پتھرائو کے واقعات درد سر

Kashmir Uzma News Desk
4 Min Read
نئی دہلی // شمالی کمان کے سابق کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ڈی ایس ہوڈا نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا کوئی فوجی حل ممکن نہیں ہے اور اس تنازع کو صرف سیاسی سطح پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) ڈی ایس ہوڈا نیایک انٹر ویو میں کہا کہ’ ’اگر ہم کہیں کہ کشمیر کو فوجی کارروائی سے حل کر لیں گے تو یہ کہنا غلط ہوگا۔ یہ ایک اندرونی تنازع ہے جس کے کئی پہلو ہیں۔ پاکستان کی بھی بہت حمایت ہے۔ فوج کا رول سیکورٹی کی صورتحال کو اس نہج پر لانا ہے جہاں سے سیاسی سطح پر کارروائی کا آغاز ہو سکے‘‘۔وادی میں فوجی کارروائیوں کے دوران پتھراؤ  کے واقعات پر جنرل ہوڈا نے کہا کہ ’یہ بہت بڑا درد سر ہے۔ فوجی آپریشن کرنا ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے کیونکہ ہم یہ نہیں چاہتے کہ عام شہری مارے جائیں۔‘انہوں نے کہا کہ ماضی میں کئی مرتبہ ایسے حالات آئے ہیں جب وادی میں کافی امن تھا لیکن حکومتوں نے اس کا فائدہ نہیں اٹھایا۔ جنرل ہوڈا کے مطابق حکومت کو یہ تاثر زائل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ ’وہ کشمیری عوام کے خلاف ہے‘۔جنرل ہوڈا نے کہا کہ ’افسپا ہٹانے کا مطلب یہ ہے کہ فوج ہی ہٹا لی جائے۔ افسپا کے تحت حاصل تحفظ کے بغیر فوج کشمیر میں کارروائی نہیں کرسکتی۔‘جنرل ہوڈا نے کہا کہ اگر افسپا نہیں ہو گا تو فوج کشمیر میں کارروائی نہیں کر سکتی کیونکہ اس قانون کے تحت ہی اسے تحفظ حاصل ہے۔لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’افسپا کی جو شقیں زیادہ سخت مانی جاتی ہیں ان پر نظر ثانی کی جاسکتی ہے تاکہ انہیں انسانی حقوق کے تقاضوں سے ہم آہنگ بنایا جاسکے۔ پہلے بھی اس بارے میں بات چیت ہوئی تھی لیکن وزارت دفاع اور وزارت داخلہ نے کافی سخت موقف اختیار کئے تھے، لیکن میرا خیال ہے کہ کوئی راستہ نکالا جاسکتا ہے۔ کوئی ایسا راستہ جس میں فریقین کے خدشات کو ذہن میں رکھا گیا ہو۔جنرل ہوڈا نے ’سرجیکل سٹرائیکس کے بارے میں کہا کہ ’اس کارروائی سے پہلے بہت صلاح مشورے ہوئے تھے اور ہم اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ کوئی باقاعدہ جنگ نہیں چھڑ سکتی، لیکن سوچ سمجھ کر تھوڑا بہت خطرہ مول لینا ضروری ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ’کشمیر میں ہم ہر صورتحال کے لئے تیار تھے۔ آرمی ہیڈکوراٹر میں کافی بات چیت ہوئی تھی۔ جنرل ہوڈا نے یہ بھی کہا کہ ’ایسا پہلے ہوتا تھا لیکن اس کا اعلان نہیں کیا جاتا تھا۔ ہم انکار کر سکتے تھے کہ ہم نے ایسی کوئی کارروائی کی ہے۔اس مرتبہ فرق یہ تھا کہ حکومت نے اس کا باقاعدہ اعلان کیا۔‘انہوں نے کہا کہ ہر صورتحال مختلف ہوتی ہے اور ہر حملے کے جواب میں سرحد پار کارروائی ہی کی جائے یہ ضروری نہیں ’ہوسکتا ہے کہ ایسی کارروائی دوبارہ ہو، ہوسکتا ہے کہ کسی اور انداز میں ہو۔‘
Share This Article
Leave a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *