میں اپنے سابقہ کالم کے ساتھ سلسلہ جوڑتے ہوئے عرض کرنا چاہوں گا کہ ٹھگی آج بھی سابقہ ایام کی طرح پورے طنطنے کے ساتھ جاری ہے ۔فرق صرف اتنا ہے کہ موجودہ زمانے میں جو نئے طریقے وضع ہوگئے ہیں، اُن سے بھلے ہی شکار (Victim)کو چونا لگ جاتا ہے مگر اُس کی جان بچ جاتی ہے گرچہ سو فیصد معاملات میں یہ لاگو نہیں ہوسکتا ہے کیونکہ ریل میں،شاہراہوں پر لٹیرے اپنی پہچان چھپانے کی خاطر قتل تو کیا قتل ہا بھی کرلیتے ہیں ۔پرانے وقتوں ٹھگی پرانے طریقوں سے انجام دی جاتی تھی مگر آج کل سائنس اور ٹیکنالوجی کے نئے نئے انکشافات و ایجادات کی موجودگی میں اُنہی نئے طور طریقوں کو بروئے کار لاکر دوکھا دھڑی انجام دی جاتی ہے ۔چونکہ جین (Jene) مرتا نہیں،کسی نہ کسی صورت میں زندہ رہ کر اگلی نسلوں میں منتقل ہوجاتا ہے ،اُسی طرح ٹھگی کا جین جو دوسرے رنگ و روپ میں ہویدا ہے مرا نہیں بلکہ آج بھی اُسی طرح من و عن زندہ ہے ۔
ہمارے ایک رشتہ دار جو دماغی طور سے صحت مند ہیں اور تن و توش کی رُو سے بھی ماشا ء اللہ خوب ہیں ،سیکشن آفیسر کی پوسٹ سے نوکری سے سبکدوش ہوچکے ہیں مگر صورت حال یہ ہے کہ مسجد کمیٹی یا محلہ ویلفئیر کمیٹی کے ممبر بننے کی بجائے پیسے ٹکے کی طرف زیادہ دھیان رکھتے ہیں ۔اس لئے آج بھی پینشن سے زیادہ ہر ماہ کمالیتے ہیں ۔ابھی کچھ عرصہ قبل اُن کو ایک فون کال ملتی ہے کہ آپ کو کسی طرح کی کوئی لاٹری نکل آئی ہے، اُس کی رجسٹریشن کے لئے آپ پانچ ہزار روپیہ فلاں نمبر پر ٹرانسفر کرا دیجئے ۔وہ کرچکنے کے بعد اُسے پھر کہا گیا چونکہ لاٹری غیر ملکی کرنسی میں ہے، اس لئے اُس کو کنورٹ (convert)کرنے کی مشکل آن کھڑی ہوئی ہے ،اس لئے آپ فوراً ڈیڑھ لاکھ روپیہ اُسی نمبر پر ٹرانسفر کرادیجئے تو آپ کوبارہ لاکھ روپیہ کی لاٹری آپ کے اکاؤنٹ میں ڈال دی جائے گی ۔بڑی خوشی خوشی صاحب نے کسی سے کہے ،کسی سے مشورہ کئے بغیر گویا ع
سر تھا اپنے سائے سے بھی دو قدم آگے
حکم کی تعمیل کی ،جس سے ٹھگوں کو بھی پتہ چل گیا ہوگا کہ اونٹ پہاڑ کے نیچے بآسانی آگیا ہے تو انہوں نے کسی اور فریبی مد کے لئے دو لاکھ روپے منگوائے تو اُس بھولے بے وقوف نے کسی چوں چرا کے بغیر وہ دو لاکھ روپیہ بھی روانہ کردیا ۔اُس کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا مگر اُس کی تفصیل ہمیں معلوم نہ ہوسکی ۔حد یہ کہ اُس کی بیوی نہ صرف تعلیم یافتہ ہے بلکہ ایک معروف حکومتی ادارے میں ملازمت بھی کررہی ہے۔صاحب نے اُس کو کانوں کان بھی خبر لگنے نہ دی ۔اُس کے بعد ٹھگوں سے جب مزید تقاضا ہوا تو اب پیسے اُس کے پاس تھے ہی نہیں ،اس لئے اُس نے پہلے ایک ہمشیرہ سے اور پھر دوسرے بہنوئی سے قرضہ لے کر ٹھگوں کو پیسہ بھیج دیا ۔اس دوران اُس کا بہنوئی اُس کی بیوی کے دفتر میں کسی کام سے گیا تو چلتے چلتے برسبیل تذکرہ اس نے بیوی سے پوچھا : کیا اُس کی بچیاں خیریت سے ہیں؟مگر پوچھنے کا انداز ایسا تھا کہ محترمہ کا ماتھا ٹھنکا کیونکہ اُس کی دونوں بچیاں گھر سے باہر بلکہ ایک ملک سے بھی باہر زیر تعلیم ہیں ۔اُس نے درجواب کہا :’’ہاں!وہ تو صحیح و سلامت ہیں مگر سچ بتائے جیجا جی کیا بات ہے ؟آپ نے خیریت کچھ معنی خیز انداز سے پوچھی۔‘‘
جیجا جی نے جواب میں کہا :’’واللہ کوئی خاص بات نہیں مگر میں نے سوچا شاید کسی اشد ضرورت یا بچیوں کے لئے کوئی فیس ،فنڈ دینے کے لئے آپ نے روپے منگوائے تھے۔‘‘محترمہ یکدم ہونقوں کی طرح جیجا جی کا منہ تکتی رہی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ نہ اُسے کوئی اشد ضرورت آن پڑی تھی اور نہ ہی اُس نے جیجا جی سے کوئی پیسہ منگوایا تھا ۔مزید استفسار کرنے کے بعد جیجا جی نے کہا:’’صاحب جی نے چار لاکھ روپے مجھ سے یہ کہہ کر اُدھار لیا تھا کہ کوئی اشد ضرورت آن پڑی ہے جس کو پوچھنا اور کریدنا میں نے مناسب نہیں سمجھا بلکہ میں نے یہی سوچا کہ شاید بچیوں کے لئے کوئی نیا یا زیادہ خرچہ نکل آیا ہوگا ۔ورنہ یہ تو مجھے بھی معلوم ہے کہ آپ لوگوں کے لئے یہ رقم معمولی سی ہے ۔ ماشاء اللہ آپ اتنے بھی ‘‘۔۔۔۔۔۔
جیجا جی نے بات اُدھوری چھوڑ کر البتہ یہ ضرور کہا کہ وہ پیسوں کا تقاضہ لے کر نہیں آیا کیونکہ اُسے ابھی پیسوں کی حاجت نہیں ہے ۔وہ تو صرف اُن لوگوں کی خیریت معلوم کرنا چاہ رہا تھا ۔محترمہ حدسے زیادہ حیران و پریشان گھر لوٹی اور شام کو بہت زور دینے کے بعد اپنے میاں سے اصلی معاملہ اُگلوایا تووہ سچ مچ ہی غش کھاکر نیچے گر پڑی ۔ چھوٹے بیٹے نے چلانا شروع کیا،ہمسائیوں کو خبر لگ گئی اور ایک بڑا ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ایسے معاملات تو روز ہی ہوتے ہیں ۔آج تک ہزاروں مرد وزن کوچونا لگ چکا ہے ۔ہم سب جانتے ہیں مگر اُس کے باوجود بھی لوگ بیوقوف بن رہے ہیں۔مذکورہ معاملے کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ٹھگوں نے واضح طور سے صاحب کو آگاہ کیا تھا کہ اُس کے لئے لاٹری بارہ لاکھ کی نکلی ہے مگر قسط وار پیسے جو مختلف بہانے بناکر انہوں نے منگوائے وہ اُنیس لاکھ بنتے ہیں۔صاحب سے جب پوچھا گیا کہ اگر لاٹری بارہ لاکھ کی تھی تو اُس نے کیا جان کر ،کیاسوچ کر ٹھگوں کو اُنیس لاکھ رروپے دئے تووہ صرف کھسیانی ہنسی ہنس کر کہتا ہے ـ’’غلطی ہوگئی ۔اب اس بات کو بھول جائیے۔‘‘حقیقت میں جب چند دن گزرنے کے بعد میری بھی بازار میں اُس سے ملاقات ہوئی تو میرے پوچھنے پر بھی اُس نے یہی الفاظ دہرائے ۔ارے واہ! کمال ہے صاحب !یہ تو وہی بات ہوئی نا کہ ؎
اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا
لڑتے ہیں مگر ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
یہ بات جب صاحب کی بیوی کے باس نے سنی تو اُس نے محترمہ کو بلاکر بڑی سنجیدگی کے ساتھ یہ مشورہ دیا کہ ایسے لوگ سماج کے لئے واقعتاً ایک بوجھ ہیں ،اُن کا قلع قمع کرنا بہتر ہے۔
چلتے چلتے یہ بھی کہتا چلوں کہ 25؍ستمبر صبح دس بج کر 21؍منٹ پر مجھے ایک فون کال (7079622471)ملا کہ ہم سٹیٹ بنک سے بول رہے ہیں ،آپ اپنا اے ٹی ایم اور آدھار کارڈ نمبر دے دو ،پڑتال (Verification)کرنی ہے ۔میں نے الماری کی چابی پاس نہ ہونے کا بہانہ بنایا کیونکہ میں سمجھ گیا تھا کہ یہ ٹھگوں کا وار ہے ۔چند دن کے بعد پھر فون ملا مگر آواز وہی تھی کہ ہم اندھیری ممبئی سے بول رہے ہیں،آپ اپنا اے ٹی ایم اورآدھار کارڈ نمبر جانچ پڑتال کے لئے دے دو ۔میں نے پھر چابی پاس نہ ہونے کا بہانہ بنایا ۔اس کے بعد ٹھگوں نے شاید یہ سمجھا ہوگا کہ انگور کھٹے ہیں ،اس لئے کسی نئے دروازے پر جانا ہی بہتر ہوگا ۔
بہر حال اس شہر ناشاد میں ہم نے آج تک کیا نہیں دیکھا اور معلوم نہیں کیا دیکھنا باقی ہے ؎
پتھروں کے اس شہر میں اے زندگی تیرے لئے
میری اک اک سانس نے کیا کیا نہ سمجھوتے کئے
یوگندر بہل تشنہ
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او سرینگر-190001،کشمیر،
موبائل نمبر:-9419475995