حسی بھی ہو سکتی ہے، بے علمی بھی اور بے نیازی بھی۔ اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلے گا کہ آپ کی ساری نئی نسل جو آج کی فلموں اور ان کے اداکاروں کی فین اور دلدادہ ہے، اسے حقیقت جان کر اپنی ہی تاریخ کو سیاہ باب سمجھنے لگے گی۔ یہ سوچے بنا کہ فلم تو ایک فلم ساز کے دماغ میں آئے ایک خیال کی عکاسی ہوتی ہے۔ ہاں اگر وہ خیال آپ کی تاریخ کو مسخ کر کر خوبصورت بنتا اور توجہ پاتا ہے تو اس پر کچھ ردعمل تو بنتا ہے، ورنہ تو عملی صورت حال یہ ہے کہ جن کو فائدہ ہوا ہے جن کی تاریخ کو گلیمر ملا ہے اور جن کی پدماوتی تو کئی سو سال بعد بھی عزت احترام اور وقعت حاصل ہوئی ہے کہ اس کو گلیمرائز کرنے کے لیے ہدایت کار نے اسے چار سوکلوسونا اس کے زیورات اور ملبوسات میں استعمال کر ڈالا ہو، اسی کو ماننے والے ہندو انتہا پسند اپنی انتہا پسندی سے باز نہیں آرہے اور سنیما ہی نہیں جلا رہے، لوگوں کی املاک بھی نشانہ بنا رہے ہیں کہ ہماری رانی پدماوتی کا نام بھی کیوں لیا؟
تاریخ کا ایک واحد معتبر حوالہ خواجہ حسن نظامی مرحوم کے وہ حواشی ملے جو انہوں نے راج کمار ہردیو کی فارسی کتاب ’’چہل روزہ‘‘ پر لکھے ہیں۔ یہ اصل میں راج کمار کی یادداشتیں ہیں اور تب سے ہیں جب علاؤ الدین مانک پر صوبے کا گورنر تھا اور ملک پر جلال الدین خلجی کی حکومت تھی۔ علاؤ الدین سلطان کا داماد ہی نہیں بھتیجا بھی تھا اور اس نے ایک دوسرے چچا کے ساتھ مل کر جلال الدین خلجی کو قتل کیا تھا۔ ’’چہل روزہ ‘‘میں ۱۲۹۵ء میں دیو گڑھ پر حملہ کا ذکر توہے، چتوڑ پر حملے کا نہیں۔ یہی لکھاری راج کمار ہر دیو علاؤ الدین کے بیٹے سلطان قطب مبارک کے خسرو خان کے ہاتھوں قتل اور ناصرالدین کے نام سے مرتدوں کی حکومت کے دوران موجود تھا اور دیپالپور سے تعلق رکھنے والے نئے بادشاہ ملک غازی المعروف غیاث الدین تغلق کے بیٹے محمد بن تغلق کے زمانے میں وزیر بنا اور بعد میں خان جہاں کے خطاب کے ساتھ وزیر اعظم، اس نے بھی کسی پد ما وتی کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ البتہ اس نے خلجی عہد کے چار بڑے کام گنوائے ہیں :اول مضبوط حکومت، دوم بے شمار فلاحی کام، سوم منگولوں کے حملوں کا سد باب اور چہارم رعایا کا آرام اور قیمتوں پر قابو۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس موضوع پر بھارت سے چلنے والی کتنی ہی سائٹس پر کلپس موجود ہیں اور اس تصریح کے ساتھ کہ پدماوتی ایک فرضی کردار ہے، جس ’’جوہر‘‘ یااجتماعی خود کشی کے واقعہ کا ذکر ہے اس کی تفصیل خلجی عہد سے سات سو برس قبل کے دور کی ہے۔ یاد رہے تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ راجپوتوں کی اس روایت کو چتوڑ گڑھ میں ہی سات بار استعمال ہوا۔ جب جب ان کو شکست ہوئی، ان کی افواج ہار گئیں تو رانیوں اور سب داسیوں اور باندیوں نے اپنے آپ کو ستی کر لیا۔ بقول رانی پدماوتی راجپوتی کنگن کی طاقت اتنی ہی ہے جتنی راجپوتی تلوار کی۔علاؤ الدین کو اس فلم میں بدنامی اور رانی پدما وتی ہمراہی عورتوں کے جلے بدنوں کی بد بو کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہوا تھا۔
(بقیہ سوموار کے شمارے میںملاحظہ فرمائیں)