خورشید ریشی
اگر فرصت ملے پانی کی تحریروں کو پڑھ لینا
ہر ایک دریا ہزاروں سال کا افسانہ لکھتا ہے
اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے اور انہی میں سے ایک نعمت پانی ہے۔زمین کے ساتھ حصے پانی ہیں کیونکہ پانی تمام مخلوقات کے لئے بے حد ضروری ہے لیکن اس کے باوجود بھی انسان پانی کے لئے ترستا ہے۔پانی کے بغیر زندگی کا وجود ناممکن ہے اور ہمارے سامنے سینکڑوں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ جہاں پانی کی وجہ سے ہزاروں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔سانحہ ولر اور سانحہ درنگبل سرینگر ہم سب کو یاد ہوگا ،ان دو واقعات میں معصوم بچے بھی زندگی کی جنگ ہار بیٹھے۔
عجیب منظر ہے بارشوں کا مکان پانی میں بہہ رہا ہے
فلک زمین کی حدود میں ہے نشان پانی میں بہہ رہا ہے
تمام فصلیں اجڑ چکی ہیں نہ ہل بچا ہے نہ بیل باقی
کسان گروی رکھا ہوا ہے لگان پانی میں بہہ رہا ہے
کوئی کسی کو نہیں بچاتا سب اپنی خاطر ہی تیرتے ہیں
یہ دن قیامت کے دن ہو جیسے جہان پانی میں بہہ رہا ہے
اب تک ہم نے دیکھا ہے کہ سیلابی صورتحال کی وجہ سے پانی نے سینکڑوں افراد کو موت کے گھاٹ اتارا یا سیر سپاٹے پر جانے والے لوگ کشتی میں سوار ہو کر پانی کی نذر ہو گئے۔لیکن کل میں نے زندگی میں پہلی بار ایسا واقعہ سنا اور دیکھا کہ لوگ پانی کی تلاش میں نکلے یا پانی حاصل کرنے کے لیے گھر سے نکلے لیکن پانی کے بدلے یا پانی کی قیمت انہیں ایسی مہنگی پڑی کہ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے، اگر چہ ان چار افراد کو پینے کے لیے یا دوسری ضروریات کے لیے جیتے جی پانی نصیب نہ ہوا لیکن آخر کار اسی پانی سے انکو غسل دیا گیا اور انکی تجہیز و تکفین کی گئی۔موت اٹل ہے اور اس پر ہم سب کو مکمل یقین ہے لیکن اس کے باوجود بھی لوگ مختلف دلائل دیتے ہوئے نظر آ رہے ہیں اگر ایسا ہوتا، اگر ویسا ہوتا وغیرہ وغیرہ۔دراصل ہم نے قدرتی وسائل کا گھلا گھونٹ دیا ہے۔ ہمارےاپنے ہی ہاتھوں نے پانی کے وسائل کو تباہی کے دہانے پر پہنچایا ہے، ہمارے ندی نالوں ، چشموں ،تالابوں کی صورتحال ہمارے سامنے ہے، ہم نے کس طرح سے پانی کے ان وسائل کو خراب کیا ہے اور ان کو ہم نے کوڑے دان میں تبدیل کیا ہے۔ انکی خوبصورتی اور ان سے حاصل ہونے والا پانی اب کسی بھی جاندار کے لئے قابل استعمال نہیں ہے۔ ہمارے گاؤں اور ندی نالوں میں سینکڑوں ایسی چھوٹی چھوٹی ندیاں بہتی تھیں جن کا پانی ہم استعمال کرتے تھے لیکن اب ہماری خود غرضی کی وجہ سے ان کا نشان تک ڈھونڈ پانا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے۔جس کی وجہ سے پانی کی قلت کا سامنا تمام مخلوقات کو کرنا پڑ رہا ہے۔ اس پر ستم ظریفی یہ کہ پینے کے پانی کو ہم نے اپنے شوق پورا کرنے کے لئے استعمال کیا ہے۔اب پینے کے پانی کو ہم سینچائی کے علاوہ رات بھر اپنی پارکوں اور باغیچوں میں کھلا چھوڑتے ہیں اور ہمارے آس پڑوس میں لوگ پانی کی ایک بوند کے لئے ترستے رہتے ہیں اور ہمیں اس کا کوئی احساس نہیں ہوتا۔ہم دوسری ضروریات کو پورا کرنے کے لئے آنے والی زندگی کے لئے بہت ساری چیزوں کو ذخیرہ کرنے میں لگے رہتے ہیں اور آنے والی نسلوں کے لیے ہم پانی کے بغیر ہر ایک چیز کے لیے فکر مند ہیں مگر پانی کا کوئی خیال نہیں۔
راجپورہ سانحہ میں اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھونے والے ایک ہی گھر کے چار افراد نے ہمیں پانی کی ضرورت اور قیمت سمجھائی اور ہر ایک ذی شعور انسان ماتم کر رہا ہے اور ہر ایک آنکھ نم ہے لیکن کیا اس سانحہ سے ہمارے اندر کوئی تبدیلی رونما ہوگی؟ کیا ہم اب بھی اپنے گھروں میں پانی کے نل کھلے رکھیں گے؟ کیا ہم اب بھی پینے کے پانی سے اپنی گاڑیوں کو صاف کرینگے؟ کیا ہم اب بھی پانی ضائع کرینگے؟ کیا ہم اب بھی ایک دوسرے کو پانی بند کرینگے؟ کیا ہم اب بھی پانی کے وسائل کو برباد کرینگے؟
اگر ایسا ہے تو ہمیں ماتم کرنے اور آنسو بہانے کا کوئی حق نہیں۔ان افراد کی موت نے ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور ہم سب کو اب پانی کے تحفظ کے لئے اقدامات کرنے ہونگے اور پانی کے وسائل کی صفائی ستھرائی کر کے ان سے حاصل ہونے والے پانی کو قابل استعمال بنانا ہوگا، تب جا کر ہم راجپورہ راجوار جیسا سانحہ ہونے سے بچ سکتے ہیں اور تمام مخلوقات کے لئے پینے کے پانی کو میسر رکھ سکتے ہیں اور اگر ایسا کرنے میں ہم نے تجاہل عارفانہ سے کام لیا تو وہ دن دور نہیں کہ آئے روز ہمیں ایسے دلدوز واقعات کا سامنا کرنا پڑے اور ہم پانی کے حصول کے لیے ایک دوسرے کے خلاف جنگ چھیڑیں اور ایسا اس لیے بھی ممکن ہے کیونکہ پہلے سے ہی یہ پیشن گوئی کی گئی ہے کہ تیسری عالم گیر جنگ پانی پر ہی ہوگی۔اس لئے ہر ایک کو پانی کے تحفظ کے لئے آگے آنا ہوگا اور پانی ضائع کرنے سے خود کو اور دوسروں کو بھی روکنا ہوگا۔
وہ جو پیاسا لگتا تھا سیلاب زدہ تھا
پانی پانی کہتے کہتے ڈوب گیا ہے