امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی اگست 2017ء میں پاکستان کے خلاف تند و تیز تقریر اُن اقدامات کا حصہ تھا جن کا اعلان امریکی صدر نے جنوبی ایشیا میں اپنی نئی پالیسی مرتب کرتے وقت کیا تھا۔ نئے سال 2018 ء کے پہلے دن اپنے سال جدید کے پیغام میں ڈونالڈ ٹرمپ نے پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنایا ۔ٹرمپ کی درشت تقاریر کے بعد پاکستان کو دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے جو مالی امداد ملتی تھی وہ بند ہو گئی حالانکہ پاکستان کا یہ کہنا ہے کہ مالی امداد ا کا بیشتر حصہ ا مریکی اور نیٹو افواج کو پاکستان سے راہداری فراہم کرنے کیلئے دیا جاتا تھا۔ پاکستان کی نظر میں بھارت کیلئے افغانستان میں سرمایہ کاری کو وسعت دینے کیلئے میدان فراہم کرنا بھی پاکستانی تحفظات پہ ایک وار ہے ۔بھارتی سرمایہ کاری کو وسعت دینے کی امریکی تلقین ڈونالڈ ٹرمپ کی نئی جنوبی ایشیائی پالیسی کے احداف میں شامل ہے۔پاکستان اِسے اپنی سیکورٹی احداف کے منافی مانتا ہے۔
پاکستان کو مزید شکنجے میں کسنے کیلئے فروری2018 ء کے آخری ایام میں پیرس میں مالی ایکشن ٹاسک فورس (Financial Action Task Force )کے اجتماع میں پاکستان کا نام متفرقہ ممالک کی ایک ایسی لسٹ میں شامل کر لیا گیا جن پہ دہشت گرد تنظیموں کی مالی اعانت کے سلسلے میں نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔اِس کا مدعا و مفہوم یہ ہے کہ پاکستان پہ شک کیا جا رہا ہے کہ اِس ملک کے مالی اداروں سے دہشت گرد تنظیموں کو فنڈس کی فراہمی ممکن ہو سکتی ہے گر چہ جون میں اِس پہ نظر ثانی کی جائے گی لیکن ابھی تک پاکستان اُن ممالک کی بلیک لسٹ میں شامل نہیں ہے جن پہ دہشت گرد تنظیموں کو فنڈس فراہم کرنے کا الزام ہے۔اِن ممالک میں ایران و شام جیسے ممالک شامل ہے ۔ ایران پہ مغربی ممالک یہ الزام لگا رہے ہیں کہ یہ ملک حزب اللہ اور حماس جیسی تنظیموں کی مالی معاونت کرتا ہے جو مغربی ممالک کی نظر میں دہشت گرد تنظیمیں ہیں۔پہلے پاکستان کے صاف بچنے کی صورت پیدا ہو گئی تھی لیکن آخر میں شدید امریکی دباؤ کے تحت چین اور سعودی عربیہ اِس بات پہ موافق ہو گئے کہ پاکستان پہ نظر رکھی جائے جبکہ پہلے وہ پوری طرح پاکستان کو بری کرنے کے حق میں تھے۔پاکستان میں کئی حلقوں کا یہ ماننا ہے کہ وزیر خارجہ خواجہ آصف کے ٹویٹ نے پانسہ پلٹ دیا۔اِس ٹویٹ میں خواجہ آصف نے دعوہ کیا تھا کہ پاکستان کے دوست اُس کے کام آئے۔کئی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ خواجہ آصف کے ٹویٹ کا اثر الٹا پڑا اور اُنہیں سفارتی آداب کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے تھا جہاں کچھ کہنے کے بجائے کچھ بھی نہ کہنا زیادہ کام آتا ہے۔ پیرس میں مالی ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس کے بعدپاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے اِس بات کا اقرار کیا کہ پاکستان واچ لسٹ میں شامل ہے لیکن اُنہوں نے اِس امکان کو خارج کیا کہ پاکستان کا نام کبھی بھی بلیک لسٹ میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
امریکی کے اِن خصومت آمیز اقدامات کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان اور امریکہ کے بیچ تعلقات کی بحالی و بہتری کا کوئی امکان ہے بھی یا نہیں؟پاکستان میں واقف کار حلقوں کا مانناہے کہ جہاں ایک طرف امریکہ کے خصومت آمیز اقدامات عیاں ہے وہی ایسے سفارتی رابطے ابھی بر قرار ہیں جہاں امریکہ کیلئے پاکستان کے ساتھ روابط سدھارنے کی امکانات کو وسعت دی جا سکتی ہے۔امریکی کانگریس میں ایک پینل (رابطہ کمیٹی) کے سامنے بیاں دیتے ہوئے امریکی جنرل وؤٹل نے یہ کہا کہ امریکہ نے ملٹری ٹو ملٹری تعلقات کو استوار رکھا ہوا ہے جس کا یہ مطلب لیا جا سکتا ہے کہ امریکی اور پاکستان افواج کے مابین تعلقات قائم ہیں ۔ جنرل وؤٹل پاک افغان خطے میں امریکی ا فوج کی کمان سنبھالے ہوئے ہیںاور اُنہوں نے اِن تعلقات کو قیمتی مانا۔موصوف نے اِن تعلقات کو قیمتی ماننے کی وجوہات بھی بیاں کی۔ جنرل نے اقرار کیا کہ افغانستان میں دیر پا استحکام اور دہشت گردی کی روک تھام پاکستانی امداد کے بغیرمشکل ہو گی۔ جنرل وؤٹل کے بیاں سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ امریکہ یہ جانتا ہے کہ پاکستان کے جغرافیائی محل وقوع کے استعمال کے بغیر امریکہ اپنے احداف کی تکمیل نہیں کر سکتا۔ جنرل وؤٹل نے اقرار کیا کہ پاکستان سے مثبت اشارے مل رہے ہیں جن سے یہی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان امریکی تحفظات کے ضمن میں مثبت اقدامات اٹھا رہا ہے۔ امریکی تحفظات کا تعلق دہشت گردوں کے اُن کمپوں سے ہیں جو مبینہ طور پہ پاکستان میں موجود ہیں۔ جنرل وؤٹل نے البتہ اِس خدشے کا ذکر کیا کہ پاکستان اپنی حکمت عملی میں کسی بڑی تبدیلی کا خواہاں نہیں ہو سکتا ہے بہ معنی دیگر امریکی جنرل کو یہ امید نہیں کہ پاکستان امریکہ کی خاطر اپنی پالیسی میں خاطر خواہ تبدیلی لائے۔
امریکہ کی نظر میں دنیا کی واحد سپر پاور اور پاکستان کے مابین تعلقات میں اصل مشکل یہی ہے کہ ماضی کی مانند پاکستان اُسے خوش کرنے کیلئے کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار نہیں ہے بلکہ صرف و صرف اُسی حد تک جانے کیلئے تیار ہے جہاں پاکستانی تحفظات کو کوئی زک پہنچنے کا امکاں نہ ہو۔ 20ویں صدی کے اختتامی سالوں اور 21صدی کی شروعات میں افغانستان میں پاکستانی احداف کی بھر پور آبیاری ہو رہی تھی۔افغان طالباں کی حکومت گر چہ انتہا پسندی کی خاطر عالمی سطح پہ مورد تنقید قرار دی جا رہی تھی لیکن پاکستان کو اپنی قومی سلامتی کے تحفظ اور بھر پور دفاع کیلئے اپنے عقب سے کوئی خدشہ نہیں تھا بلکہ عقب سے اُسے بھر پور دفاعی گہرائی میسر تھی لیکن 2001ء میں 9/11کے بعد امریکہ کو انتہا پسندی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی سوجھی بلکہ اِس انتہا پسندی کو اسلامی انتہا پسندی کا عنواں دیا گیا اور اِس میں پہلا حدف القاعدہ کی تنظیم بنی جس کا گڑھ افغانستان میں طالباں کو مانا گیا۔پاکستانی صدر جنرل مشرف کو امریکی وزیر خارجہ کولن پاؤل نے یہ دھمکی دی کہ اگر آپ ہمارے ساتھ نہیں تو ہمارے خلاف ہیں ۔ پاکستانی محل وقوع کا استعمال کرتے ہوئے افغان طالبان کو نشانہ بنایا گیا اور اِس تنظیم کا راج ختم ہو گیا ۔اِس امریکی مہم کا یہ اثر پڑا کہ پاک افغان سرحد کے آر پار حالات بد سے بد تر ہوگئے ۔افغان طالبان کچھ عرصے کیلئے دب تو گئے لیکن اِس تنظیم نے جلد ہی اپنی صفوں کو ترتیب دینا شروع کیا اور بگذشت زماں امریکی و نیٹو افواج کے ساتھ ایسے نبرد آزما ہو گئے کی ابھی تک کم و بیش 17سال گذرنے کے بعد امریکہ سر گرداں ہے کہ اِس جنگ کا اختتام ہو تو کیسے ہو؟ افغانستان کی کم و بیش نصف اراضی پر افغان طالبان کی صفیں پھیلی ہوئیں ہیںاور وہ اُن خارجی افواج کا انخلا چاہتے ہیں جو کابل میں بر سر اقتدار رژیم کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔یہ خارجی افواج امریکہ کی سر کردگی میںافغانستان میں خیمہ ڈالے ہوئے ایک ایسی رژیم کی پشت پناہی کر رہے ہیں جس کی عوامی ساکھ مشکوک ہے۔
افغانستان میں تو کئی دَہائیوں سے حالات خراب ہیں اور ایک جنگی صورت حال بنی ہوئی ہے ۔ اِس کا براہ راست پاکستان پہ اثر پڑا ہے جہاں کم و بیش 20لاکھ افغان مہاجر مقیم ہیں۔افغان طالبان کو دیکھتے دیکھتے پاکستان طالبان بھی منظم ہو گئی اور جمعیت الاحرار جیسی کئی تنظیموں کے ساتھ مل کے پاکستان کے سرحدی علاقوں میں دہشت گردانہ سرگرمیوں میں مشغول ہوئے۔وزیرستان ،سوات اور فاٹا جیسے علاقوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کے مرکزی علاقوں میں بھی دہشت گردانہ کاروائیوں نے پاکستان کے مستقبل پہ ایک سوالیہ لگا دیا۔پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں جنگجویانہ کاروائیوں کے پھیلاؤ سے ہزاروں جانیں تلف ہوئی۔پاکستان کے عوامی حلقوں میں یہ خیال سرایت کرتا گیا کہ 1979ء میں افغانستان پہ سوؤیت یونین کے حملے کے بعد امریکہ کا ساتھ دے کے پاکستان نے اپنے لئے مصیبت مول لی ہے چونکہ انتہا پسند جنگجوتنظیموں کو فروغ حاصل ہو ا اور خاصکر 9/11 کے بعد اُنہیں نے اپنی مذموم کاروائیوں کو وسعت دی۔2014ء میں پشاور میں فوجیوں کے سکول میں معصوم بچوں کے قتل عام نے پاکستان فوج کو یہ تحرک دیا کہ وہ سر دھڑ کی بازی لگا کے دہشت گردی کا خاتمہ کریں۔پچھلے چہار سالوں میں پہلے ضرب عضب اور اب ردالفساد کا عنواں لئے فوجی مہمات نے قابل قدر حد تک دہشت گردی کا خاتمہ کر دیا۔ایک درد ناک سبق حاصل کرنے کے بعد پاکستان اب دہشت گردی کے اُسی جال میں نہیں پھنسنا چاہتا جو امریکہ نے اُس کے لئے بِنا تھابلکہ ایک وسیع دائرے میں جس نے عالم اسلام کو عراق سے لے کے افغانستان تک اپنی لپیٹ میں لیا۔
پاکستان آجکل ایک ایسی ڈاکٹرین (Doctrine) پہ عمل پیرا ہے جسے آرمی چیف قمر جاوید باجوا کے نام سے منصوب کیا جا تاہے۔باجوا ڈاکٹرین یا ایسا کہیں لائحہ عمل میں مرکزی خیال نو مور (No More)ہے جبکہ امریکہ کا اصرار ڈو مور (Do More)ہے۔امریکی مدعا و مقصد یہ ہے کہ پاک افغان سرحد کے آر پار پاکستانی فوج امریکی احداف کا بھر پور ساتھ دے اور دیتا رہے جیسا کہ پہلے ہوتا تھا اور جس سے پاکستان کا وجود ہی خطرے میں پڑ گیا۔ ڈو مور (Do More)کا اصل حدف یہی ہے جبکہ پاکستان آجکل نو مور (No More) پہ ڈٹا ہوا ہے یعنی جتنا آج تک کیا اُس سے زیادہ اور کچھ نہیںکر سکتے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی ناراضگی کی اصلی وجہ یہی ہے جس کے سبب وہ پاکستان کے خلاف خشمگیں بیانات دے رہے ہیں۔امریکہ گر چہ افغانستان کے حالات سے عاجز نظر آتا ہے لیکن وہ افغانستان کو ایشائی مرکزی اور جنوب ایشیائی خطے پہ نظر رکھنے کیلئے چھوڑنا بھی نہیں چاہتا۔حال ہی میں امریکی بیانات میں یہ بھی آیا ہے کہ اسلامی انتہا پسندی سے زیادہ اب امریکی توجہ روس و چین پہ مبذول رہی گی۔روس و چین افغانستان کی ہمسائیگی میں ہیںلہذا امریکہ افغانستان کو چھوڑ دے بعید نظر آتا ہے اور وہ بھی ایسی حالت میں جبکہ روسی و چینی احداف افغانستان میں امریکی احداف سے میل نہیں کھاتے۔روس نے حال ہی میں یہ الزام بھی لگایا ہے کہ داعش (ISIS) کے پاؤں شمالی افغانستان میں جمانے میں امریکہ معاونت کر رہا ہے۔مانا جاتا ہے داعش کو افغانستان میں افغان طالبان کے خلاف محاز آرائی کیلئے جگہ دی جا رہی ہے جبکہ ہمسایہ ملک جن میں روس،چین،پاکستان اور ایران شامل ہیں داعش کو خطے کی امنیت کیلئے خطرہ مان رہے ہے ۔
پاکستان جہاں نو مور پہ ڈٹا ہوا ہے وہی اِس ملک کو اقتصادی مسائل کا بھی سامنا ہے ۔یہ صیح ہے کہ چینی اقتصادی امداد نے امریکہ پہ انحصار کم کیا ہے لیکن پھر بھی پاکستان کو گاہ بگاہ عالمی اقتصادی اداروں سے مالی امداد لینی پڑتی ہے اور اِن اداروں پہ امریکہ کی چھاپ ہے اِسی لئے پاکستان کو پھونک پھونک کے قدم رکھنا پڑ رہا ہے۔ نو مور (No More) کے ساتھ پاکستان یہ بھی کہہ رہا ہے کہ پاکستان کی سر زمیں پہ اگر کوئی دہشت گرد تنظیم امریکہ کے خلاف کسی بھی کاروائی میں مشغول ہے تو امریکہ اُس کی نشاندہی کرے تاکہ مناسب کاروائی کی جائے۔امریکی جنرل وؤٹل کے بیاں کو کہ پاکستان فوج کے ساتھ رابطہ بنا ہوا ہے اِسی پیرائے میں پرکھنے کی ضرورت ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ وؤٹل کے بیاں میں یہ ذکر بھی ہوا ہے کہ کسی پاکستانی پالیسی میںکسی بڑی تبدیلی کی توقعہ نہیں کی جا سکتی جو ڈو مور (Do More)کے جواب میں نو مور (No More)سے میل کھاتا ہے۔امریکی مشکل واضح ہے یہ ہے کہ وہ پاکستان کی ساجھے داری کے بغیر افغانستان میں پیر جمانے سے معذور ہے لہذا شاید وہ مقام آ چکا ہے جہاں پاکستان و امریکہ دونوں ہی یہ سوچنے پہ مجبور ہو گئے ہیں کہ اپنی پالیسی سازی کے دائرے میں رہتے ہوئے وہ ایک دوسرے کا کس حد تک ساتھ دے سکتے ہیں۔ حالیہ سفارتی اقدامات اِسی نہج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔حالیہ ہفتوں میں پاکستان اور امریکی حکام میں کئی ملاقاتیں ہوئی ہیںجن میں افغان صدر اشرف غنی کی افغان طالبان کو مذاکرات کی دعوت زیر بحث رہی۔افغان صدر نے افغان طالبان کو ایک سیاسی فریق مانا ہے لیکن طالبان افغان رژیم سے ملاقات کی خواہاں نہیں ۔طالبان امریکی انخلا پہ امریکی حکام سے بات کرنے کو تیار تو ہیں لیکن اُن کی پشت پناہی سے بنی ہوئی رژیم سے بات چیت پہ آمادہ نہیں۔
امریکہ پاکستان سے سیاسی اُلجھاؤ کو حل کرنے میں مدد کا طالب ہے بہ معنی دیگر وہ طالبان کو امریکی شرائط پہ مذاکرات کروانے کیلئے پاکستان کے ذریعے دباؤ ڈلوانا چاہتا ہے جب کہ پاکستان گر چہ مذاکراتی عمل کا پشت پناہ ہے لیکن اِس اصرار کے ساتھ کہ افغان طالبان ایک حد تک تو پاکستان کی بات مان سکتے ہیں لیکن اُس حد تک نہیںجہاں اُنکے مفادات خطرے سے دوچار ہوں۔یہی بات کئی ملاقاتوں میں زیر بحث رہی جن میں پاکستان کی خارجہ سیکرٹری تہمینہ جنجوعہ کا واشنگٹن میں دو روزہ مذاکراتی دور شامل رہا اور پھر وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی امریکی نائب صدر پنس سے ملاقات سر فہرست رہی۔افغانستان کے علاوہ امریکی پاکستان اور چین کی بڑھتی ہوئی قربت سے نالاں نظر آتے ہیں لیکن پاکستان نے امریکہ کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ یہ قربت پاک امریکی تعلقات پہ اثر انداز نہیں ہو سکتی۔کہا جا سکتا ہے کہ پاک امریکی تعلقات میں حالیہ سلجھاؤ کے اشاروں کے باوجود یہ تعلقات ایک ایسی ڈگر پہ چل رہے ہیں جہاں سلجھاؤ کی کوششوں کے باوجود اُلجھاؤ کی کیفیت عیاں ہے چونکہ پاکستان امریکی احداف کا بھر پور ساتھ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
Feedback on: [email protected]