پاکستان کے عام انتخابات کے نتائج سامنے آنے کے بعد جہاں چاروں طرف زوردار مباحثے جاری ہیں وہاں کشمیری عیاں وجوہات کی بناء پر ہر محفل میں ان انتخابات کو دلچسپی کے ساتھ بحث و مباحثوں کی رونق بنا رہے ہیں ۔ ہندوستانی میڈیا کا ایک طبقہ بد قسمتی سے ان انتخابات کی شفافیت اور اہمیت کو مشکوک بنانے کی ناپاک کوششوں میں مشغول ہے ۔ ویسے بھی پاکستان یا ہندوستان میں پیش آنے والی ہر چھوٹی بڑی تبدیلی کا کشمیر میں دیکھنے کو ملتا ہی ہے جس کی وجہ کشمیر مسئلہ کا عرصہ دراز سے لٹکا رہنا ہے ۔ ایک طرف ہندوستانی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ ان انتخابات میں عمران خان کی کامیابی فوج کی مداخلت کی وجہ سے ہی ممکن ہوئی ہے لیکن دوسری طرف ہندوستانی میڈیا اُن سارے سوالوں کا جواب دینے سے قاصر دکھائی دے رہا ہے جو کہ خود ہندوستانی میڈیا کی دعوئوں کی نفی کرتا ہے ۔ پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر ہندوستانی میڈیا کے بقول اگر انتخابی عمل پر پاکستانی فوج کا کنٹرول رہا ہے تو پھر حافظ سعید کی جماعت کے لوگ بھلا کیونکر کوئی بھی سیٹ جیتنے میں ناکام ہو گئے کیونکہ پھر ہر حال میں پاکستانی خفیہ ایجنسیوں اور فوج کی پہلی ترجیح حافظ سعید ہی ہونی چاہئے تھی ۔ انتخابات کی شفافیت اور سرکاری انتظامیہ کی مداخلت کے الزامات کس ملک میں نہیں لگائے جاتے ۔ خود ہندوستان میں ایسے الزامات اور جوابی الزامات لگانا ہر پارٹی کا معمول ہے ۔ لہٰذا ہندوستانی میڈیا کی طرف سے پاکستانی انتخابات کے حوالے سے منفی پروپگنڈہ نہ صرف شرمناک بلکہ خود ہندوستانی مفادات کے منافی ہے ۔ سب سے بڑا اعتراض جو پاکستانی انتخابات کو لیکر پاکستان کے ناقدین کارہا ہے وہ یہ ہے کہ میاں محمد نواز شریف کو سزا سنا کر عمران خان کیلئے جیت کا راستہ ہموار کیا گیا ۔ بظاہر نواز شریف کے دشمنوں کی بھی اُن کے ساتھ اُن کو ملنے والی سزا کو لیکر ہمدردی پیدا ہوتی ہے لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ برصغیر سمیت پوری دنیا میں لوگ صاف و شفاف معاشرے کے طلبگار ہیں اور ہر شخص جو براہ راست یا کسی اور طریقے سے اقتدار میں ہو یہ دعویٰ کرتا رہتا ہے کہ اس کا مقصد اپنے لوگوں کو صاف و شفاف اور رشوت سے پاک انتظامیہ فراہم کرکے اپنے ملک کو اونچائیوں کی طرف لے جانا ہے ۔ پاناما لیکس کا اسکینڈل جو نوا ز شریف کو لے ڈوبا دراصل صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ ہندوستا ن سمیت کئی اور اہم ممالک کے سیاستدانوں اور طاقتور لوگو ں کو بے نقاب کرگیا ۔ جس طرح نواز شریف پر رشوت ستانی کے بڑے الزامات سامنے آ گئے بالکل اسی طرح ہندوستان کے بڑے مگر مچھوں کے نام بھی کھل کر منظر عام پر آگئے ۔ پاکستان کو ناکا م ریاست کہنے والوں اور ہر بات پر پاکستانی اداروں کو گالیاں دینے والوں سے پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر پاکستان میں سیاستدانوں ، بیوروکریٹوں اور دیگر طاقتور افراد کا احتساب کیا جاتا ہے تو اس کا خیر مقدم کرنے کے بجائے اُس کی مخالفت کرنے کا کیا جواز ہے ۔ جہاں پاکستان میں وزیر اعظم کو کچھہرے میں کھڑا کرکے اُن کے مقدمے کی شنوائی ہوئی اور انہیں استعفیٰ دینا پڑا اس کا شائد ہمسایہ ممالک میں سوچا بھی نہیں جا سکتا ۔ بیشک کئی طاقتور لوگوں کو ہندوستان میں بھی رشوت ستانی کو لیکر سزا ہوئی لیکن فرق صرف اتنی ہے کہ جہاں پاکستا ن میں صاحب اقتدار اور طاقتور لوگوں پر اُن کے اقتدار میں ہوتے ہوئے ہاتھ ڈالا جاتا ہے وہاں ہندوستان میں سیاستدانوں کی نکیل تب کسی جاتی ہے جب وہ اقتدار سے باہر ہوں ۔ کیا یہ صحیح نہیں کہ پاکستان میں انتخابات سے پہلے برسر اقتدار جماعت کو اقتدار چھوڑنا پڑتا ہے اور نگران حکومت کی زیر نگرانی انتخابات کا انعقاد کیا جاتا ہے جبکہ ہمارے ہاں اقتدار پر براجماں ہر شخص انتخابی نتائج کے سامنے آنے تک بیوروکریسی سے لیکر دیگر اداروں تک پر اثر انداز ہونے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے ۔ میرا مقصد ہرگز پاکستانیوں کی وکالت کرنا نہیں لیکن جہاں یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں ماضی میں جمہوری اداروں کو پھلنے پھولنے نہیں دیا گیا وہاں اگر اب جمہوریت پنپ رہی ہے تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ ہر حال میں ہندوستان کو ہی ہونا ہے ۔ تصویر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اگر یہ بات مان لی جائے کہ پاکستانی فوج کی منشاء سے عمران خان اقتدار میں آ گئے تو کیا یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ پاکستان فوج کی اپنے لوگوں میں عزت اور توقیر ہے کیونکہ ووٹ تو بہر حال پاکستانی فوجیوں نے نہیں وہاں کے لوگوں نے ڈالے ہیں ۔ پھر یہ بات بھی ہر کسی کے ذہن میں ہونی چاہئے کہ عمران خان راتوں رات آسمان سے ٹپک کر پاکستان کے مسنند اقتدار پر براجمان نہیں ہوئے بلکہ اُن کی چوبیس برسوں کی مسلسل محنت اور پاکستانی عوام میں اُن کے تئیں دھیرے دھیرے بڑھتے اعتماد نے اُن کو اس مقام پر پہنچا دیا ۔ ہندوستانی میڈیا جو پاکستانیوں کو مذہبی جنونی کہہ کر پوری دنیا میں پاکستان کو بد نا م کرنے کی کوششو ں میں رات دن مصروف رہا ہے آج آخر اتنا تو کیوں نہیں کہتا کہ پاکستانی عوام نے مذہبی جماعتوں کے بجائے نسبتاً اس کے بقول آزاد انہ خیالات رکھنے والے لوگوں کو ووٹ دیا ہے ۔ ایسے نہیں چل سکتا کہ ایک طرف آپ پاکستانی انتخابات میں دھاندلیوں کے الزامات بھی لگا دیں ، پاکستانی فوج کو انتہا پسند اور جنونی کہہ کر بدنام بھی کریں مگر ساتھ ہی اس تلخ بات کا اعتراف کرنے کی ہمت نہ کر پائیں کہ پاکستانی لوگوں میں مذہبی جماعتوں کو ووٹ نہیں دیا ۔حقیقت یہی ہے کہ جہاں پاکستانی مختلف وجوہات کی بناء پر دینی جماعتوں کو انتخابی میدان میں ساتھ نہیں دے رہی ہے وہاں خود ہندوستان کے اندر نہ صرف بی جے پی بلکہ کانگریس بھی کسی نہ کسی طرح مذہبی منافرت پھیلا کر آنے والے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ بہر حال ہندوستانی میڈیا ایک طرف کشمیر کے اندر بیشتر لوگ اس مباحثے میں الجھے ہوئے ہیں کہ اگر ہم پاکستان سے رشتہ کیا لاالاہ اللہ کے نعرے رات دن لگا تے ہیں تو بھلا پاکستانی کیوں مذہبی جماعتوں کو ووٹ نہیں دیتے ہیں ۔ حد تو یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر گرما گرم بحث و مباحثوں کے دوران بہت سارے مخلص لوگ نہ صرف پاکستانی انتخابات کے نتائج بلکہ پاکستانی لوگوں سے بھی بد ظن دکھائی دے رہے ہیں ۔ ہر کشمیری کو ٹھنڈے دل و دماغ سے یہ بات سمجھنی ہوگی کہ نہ صرف کشمیر کا مسئلہ سیاسی نوعیت کا ہے بلکہ پاکستانی لوگوں کا مذہبی جماعتوں کو ووٹ نہ دینا ہرگز یہ معنیٰ نہیں رکھتا کہ پاکستانیوں کو خدا نخواستہ اسلامی نظام حیات سے محبت نہیں ہے ۔ اگر پاکستانی عوام مذہبی جماعتوں کو ووٹ نہیں دیتی ہے تو اس کیلئے شائد بیشتر دینی سیاسی جماعتیں خود ذمہ دار ہیں ۔ جب تک نہ علمائے کرام اور اُن کی سرپرستی میں چلنے والی سیاسی جماعتیں پوری امت کے اندر اختلافات کو کم کرنے کی مخلصانہ اور سنجیدہ کوششیں کریں گے اور ساتھ ہی اپنے آپ کو مثالی مسلمانوں کے طور پیش نہیں کریں گے اُن کی ہر صحیح بات بھی شائد اُس پاکستانی کے حلق سے نہیں اترے گی جو کہ لاکھ خامیوں کے با وجود پوری امت مسلمہ کے درد کو اپنا درد سمجھتا ہے اور جس نے کشمیر سے لیکر افغانستان کی دھرتی کو اپنے خون سے سینچ کر ایسی قربانیاں دی ہیں کہ پاکستان کے بد ترین دشمن بھی اُن کی شجاعت اور خلوص کے آگے نگاہیں نیچے رکھنے کیلئے خود کو مجبور پاتے ہیں ۔ پھر یہ بات بھی ذہن میں رکھنی ہوگی کہ پاکستان ویسے بھی آئینی لحاظ سے ایک اسلامی مملکت ہے اور ملکی اداروں کے اندر اسلامی روایات کے مطابق چلنا ہر سرکار کی آئینی ذمہ داری ہے ۔ پاکستان میں جہاں مسلکی منافرت کا شکار بے گناہ عام شہریوں کو بننا پڑتا ہے وہاں جب تک نہ مذہبی جماعتیں باہمی اختلافات کو ختم کرکے پاکستانیوں کو ایک قوم کی طرح آگے بڑھنے کی قسم کھائیں گے شائد عام پاکستانی کیلئے اُن کے دعوئوں کی کوئی اہمیت نہیں ۔ بہر حال عمران خان کا پاکستان کا وزیر اعظم بننا آئندہ دنوں میں کس طرح بر صغیر کے نقشے پر اثر انداز ہوتا ہے بے حد دلچسپ ہوگا ۔ ایسے میں کشمیریوں کی مزاحمتی قیادت پر لازم ہے کہ وہ پاکستانی انتخابات کے نتائج اور وہاں کے لوگو ں کے بدلے بدلے تیور پر غور و خوض کرکے کشمیر مسئلہ کے دائمی حل کیلئے ایک واضح روڑ میپ تیار کرے جو کہ پاکستانی حکومت کیلئے بھی آگے لیجانا ممکن ہو ۔ نہ صرف ہندوستانی میڈیا کو تعصب پر مبنی پروپگنڈہ بند کرنا چاہیے بلکہ ہندوستان کی سرکار کو بھی عمران خان کی مثبت پیشکش کو کمزوری کے بجائے مفاہمت کا ہاتھ سمجھ کرپاکستان کے ساتھ ہر محاذ ہر تعاون کیلئے آگے آنا چاہئے ۔