سرینگر// نیشنل کانفرنس صدر اور ممبر پارلیمنٹ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا ہے کہ مرکزی سرکار نے جب پہلے نامزد مذاکراتکاروں، ورکنگ گروپوںاور پارلیمانی ڈیلی گیشنوں کی سفارشات اور رپورٹوں کو نظر انداز کردیا تو دینشور شرما کی تعیناتی کا کوئی مقصد نہیں بلکہ یہ کشمیری عوام کو بیوقوف بنانے کا ایک اور حربہ ہے۔انہوں نے مرکزی سرکار سے کہا کہ کشمیر ہمارا ہے اور اسکا مالک اور کوئی نہیں بن سکتا۔ٹنگڈار ڈاک بنگلہ میں عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق نے کہا ’’ ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی جی تقریریں کر رہے ہیں کہ کشمیر میں لوگ آزادی مانگتے ہیں، ہم آزادی نہیں بلکہ اپنی خود محتاری مانگ رہے ہیں‘‘ ۔ڈاکٹر فاروق نے کہا ’’یہ زمین ہماری ہے اور اس کے مالک بھی ہم ہیں تم نہیں ‘‘۔انہوں نے مرکزی سرکار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا’’ فاروق رہے یا نہ رہے لیکن تم اس زمین کے مالک نہیں بن سکتے ‘‘۔انہوں نے کہا کہ کشمیر مسئلہ کے حل کیلئے ہم جتنی بھی کوشش کریں مسئلہ تب تک حل نہیں ہو گا جب تک نہ پاکستان سے بات چیت ہو گی ۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان حالات انتہائی کشیدہ ہیں ،جب یہاں سے اُس پار گولہ باری کی جاتی ہے تو وہاں پر بھی جموں وکشمیر کا باشندہ مرتا ہے اور جب وہاں سے یہاں گولہ باری کی جاتی ہے تو یہاں پر بھی جموں وکشمیر کا باشندہ مرتا ہے اور اس کیلئے پاکستان سے بات چیت بہت ضروری ہے ۔وادی کی موجودہ حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق نے کہا کہ مرکزی سرکار کشمیریوں کے ساتھ بات چیت کیلئے نئے مذاکراتکار دینشور شرماکو یہاں بھیج رہی ہے ۔انہوں نے سوالیہ انداز میں کہا’’ ریاست کے گورنر این این وہرا نے 2003میں ایک رپورٹ مرکزی سرکار کو روانہ کی تھی اُس کا کیا ہوا؟ ۔ 2008میں بات چیت کرنے کیلئے پڈگائونکر اور اسدالدین اویسی آئے اُن کی رپورٹوں کا کیا ہوا ؟۔ سرکار نے پانچ ورکنگ گروپ بنائے اُن کی رپورٹوںکا کیا ہوا ؟۔ وزیر داخلہ پارلیمنٹ ممبران کے ساتھ کشمیر آئے اس کا کیا ہوا؟‘‘۔ انہوں نے مرکزی سرکار پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ مرکزی سرکار ایک اور مذاکراتکار کو یہاں بھیج کر ہمیںبیوقوف بنا رہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہم صرف آپ سے ایک ہی بات کہیں گے کہ ہماری خودمختاری ہمیں واپس کرو ۔ ڈاکٹر فاروق نے کہا ’’ جب یہاں انتخابات ہوئے ،میں ولایت میں تھا ، مجھے کسی نے کہا کہ آپ عمر عبداللہ سے بات کریں کہ وہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے ساتھ حکومت بنائیں ،میں اللہ کا شکر اداکرتا ہوں کہ میری پارٹی کے لوگوں کو اللہ نے یہ عقل دی کہ انہوں نے حکومت نہیں بنائی، آج رام مادھو ،جو یہ جانتا بھی نہیں ہے کہ یہ جگہ کہاں ہے، یہاں کی آبادی کیا ہے، یہاں کے جوا ن کیا ہیں وہ آج ہمارا مالک بنا بیٹھا ہے ،ناگپور سے بلٹ پروف گاڑی میں بیٹھ کر آتا ہے اور محبوبہ جی سے مل کر چلا جاتا ہے اگر میں مجبوبہ کی جگہ ہوتا تو میں اُسے اسی گاڑی میں بیٹھا کر واپس بانہال پار بھیجتا ‘‘۔ڈاکٹر فاروق نے اس دوران سرکار پر تیکھے وار کرتے ہوئے کہا کہ سرکار میں موجود لوگ اپنے رشتہ داروں کو پچھلے دروزے سے بھرتی کر رہے ہیں اور جن غریب بچوں نے پڑھ کر اپنی آنکھیں تباہ کی ، انہیں نظر انداز کیا جا رہا ہے ۔ ڈاکٹر فاروق نے ڈاکٹر بننے کے بعد انہوں نے شادیاں دوسری جگہوں پر کیں اورپھر یا تو سعودی عرب چلے گے یا پھر دوسرے ممالک میں کام کرنے چلے گئے ، اور ہم جہاں تھے وہاں ہی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ میں جب ڈاکٹر بنا تو بخشی صاحب نے میرا انٹرویو لیا ،مجھ سے پوچھا گیا کہ تم ڈاکٹر کیوں بننا چاہتے ہو، میں نے جواب دیا ’’ غریبوں کی خدمت کرنا چاہتا ہوں ،میرا باپ ڈاکٹر بننا چاہتا تھا اور غریبوں کی خدمت کرنا چاہتا تھا ۔‘‘ انہوں نے کہا ’’ جب شیح صاحب ڈاکٹر بننا چاہتے تھے تب مہاراجہ کی سرکار ہوا کرتی تھی انہوں نے شیح محمد عبداللہ کو ڈاکٹر نہیں بننے دیا، وہ استاد بننے ،شکر اُس اللہ کا کیونکہ انہوں نے اس قوم کو جگایا کیونکہ اس قوم پر کافی ظلم تھے ،ہماری مسجدوں میں گھوڑے باندھے جاتے تھے ،اگر کوئی اس پر اعتراض کرتا تھا تو کوڑے پڑتے تھے اور کہا جاتا تھا کہ بولو مہاراج کی جے‘‘ ۔