پتھری بل فرضی انکوانٹرمتاثرین کی عرضی سپریم کورٹ میں سماعت کیلئے منظور

Kashmir Uzma News Desk
5 Min Read
نئی دلی // سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ وہ 2000ء میںپتھری بل اننت ناگ میں فرضی انکائونٹر میں مارے گئے پانچ عام شہریوں کے اہلخانہ کی طرف سے دائر کی گئی درخواست کی چھان بین کرے گا جس میں ملوث فوجی اہلکاروں کے خلاف سی بی آئی عدالت میں کیس کی پھر سے شنوائی کی اپیل کی گئی ہے۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ تک جموں و کشمیر ہائی کورٹ کی جانب سے مارے گئے شہریوں کے اہل خانہ کی درخواست رد کرنے کے بعد پہنچا ہے۔جسٹس دیپک مشرا، ایم اے کھانولکر اور ایم ایم شانتا گودار کی بینچ نے کہا’’ نوٹس جاری کریں کہ اس معاملے کی آخری شنوائی 6ہفتوں کے بعد ہوگی۔‘‘ ظہور احمد دلال(فرضی جھڑپ میں جاںبحق ہونے والے) کے ماموں نذیر احمد دلال کی جانب سے کیس کی پیروی کرتے ہوئے ایڈوکیٹ نتیا رام کرشنن  نے کہا ہے کہ فوج نے اپنے اہلکاروں کے خلاف کورٹ مارشل نہیں کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کی عدالت عالیہ درخواست رد کرنے کے فیصلے میں غلط تھی۔ ‘‘مرکزی سرکار کی جانب سے پیروی کرنے والے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل منندر سنگھ نے درخواست کے بارے میں اپنا جواب دائر کیا ہے۔ تین ججوں کے بینچ نے مرکزی سرکار ، فوج اور سی بی آئی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی حتمی شنوائی کیلئے 6ہفتوں کا وقت مقرر کیا ہے۔ عدالت عالیہ نے 7اکتوبر 2016کو کہا تھا کہ وہ درخواست کی ایک کاپی مرکزی سرکار کو دیں تاکہ مرکزی سرکار کے وکلاء عدالت کی مدد کر سکیں۔ متاثر نوجوان کے لواحقین نے اپنی درخواست میں سی بی آئی عدالت میں پھر سے کیس کی شنوائی شروع کرنے کی اپیل کی ہے کیونکہ عدالت نے فوجی اہلکاروں کو کیس کی تحقیقات سے بری کردیا ہے۔ سال 2012میں عدالت عظمیٰ نے تحقیقاتی سماعت کا حکم ملوث فوجی اہلکاروں کے خلاف کورٹ مارشل یا کرمنل کورٹ کا حکم دیا تھا جس کے بعد فوجی اہلکاروں نے کورٹ مارشل کا انتخاب کیا تھا۔ ریاستی حکومت نے 27اپریل 2016کو متاثر نوجوان کے لواحقین کی جانب سے سی بی آئی عدالت سے قبل کیس کرمنل کورٹ میں ثالثی کی درخواست کی تھی کیونکہ  نوجوانوں کومبینہ طور پر فوجی اہلکاروں نے 25مارچ 2000کو  فرضی جھڑ پ میں ہلاک کیا تھا۔  سی بی آئی نے سال 2006میں راشٹریہ رائفلز کے 5اہلکاروں کو 5عام شہریوں کو پاکستانی جنگجووں جتلاکرچھٹی سنگھ پورہ میں 36سکھوں کے قتل عام میں ملوث قرار دیا تھا۔ ضلع اننت ناگ سے تعلق رکھنے والے دو شہروں کو عدم شناخت شدہ جنگجو قرار دیا گیا تھا۔ ریاستی سرکار نے مذکورہ واقعے کی سی بی آئی کے ذریعے تحقیقات کا حکم دیا تھا اور بعد میں ڈی این اے کی تحقیقات سے ہی عام شہریوں کے شناخت بطور کشمیری ہوئی تھی۔ مارے گئے نوجوانوں کی ظہور احمد دلال، بشیر احمد بٹ، محمد یوسف ملک، جمہ خان ولد امیراللہ اور جمہ خان ولد فرخ اللہ کے طور پر ہوئی تھی۔ سال 2014میں فوج نے چیف جوڈیشل مجسٹریٹ سرینگر کو بتایا کہ ابتدائی طور پر کوئی بھی کیس ان کے اہلکاروں کے خلاف درج نہیں کیا گیا ۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ حیدرآباد اور کولکتہ کی فارنسک سائنس لیبارٹری نے ڈی این اے کی تحقیقات کے بعد صاف کردیا تھا کہ مارے گئے لوگوں کا تعلق ضلع اننت ناگ سے ہیں۔ سی بی آئی نے اپنی تحقیقات میں پایا تھا کہ مارے گئے افراد کا 98فیصد حصہ جھلس گیا تھا جبکہ انکے جسم پر گولیوں کے نشان بھی تھے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ طاقت کا زیادہ استعمال کیا گیا ۔ متاثرہ افراد کے اہلخانہ نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ ایک عام اور صحیح انکائونٹر میں یہ ناممکن ہے کہ مارے گئے افراد کا 98فیصد حصہ جھلس گیا ہو۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ انکائونٹر میں مارے گئے افراد کی شناخت کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ فوج نے اپنے قانون کے تحت ، مذکورہ کیس کو ثبوت دستیاب نہ ہونے کی فہرست میں ڈال دیا ہے۔ 
 
Share This Article
Leave a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *