پاکستان میں چین کے فوجی اڈے

Kashmir Uzma News Desk
8 Min Read
پاک چین دوستی اور تعلقات برق رفتاری سے مضبوط ہو رہے ہیں۔اس لئے دونوں اتحادیوں کے دشمن پروپگنڈہ کرنے پرمصروف ہو گئے ہیں۔ اقتصادی راہداری منصوبے کے اعلان سے پہلے بھیپا ک چین دوستی مثالی تھی۔ اس کی بڑی وجہ چین کا پاکستان کو سٹریٹجک شراکت دار سمجھنا ہے۔ ملک میں چین کی سرمایہ کاری میں اب جس رفتار اور انداز سے اضافہ ہو رہا ہے ، اس نے پاکستان دشمنوں سمیت چین کے مخالفین کو بھی نئے طرز کا پروپگنڈہ کرنے کا موقع دیا ہے۔ غلط فہمی پیدا کرنے میں سب سے پہلے بھارت پیش پیش تھا، امریکہ عرصہ دراز تک خاموش رہا۔ ماضی میں یہ خیال کیا جاتا رہا کہ پاکستا ن نے چین کے مقابلہ میں امریکہ کو کچھ زیادہ اہمیت دی۔ آج  اس میں شدت آ گئی ہے مگر یہ موقف سختی س پیش کرنے کی ضرورت ہے کہ ہر ایک ملک کی اپنی خارجہ پالیسی اور مفادات ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے ممالک کے باہمی تعلقات استوار ہوتے ہیں۔ یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ کوئی ملک کسی دوسرے کے لئے اپنا مفاد نظر انداز کر دے۔ یا اسے دائو پر لگانے کی کوئی بھی حرکت اس سے سرزد ہو۔ 
پاکستان کے پڑوس میں بنگلہ دیش، افغانستان ، ایران جیسے ممالک جو کبھی اسلام آباد سے ازلی دوستی کا دم بھرتے تھے، آج ان کی پالیسی میں تبدیلی دیکھی جا سکتی ہے۔ بھارت کے ساتھ دیرینہ تنازعات ہیں۔ اس وجہ سے دہلی پاکستان کے پڑوسی ممالک کو سفارتی ہتھیار کو طور پر اسلام آباد کے خلاف استعمال کر رہی ہے ۔ بنگلہ دیش ، افغانستان اور ایران کے مفادات پاکستان کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ دین کا رشتہ ناقابل تنسیخ ہے مگر یہ ممالک نظریات کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ جب سے امریکہ نے افغانستان میں اپنے فوجی اڈے قائم کئے ہیں، بھارت نے بھی افغانستان کو فوجی پڑائو کے طور پر استعمال کیا ہے۔ گزشتہ برسوں میں افغانستان میں جو تباہی ہوئی ہے ، پاکستان نے اس کے اثرات کو کم کرنے کے لئے کابل کے ساتھ تعاون کیا۔پاکستان کو اس کی بھاری قیمت بھی چکانا پڑی لیکن افغان حکمران دہلی کے اسیر بن گئے۔ بھارت نے افغانوں کو اسی طرز پر ٹریننگ دینے اور سرپرستی کا سلسلہ تیز کیا ہے جس طرح اس نے بنگلہ دیش میں مکتی باہنی کی پاکستان مخالف سرگرمیوں کو ہوا دی۔ یہ پاک افغان رشتوں میں دراڑیں ڈالنے کی ایک ایسی پالیسی ہے جس پر تشویش ظاہر کرنا کافی نہیں بلکہ مستقبل میں اس کے منفی اثرات کو زائل کرنے کے لئے فور ی تدبیر یں کرنے کی ضرورت ہے۔ ایران اور افغانستان سے پاکستان پر حملوں کا جھونکا بھی اس خدشے کو تقویت دے رہا ہے جس کا تدارک شاید ابھی نظر نہیں آتا۔ ملک میں سیاسی عد م استحکام نے عوام کی توجہ اہم مسائل سے ہٹا دی ہے۔ ملکی پیداوار اور سرمایہ کاری میں اضافہ ہر کوئی چاہتا ہے مگر یہ کیسے ہو گا، کوئی طویل المدتی منصوبہ نظروں سے اوجھل ہے۔ 
پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ ملکی معیشت کو دھکا دینے میں اہمیت اختیار کر چکا ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ یہاں سیاست ہو رہی ہے۔ اگر حکمران پارٹی کوئی منصوبہ سامنے لاتی ہے ، اسے صرف اس وجہ سے ناکام کرنے کی کوشش شروع کی دی جاتی ہے کہ سیاسی مخالفین اسے پسند نہیں کرتے۔ یہ ووٹ بینک کی سیاست ہے۔ مغرب میں سیاسی پارٹیاں ترقی میں مقابلہ آرائی کرتی ہیں۔ تعلیم ، صحت، روزگار، پیداوار ، ترقی، امن و امان پر خاص توجہ دیتی ہیں۔ اپوزیشن بھی مکمل تعاون کرتی ہے۔ پسماندہ ممالک میں رحجان مختلف ہے۔ مسلم لیگ ن کے دور میں ایک پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے تو یہ سب کے لئے قابل فخر ہو گا۔ پی پی پی ، پی ٹی آئی سمیت تمام اپوزیشن کا تعاون ضروری ہے۔ لیکن سیاسی سکورننگ کے لئے رویہ مختلف ہے۔ سندھ میں پی پی پی اور کے پی کے میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔ مسلم لیگ ن کو مکمل تعاون کرنا چاہیے تا کہ صوبے ترقی کریں۔ ترقی میں رکاوٹ کی کوشش جہالت اور تنگ نظری کو اجاگر کرتی ہے۔ اگر میں تحریک انصاف کا حامی ہوں تو پارٹی کے سیاسی مخالفین کو ایشوز اور ترقی کے میدان میں پیچھے چھوڑنے کی فکر ضروری ہو جاتی ہے۔ اگر کوئی بھی پارٹی ملک کو ترقی کی راہ پر ڈال رہی ہے تو اس کی بھر پور حمایت ضروری بن جاتی ہے۔ مہذب اور تعلیم یافتہ معاشرے ایسا ہی کرتے ہیں۔ اسی طرح پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو کسی بھی صورت میں ناکام بنانے کی حوصلہ شکنی کی جا سکتی ہے۔ یہ پروپگنڈہ کیا جاتا ہے کہ جیسے چین پاکستان میں فوجی اڈے تعمیر کر رہا ہے۔ چین کو ایسٹ انڈیا کمپنی قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ خطرناک رویہ ہے۔ نجی محفلوں مین لوگ اسی طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ جب کہ سچ یہ ہے کہ چینی ماہرین تعمیرات، انجیئنئرزپاکستان میں تعمیر و ترقی کے منصوبوں میں کام کر رہے ہیں۔ آج تک آزاد کشمیر یا پاکستان میں چین کا کوئی فوجی کمانڈوز کسی نے نہیں دیکھا ہو گا۔ ہم نے چینیوں بشمول خواتین کو آزاد کشمیر کے بجلی گھر اور ڈیم منصوبوں پر جانفشانی سے کام کرتے دیکھا ہے۔ بڑے بڑے انجینئرز مزدور کی طرح کام کر رہے ہیں۔ یہ بات سبق آموز ہے کہ پاکستان کو ملک میں کوئی بھی تنصیب، زمین، تعمیرات کسی بھی ملک کے پاس ضمانت کے طور پر ہی سہی گروی نہیں رکھنا چاہیئے تا کہ ملک دشمنوں کا پروپگنڈہ کارگر ثابت نہ ہو سکے۔ امریکہ بھی افواہ پھیلا رہا کہ چین نے پاکستان میں فوجی اڈے قائم کرنے کا کوئی منصوبہ بنایا ہے۔ پینٹاگون کی ایک تازہ رپورٹ میںصا ف طور پر کہا گیا ہے کہ چین مستقبل میں پاکستان میں فوجی اڈے قائم کر سکتا ہے۔ یہ رپورٹ امریکی محکمہ دفاع نے کانگریس کو بھیجی ہے جس میں امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ’’ چین ان ملکوں میں اپنے مزید فوجی مراکز قائم کرے گا جن کے ساتھ اس کے طویل عرصہ سے دوستانہ روابط اور ایک جیسے سٹریٹجک مفادات ہیں، مثال کے طور پر پاکستان‘‘۔ مزید فوجی مراکز کا جملہ سوچ سمجھ کر شامل کیا گیا ہو گا، جس سے یہ باور کرانا ہے کہ چین کے پاکستان میں پہلے سے ہی فوجی مراکز موجود ہیں۔ یہ سب بھارتی موقف کی آبیاری ہے تا کہ چین کو پاکستان میں معیشت کے فروغ اور دنیا کے ساتھ تجارتی تعلقات میں سرعت لانے کی منصوبہ بندی سے روکا جائے۔
 
Share This Article
Leave a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *