یٰسین جنجوعہ
جموں//بھارت اور پاکستان کے درمیان جاری کشیدگی اور آٹھ اور نو مئی کی درمیانی شب جموں میں مختلف مقامات پر پاکستانی حملوں کے بعد جموں شہر جو کبھی مصروف ترین تجارتی مرکز سمجھا جاتا تھا، اب ویرانی اور سنّاٹے کا منظر پیش کر رہا ہے۔جموں شہر کی معروف مارکیٹیں جیسے پریڈ، رگھوناتھ بازار، پرانی منڈی، سٹی چوک، ریزیڈنسی روڈ اور دیگر اہم مقامات پر کاروباری سرگرمیاں مکمل طور پر معطل ہیں۔ بیشتر دکانیں بند ہیں، صرف چند ایک ضروری ساز و سامان کی دکانیں کھلی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔شہر میں روز مرہ کی چہل پہل، بازاروں کی رونق اور عوام کی گہماگہمی کہیں دکھائی نہیں دے رہی۔ سڑکیں سنسان ہیں، اور ٹریفک کا نظام بھی تقریباً مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔جموں میں مقیم ہزاروں افراد جو رام بن، ریاسی، ڈوڈہ، کشتواڑ، راجوری، پونچھ اور کشمیر وادی کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں، خوف کے مارے جموں چھوڑ کر اپنے آبائی علاقوں کو لوٹ چکے ہیں۔ ریلوے اسٹیشن اور بس اسٹینڈ پر بھی اب مسافروں کی بھیڑ کی جگہ سنّاٹا چھایا ہوا ہے۔شہر میں ریڑھی بان، مزدور، چھوٹے تاجر اور بیرون ریاستوں سے آکر یہاں روزگار کرنے والے افراد بھی یا تو جموں سے جا چکے ہیں یا انہوں نے گھروں میں محصور رہنا ہی بہتر سمجھا ہے۔عینی شاہدین کے مطابق، پاکستان کی جانب سے کی گئی گولہ باری اور مبینہ ڈرون حملوں کے بعد جموں میں عجیب خوف کی فضا قائم ہو چکی ہے۔انتظامیہ کی جانب سے حالات پر نظر رکھنے اور سیکورٹی بڑھانے کے اقدامات کئے گئے ہیں، لیکن اس کے باوجود عوام میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ رہا ہے۔ لوگ سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے مسلسل حالات کی معلومات حاصل کر رہے ہیں اور بیشتر خاندانوں نے گھروں سے باہر نکلنا بند کر دیا ہے۔مقامی تاجروں کا کہنا ہے کہ اگر صورتحال مزید بگڑتی ہے تو انہیں بھاری مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کچھ تاجروں نے بتایا کہ گزشتہ دو سے تین دنوں سے ان کی دکان پر ایک شخص خریداری کیلئے نہیں آیا جس کی وجہ سے ان کی تجارت کاعمل بھی مفلوج ہو کر رہ گیا ہے ۔
پاکستانی حملے کے بعد جموں شہر سنسان، ہزاروں افراد کا اپنے آبائی علاقوں کا رخ تمام بڑے تجارتی مراکز بند،عوام میں خوف و ہراس، جموں چھوڑنے والوں کی تعداد میں اضافہ
