پاکستان قومی وصوبائی انتخابات گزشتہ ماہ کے اواخر میں پایہ تکمیل کو پہنچ گئے ۔ قومی اسمبلی کے انتخابات میںشہرہ ٔ آفاق سابق کرکٹر عمران خان نیازی کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف( پی ٹی آئی ) کی جماعت سب سے بڑی جماعت کے طور ابھری ہے ۔ مسلم لیگ( ن ) دوسرے نمبر پر رہی، جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی تیسرے نمبر پر آگئی ۔ صوبوں میں بھی ن لیگ کو ہزیمت کا سامنا رہا ، تاہم پی پی پی سندھ میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے ، خیبر پختونخواہ اور پنجاب میں پی ٹی آئی حکومت بنائے گی، بلوچستان بھی یہی تصویر پیش کررہاہے ۔ عمران خان بائیس برس کی محنت شاقہ کے بعد مملکت خداداد کے وزیر اعظم ہونے جارہے ہیں۔ پاکستان کے انتخابات پر مختلف قسم کے تبصر ے جاری ہیں ، کوئی کہتا ہے کہ عمران خان کی حکومت خوب ڈیلیور کر ے گی اور تبدیلی کے جس نعرے کو لے کر وہ بر سر اقتدار آگئے ، اُس کا بہت حدتک عملی اظہار ہو گا ، خاص کر انڈو پاک تعلقات میں بھی مثبت بدلاؤ آنے کی توقع کی جارہی ہے ۔اس سلسلے میں وزیراعظم مودی کا فون کر کے عمران خان کو بھدائی دینا ا ور پاکستان میں بھارتی ہائی کمشنر کا نیک خواہشات کا پیغام لے کر بنی گالہ اسلام آباد کی رہائش گاہ پر عمران خان سے ملاقات کر نا ، دشمنی اور گرما گرمی کی فضا میں سرد ہواکے جھونکوں سے تعبیر کیا جارہاہے ۔ البتہ بعض مبصرین کی رائے میں عمران خان کے لئے وزارت عظمیٰ کانٹوں کا تاج ثابت ہوگی ،ان کا تصوراتی نیا پاکستان ایک انتخابی نعرہ کے علاوہ کوئی معنویت نہیں رکھتا۔ یہ لوگ پیش گوئی کرتے ہیں کہ خان حکومت قلیل عرصہ میں تحلیل ہوگی اور پی ٹی آئی کا سیاسی و اقتصادی ایجنڈا دھرے کا دھرا رہے گا ۔ ایک اور طبقہ ٔ خیال کا خیال ہے کہ عمران خان کو بہت جلد یہ احسا س ڈَسے گا کہ کھیل کا میدان ایک چیز ہے اور سیاست و کرسی کا میدان چیزے دیگر ہے ۔ جتنے منہ اتنی باتیں ۔ اب یہ وقت ہی بتائے گا کہ عمران خان مملکت خداداد کو درپیش داخلی اور خارجی مسائل کا نپٹارا کر نے میں کس حد تک کامیاب ہوں گے ۔
ایک جائزے کے مطابق پاکستان میں ۵۵؍ فیصد ووٹروں نے اپنے ووٹ کا استعمال کیا ۔ تحریک انصاف کو اس میں سے ۳۲؍فیصد ووٹ حاصل ہوئے ۔ ہندوستان میں 2014 ء کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کو محض ۳۱؍ فیصد ووٹ ملے اور ۲۸۲؍ سیٹیں ملیں تھیں ، کانگریس کو ۲۰؍ فیصد ووٹ ملے لیکن اس کے حصے میں صرف۴۴ ؍نشستیں آئیں ۔ جنوبی ہند کی پارٹی انا ڈی ایم کے نے 1. 6 فیصد سے حیرت انگیز طور پر۳۷ ؍نشستیں حاصل کیں ۔مایا وتی کی بہو جن سماج پارٹی نے 4.1 فیصد ووٹ حاصل کرنے کے باوجود کوئی سیٹ نہیں پائی۔ یہ ایک جمہوری تماشہ ہے ۔بر صغیر ہند وپاک کے انتخابات بھی ہمیشہ جادوئی ہندسوں کا کھیل ہوتاہے ۔ جموں وکشمیر میں کئی بار دو تین فی صد voter over پر سرکاریں بنیں اور دلی کی آشیرواد چلیں بھی۔ پتہ چلا کہ انتخابی تماشوں کے پیچھے صرف بندوں کو گننے کا راز چھپا ہوتاہے ۔ بندوں کو گننے کا یہ عمل امریکہ، برطانیہ، یورپ وغیرہ میں اپنے سسٹم کے تحت رائج ہے اور برصغیر میں اپنے ڈائنامکس پر ۔ اس لئے انتخابی اعداد و شمار کے گورکھ دھندوں سے کوئی سرکار آتی ہے اور کوئی جاتی ہے ۔ پاکستان کے انتخابات میں بھی حسب ِمعمول اسی دیر ینہ روایت کا اعادہ ہو ا۔ان انتخابات کی ایک خاص بات یہ رہی کہ مذہبی جماعتیں اس بار تقریباً پچھڑ گئیں ۔ اس عمومی صورت حال کی روشنی میں کشمیر کے ایک روز نامے نے اپنے صفحہ اول کی پیشانی پر یہ سرخی جمائی: ’’پاکستانیوں نے اسلام اور اسلام پسندوں کو رد کیا‘‘ صحافت کے نام پر محض بازاری جملہ بازی ہے۔اس رپورٹ پر فیس بک ، ٹویٹراور سوشل میڈیا کے پہلوانوں نے اپنا لفظی دنگل شروع کیا جس سے یہ تاثر ملا جیسے واقعی پاکستانی مسلمانوں نے اسلام سے کنارہ کش ہوکر’’ جمہوری لات ومنات‘‘ کی اُسی طرح پوجا پاٹ شروع کر رکھی ہو جیسے قومِ موسیٰ ؑنے سامری کے بنائے ہوئے بچھڑے کو معبود بناکر پرستش کی ۔ در اصل الیکشن کے بارے میں ہم بہت ساری باتوں کو گڈ مڈ کرکے ان سے خود پسندانہ نتیجے بر آمد کرتے ہیں جو کبھی دُرست نہیں ہوتے ۔ مثال کے طور پر ہم لوگ اکثر مسلم ممالک میں رائج سودی نظام ، مغربی طرز معاشرت ، مخلوط تعلیمی نظام ، دینی شعائرسے کو سوں دوری، بے ہنگم معیشت اور مغرب زدگی کا جنون دیکھ کر مایوسی کے عالم میں کہہ اٹھتے ہیں کہ اسلامی نظام کو مسلمانوں نے مسترد کیا ہواہے ، اب ہم اس کا ساتھ دیں تور ائج الوقت نظام ہمیں زندگی کے دھارے سے الگ تھلگ کرے گا وغیرہ و غیرہ ۔ حق یہ ہے کہ فی الوقت ستاون مسلم ممالک میں ہمارے سامنے کوئی ایک بھی ماڈل اسلامی سٹیٹ موجود نہیں ، تمام مسلم آبادیاں دین سے مغائرت ومعاندت رکھنے والی طرز معاشرت اور نظام ِقانون ہی قناعت کررہی ہیں ۔اس لئے ہماری مایوسی قابل فہم ہیں ۔ ہم اسلام کے نام پرووٹ مانگ کر سمجھتے ہیں کہ تمام مسلمان ایک جٹ ہوکرووٹ مانگنے والی پارٹی کو جتوائیں گے ، لیکن یہ مغربی طرز جمہوریت کے پرچم تلے اس وقت تک ناممکن ہے، جب تک ترکی کے طیب اردوان جیسی ہمہ پہلو سیاسی شخصیت کی عملی کارکردگی ہر شعبہ ٔ حیات میں ہماری پیٹھ نہ ٹھونک رہی ہو ۔ نظام اسلامی کے خواب کی عملی تعبیر کے لئے اولاً جس ذہن سازی اور دماغ سوزی کی ضرورت ہے، اس کو بالکل نظر انداز کرکے ہم جاگتی آنکھوں سے اسلامی انقلاب کے خواب دیکھیں تو یہ ہماری حماقت ہوگی ۔ تاریخ میں کوئی بھی نظریاتی انقلاب ایسا درج نہیں جس نے پہلے ذہن سازی نہ کی ہو اور جس کی پذیرائی میں عوام کی ا یک واضح ا کثریت نہ ہو ۔اس حوالے سے جماعت اسلامی کے موسس سیدا بوالاعلیٰ مودودی کا یہ خیال زبردست اہمیت کا حامل ہے : ’’ کوئی بھی تبدیلی چاہے انقلاب یا انتخاب کے راستے سے ہو، اس کے لئے شرطِ لازم یہ ہے کہ اس تبدیلی کے آرزو مند اور اس کے ذریعے برپا ہونے والے نظام کے شیدائی معاشرے میں مناسب تعداد میں ہوں‘‘۔ اس حوالے سے نعیم صدیقی کی کتاب ’’ تحریکی شعور‘‘ کے صفحہ نمبر ۳۸۰ ؍کی اس عبارت پر غور وفکر کیجئے تو موجودہ جمہوری سیاست سے متعلق مولانا مودودیؒکے خیالات جان پائیں گے :’’دین سے آزاد سیاست،دین سے آزادجمہوریت،یا دین سے آزاد انتخابات کا کوئی تصور دور دور تک اُن کے( مولانا مودودی) کے ہاں نہ تھا ۔انہوں نے ووٹوں یا سیٹوں کی زیادہ تعداد حاصل کرنے کے لئے ایسے طریقے یا ایسے رابطے کبھی اختیار نہیں کئے جو دینی اصولوں کے خلاف ہوں ‘‘ اس کا مطلب صاٖف ظاہر ہے کہ مولانا کی تحریک اور اور اُن کے تفہیم وتشریحِ دین کے مطابق لازمی ذہن سازی کے بغیر موافق نتائج کی فصل کاٹنے کا سپنا دیکھناقبول نہ تھا ۔ یہ الگ بات ہے کہ جماعت اسلامی پاکستان اور جماعت اسلامی جموں وکشمیر نے اپنے اپنے حالات کے دائرے میں انتخابات میں اس خیال سے بڑھ چڑھ کرحصہ لینا شروع کیا کہ الیکشن ہی مروجہ ناخوب طریق کار کو بدلنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں مگر تاریخ نے اس خیال کو جھٹلایا۔ اس تعلق سے ہمیں اخوان المسلمون مصر کی تاریخ کو سمجھنا ہوگا ۔ اخوان اب تک دو بار مصری عوام کی حمایت سے مصر میں بر سر اقتدار آچکی ہے مگر فوجی اسٹیبلشمنٹ اور اس کے بیرونی آقاؤ ں نے اخوان کو اپنے لئے سم قاتل سمجھا ، اس لئے فوجی مداخلت سے حکومت کو گرایا گیا ۔ بایں ہمہ مصر جوفراعین کی سر زمین ہے ،میں آج بھی اخوان انتخابی میدان میں کامیاب وسرخرو ہوسکتی ہے ، باوجودیکہ اس کے کارکنان ،ہزاروں علماء ، مصلحین، ادباء سکالرز،مفسرین قرآن اور عظیم لیڈر بے دریغ قتل کئے جا تے رہے ، جیلوں کی زینت بنتے رہے ، بے بنیاد مقدمات کا سامنا کر تے رہے،تکالیف ورنج سے دوچار کئے جاتے رہے لیکن اخوان کے پائے ثبات میں کبھی لرزش نہ آئی ۔ اتنی سختیاں جھیلنے کے باوجود آج بھی اگر وہاں انتخابات کسی بیرونی اورا ندرونی دباؤ کے بغیر منعقد ہوں تو اخوان جیت جائے گی ۔ یہ واقعتاً اسلام کی جیت ہوگی کیونکہ وہاں عوامی سطح پر اخوان نے ذہن سازی کی ہوئی ہے، محض ووٹر بنانے کے لئے نہیں بلکہ نظام ِ حیات کو سرتاپا بدلنے کے لئے ۔ اس موازنے کو سامنے رکھ کر لازماً سوال اٹھتا ہے کہ آخر پاکستان جو اسلام کے نام پر قائم ہوا ہے، میں انتخابات میں اکثر الاوقات مذہبی جماعتیں انتخابی میدان مارنے سے کیوں قاصر رہیں ؟ اس کاجواب ہم سید قطب شہید کی تحریروں کی روشنی میں ڈھونڈنے کی کوشش کریں ۔ انہوں نے بانیٔ اخوان حسن البنا شہید کے ہمراہ مصر کو ایک اسلامی ماڈل سٹیٹ میں ڈھالنے کا بیڑہ اٹھایا،اس کے لئے دعوت کے ساتھ ساتھ انتخابات کا وسیلہ بھی آزمایا جاسکتا ہے۔ اس کے لئے اخوان نے مصر میں اتنی کامیاب ذہن سازی کی کہ تحریک کو عوام کی اکثریت نے بخوشی قبولاکہ پچھلے انتخابات میں اخوان کو ۶۸؍ فی صد ووٹ ملے اور محمد مرسی صدر بنے ۔ یہ الگ بات ہے کہ پاور اس وقت فوج آمر جنرل ا لسیسی کے ہاتھ میں مرتکز ہے جو اخوان کو بر سر اقتدار آنے میں سدراہ بنا ہوا ہے ۔ پاکستان میں جماعت اسلامی کی راہ میں ایسا کوئی کوہ ِ گراں حائل نہیں مگر پھر بھی ا س بار پاکستان بھر سے قومی اسمبلی میں کوئی ایک بھی سیٹ اسے نہیں ملی ۔ اس کی اصل و جہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ جماعت نے ملک میں ذہن سازی کے حوالے سے ابتدائی سطح کا کام بھی نہیں کیا ہواہے۔ ایک چھوٹی سی مملکت جو ستر سال کو محیط دور میں اسلامی طرز معاشرت رائج کرانے میں نا کام ر ہی ،وہ کس جادوئی چھڑی سے قومی یا صوبائی حکومت کا بار کامیابی سے سنبھال سکتی ہے ؟اس پر طرہ یہ کہ جب ایک ہی مملکت میں درجنوں دینی جماعتیں اپنااپنا پسندکردہ اسلام پیش کرتی ہوں،آپس میں دست وگریبان ہوں ، متحدہ عوامی مجلس عمل کی شکل میں سیاسی اور انتخابی اشتراک توکر تی ہوں لیکن دلوں کاملاپ نہ ہونے سے کسی موضوع پر متفق علیہ نہ ہوں، عدم برداشت کاحال یہ ہو کہ انسانی بموں سے ایک دوسرے کو اُڑانے میں کوئی قباحت ہی محسوس نہ کیا جاتاہو ، باہم دگر نیچا دکھانے کے سوا کوئی اور مثبت کام کرنے کا سلیقہ نہ ہو، توایسے میں دینی جماعتوں کو عوام کس بنیاد پر اپنے ووٹ کا حق دار سمجھیں ؟ ماضی ٔ قریب میں ختم نبوت ؐ کے ایشوپر جب پاکستان میں ایک بڑابحران پیدا ہوا تو تمام مذہبی جماعتیں تب بھی ایک پلیٹ فارم پر نہیں آسکیں، بلکہ بعض مولانا حضرات اپنے نجی اور طبقاتی ومسلکی مفاد کے لئے حکومتی موقف کے ساتھ ہی چمٹے رہے ، حالانکہ معاملہ ختم نبوت ؐکا تھا جو مسلمانانِ عالم کے ایمان کا جزوِ لاینفک ہے ۔ جہاں تک جماعت اسلامی پاکستان کا تعلق ہے ا خوان کے مقابلے میںاس کا دعوتی ، اصلاحی، سما جی، تعلیمی اور فلاحی نیٹ ورک عشر عشیر بھی نہیں ۔ اسی صورت حال میں چمتکاروں اور کرامات سے کسی اسلامی انقلاب کی توقع رکھنا احمقوں کی دنیا میں رہنے کے برابر اہے ۔
جماعت اسلامی جموں و کشمیر نے اوائل میں ایک زبردست تعلیمی نیٹ ورک کامیابی کے ساتھ قائم کیا ۔ آج بھی ماضی کے جماعتی تعلیمی اداروں سے نکلے ہوئے لوگ نظریہ اسلام کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ جماعت اسلامی نے انتخابی سیاست میں شیخ عبداللہ کے مد مقابل کھڑے ہونے کی غیر ضروری جسارت کی تو شیخ حکومت کی پہلی زدان تعلیمی اداروں پر پڑی ،ان کو مقفل کرواکے اسلامی خطوط پر ذہن سازی کے دروازے گویا ہمیشہ کے لئے بند ہو گئے ۔ ’’معا لم فی الطریق‘‘( جادہ و منزل ) سید قطب ؒکی شہرہ آفاق کتاب ہے ، اسی کی پاداش میں انہیں پھانسی پر لٹکاکر شہید کردیا گیا ۔ قرآن وسیرت سے مستفاد یہ کتاب ایک لحاظ سے جد ید دور میں اسلامی منشور ہے جس کی بنیاد پر عصر رواں میں اسلامی معاشرہ تشکیل پاسکتا ہے ۔ اخوان المسلمون نے مصر میں عملی طور یہ کر بھی دکھایا ۔اس کتاب سے موصوف قرآن وسنت کی روشنی میں وہ مراحل سامنے لاتے ہیں جن سے گزر کر مصر میں تمام رکاوٹوں کے باوجود اسلام پسندوں کی داعیانہ کاوشیں اسلامی معاشرت کے قیام پر منتج ہوئیں ۔سید قطب شہید لکھتے ہیں : ’’اسلام کی شان یہ نہیں کہ وہ دنیا کے اندر قائم شدہ جاہلی تصورات کے ساتھ مصالحانہ رویہ اختیار کرے یا جاہلی نظاموں اور جاہلی قوانین سے بقائے باہم کے اصول پر معاملہ کرے ،اسلام جاہلیت کے ساتھ نیمے دروں نیمے بروں نوعیت کی کوئی مصالحت قبول نہیں کرتا ، معاملہ خواہ اس کے تصور اور نظریہ کا ہو، خواہ اس اس تصور اورنظریہ پر مرتب ہونے والے قوانین ِحیات کا ۔اسلام رہے گا یا جاہلیت رہے گی ،جاہلیت عملی دنیا پر قابض ہے،اس کی پشت پرایک زندہ ،متحرک ادارہ موجود ہے۔ ایسی حالت میں نظری کوشش جاہلیت کے مقابلے کے لئے فائق تر تو کجا ،مساوی جواب بھی نہیں ،عقل کا تقاضایہ ہے کہ نیا نظام بھی ایک منظم تحریک اور جان دار معاشرہ بن کر میدانِ مبارزت میں اُترے ‘‘اس اقتباس کو بار بار پڑھنے سے کماحقہ وہ رموز واسرار کھل جاتے ہیں جن کی بنیاد پر مصری معاشرے میں لوگوں کی بڑی تعداد (جو ووٹوں کی خاصی تعداد سے بھی ظاہر تھی) اس صالح نظام حیات کو قبول کرنے پر رضامند ہے ۔ اب اس پہلو پر آیئے کہ الحاد اوردجالیت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں یہ کرشمہ کیونکر ہوا کہ مصر میں اسلامی نظریہ ٔحیات عوامی سطح پر غالب ہوا ، سید قطب اس بارے میں دورِ نبوت ؐ کی یہ جھلک دکھاتے ہیں:’’یہ انقلابِ عظیم اور کمالِ انسانیت صر ف اس بنا پر پیدا ہوا کہ جن لوگوں نے دین حق کو ایک ریاست، ایک نظام اور جامع قانونِ شریعت وزیست کی شکل میں قائم کیا تھاوہ خود پہلے اسے اپنے قلب و ضمیر اور اپنی زندگی میں قائم کرچکے تھے ،ا سے عقیدہ و فکر کے طور پر تسلیم کر چکے تھے ،اپنی عبادات میں اسے سند دے چکے تھے اور اپنے معاملات میں اس کا سکہ رواں کر چکے تھے ۔اس دین کے قیام پر ان سے صرف جنت کا وعدہ تھا ،اس وعدہ میں غالب ہونے، اقتدارعطا کرنے کا کوئی جز بھی نہیں تھا ،یہ بھی نہیں تھا کہ دین حق اُن ہی کے ہاتھوںغالب کیا جائے گا‘‘۔ان اقتباسات سے آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پاکستان میں مذہبی جماعتوں کی ہار صرف ان کی اپنی شکست ہے ،اسلام کی( العیاذباللہ) ہار نہیںہے۔
9419514537