گوکہ وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے منگل کو ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ میں موسم سرما کے پیش نظر منصفانہ کٹوتی شیڈول کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ وہ روزانہ بنیادوںپر بذات خود اس کے نفاذ کی نگرانی کریں گے تاہم زمینی صورتحال یہ ہے کہ سردیوںکی آمد سے قبل ہی بجلی بحران شروع ہوچکا ہے اور اب یومیہ کم ازکم 8سے 10گھنٹوں کی غیر اعلانیہ کٹو تی معمول بن چکی ہے جبکہ اب محکمہ بجلی کی جانب سے اس بات کے واضح اشارے دئے جارہے ہیں کہ مستقبل قریب میں بجلی بحران ختم ہو نے کا کوئی امکان نہیں ہے بلکہ اگر واقف کار حلقوں کا اعتبار کیاجائے تو آنے والے دنوں یہ بحران مزید سنگین ہوجائے گا اورکٹوتی کا دورانیہ مزید بڑھ جائے گا ۔بادی النظر میں انتہائی ظالمانہ کٹوتی شیڈول کیلئے حسب دستور محکمہ رسد اور طلب میں واضح خلیج کو وجہ قرار دے رہا ہے ۔اب تو محکمہ ایک اور عذرِلنگ سامنے آیا ہے کہ آبی وسائل میں پانی کی سطح میں کمی آئی ہے جس کے پیش نظر بجلی کی پیداوار کم ہوئی ہے اور نتیجہ لوڈشیڈنگ ہےحالانکہ کون نہیں جانتا کہ محکمہ کو بجلی شمالی گرڈ اور این ٹی پی سی سے خریدنا پڑتی ہے اور اس میں مقامی آبی وسائل کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سرمامیں بجلی کی طلب بڑھ جاتی ہے لیکن کیا محکمہ سے پوچھا جاسکتا ہے کہ ایسا پہلی دفعہ ہورہا ہے؟۔ سردیاں ہر سال آتی ہیں اور ہر سال سردیوںمیںبجلی کی طلب بڑھ جاتی ہے اور اسی لحاظ سے ملکی سطح پر بجلی کی طلب پورا کرنے کیلئے انتظامات بھی کئے جاتے ہیں۔آخر ایسا کیا ہوا کہ اب موسم خزاں میں ہی محکمہ بجلی نے ہاتھ کھڑے کردئے ہیں جبکہ ابھی سرماآنا باقی ہے ۔ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ عالمی اور مقامی سطح پر طرز زندگی کی تبدیلی کے سبب بجلی کی ضرورت بدستور بڑھتی ہی چلی جارہی ہے اور یہ بڑھتی ہی رہے گی۔ایسے میں سرکاروں پر بھی لازم آتا ہے کہ وہ مستقبل کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ مقدار میں بجلی دستیاب رکھے ۔ایک زمانہ تھا جب پن بجلی پروجیکٹ ہی بجلی کا واحد ذریعہ تھے ۔پھر تھرمل بجلی پیدا ہونے لگی ۔اُس کے بعد وِنڈ انرجی کا بھی تصور آیا اور سولر انرجی پر زیادہ زور دیاجانا لگا۔گوکہ ہماری سرکار بھی توانائی کے ایسے متبادل ذرائع کے فروغ کیلئے کام کررہی ہے لیکن وقت کا تقاضا ہے کہ اس سمت میں کوششیں تیز کی جائیں کیونکہ توانائی کے روایتی ذرائع محدود ہوتے چلے جارہے ہیں اور ان پر انحصار اب نہیں کیاجاسکتا ہے ۔اس صورتحال میں شمسی توانائی سے بڑے پیمانے پر بجلی پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی وِنڈ انرجی یا تیز ہوائوں کو بھی توانائی میں تبدیل کرنا ناگزیر بن چکا ہے کیونکہ یہ توانائی کے وہ ذرائع ہیں جو انسان کے کنٹرول میں نہیں ہیں اور ان پر عالمی تغیرات کا زیادہ اثر بھی نہیں پڑسکتا ہے ۔ موجودہ دور میں بجلی ایک ایسی ضرورت بن چکی ہے جو شہر سے لیکردیہات تک ہر ایک شخص کو بہر صورت چاہئے ہوتی ہے لیکن اگر اس دور میں بھی غیر اعلانیہ کٹوتی کا سلسلہ جاری رہے گا تو پھر اس محکمہ کا خدا ہی حافظ ہے ۔ آپ سمارٹ میٹر لگانے کے چکر میں ہیں اور نہ صرف جموںاور سرینگر شہر وںکے بیشتر علاقے ان میٹروںکی زد میں آچکے ہیں بلکہ مزید علاقوںمیں تیزی کے ساتھ انکی تنصیب جاری ہے ۔سمارٹ میٹر لگانے کے خلاف کوئی نہیں ہے ۔بلا شبہ آپ سمارٹ میٹر لگائیں لیکن سمارٹ میٹر لگانا ہی مسئلہ نہیںہے اور نہ ہی سمارٹ میٹر لگانے سے محکمہ بجلی سمارٹ بن سکتا ہے ۔سمارٹ بننے کیلئے سمارٹ منصوبہ بندی ضروری ہے ۔آپ اپنی ساری کوتاہیوں کا نزلہ صارفین پر نہیں گراسکتے ہیں۔آپ بجلی خسارے کا بہانہ بناتے رہیں تو یہ بات ہضم ہونے والی نہیں ہے۔ وقت آچکا ہے جب بجلی حکام کو اپنے گریبان میں جھانک لینا چاہئے اور اصلاح احوال سے کام لیکر صارفین کو بلی کا بکرا بنانے کی روایت ترک کرنی چاہئے ۔صارفین معیاری بجلی کی فراہمی کے حقدارہیں اور معیاری بجلی فراہم کرنامحکمہ کی ذمہ داری ہے۔امید کی جاسکتی ہے کہ محکمہ فوری طور حرکت میں آئے گا اوربجلی کی اعلانیہ و غیر اعلانیہ کٹوتی میں کمی کی جائے گی تاکہ لوگوں کو بجلی کی بحرانی صورتحال سے نجات مل سکے۔