ماہرین آب ہمیں بتاتے ہیں کہ ہمارے پاس آنے والی کئی دہائیوں بلکہ اُس سے بھی آگے کیلئے کافی مقدار میں پانی دستیاب ہے تاہم زمینی صورتحال یکسر مختلف ہے ۔جل جیون مشن کے تحت ہر گھر نل سے جل کی جو ملک گیر مہم چل رہی ہے ،گوکہ آئے روز اس سکیم کے تحت ایک کے بعد ایک ضلع میں ہر گھر کو نل کے ذریعے پانی فراہم کرنے کے ضمن میں صد فیصد ہدف حاصل کرنے کے دعوے کئے جارہے ہیں تاہم اصل تصویر پریشان کن ہی ہے۔آج بھی دیہات ، قصبوں اور دارالحکومتی شہر وںکے کچھ حصوں سے مسلسل یہ شکایات موصول ہورہی ہیں کہ پینے کے پانی کی قلت نے لوگوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔اب تصویر کے کس رخ کو درست سمجھا جائے ۔ماہرین اور حکومت کے دعوے کچھ اور ہیں جبکہ زمینی صورتحال کچھ اور ہی ہے ۔پانی کی فراوانی اور پانی کی دستیابی میں زمینی سطح پر کوئی مماثلت نہیں ہے اور اس عدم مماثلت کی واحد وضاحت یہ ہے کہ ہمارے آبی وسائل کا انتظام اور گھروں کو پانی کی فراہمی کے حوالے سے ہماری حکمرانی یا انصرام میں کہیں خامی ہے۔ کشمیر میں آبی وسائل پر ایک سرسری نظر ہمیں بتا سکتی ہے کہ جب یہاں پینے کے پانی کی فراہمی کی بات آتی ہے تو ہمیں کبھی کسی مسئلے کا سامنا نہیں کرنا چاہئے۔کشمیر کے طول و عرض میں ہمارے پاس پانی کے کا فی وسائل موجود ہیں جن سے تمام گھروں کو پینے کا اچھا پانی مہیا کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ اس کے علاوہ یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومتیں وقتاً فوقتاً پانی کی فراہمی کی مختلف سکیموں کا اعلان کرتی ہیں اور ان کے لئے فنڈس بھی جاری کئے جاتے ہیں۔ماضی کا محکمہ آب رسانی اور حال کا جل شکتی محکمہ اسی غرض سے ہی معرض وجود میںلایاگیا ہے کہ لوگوںکو بنا خلل پینے کا صاف پانی سپلائی کیاجاسکے ۔پھر کیا رکاوٹیں ہیں؟ کن کی نا اہلی ان مسائل کا ذمہ دار ہے جو یہاں عام لوگوں کو درپیش ہیں۔ کسی کو اس کا تفصیلی سروے کرنے کی ضرورت ہے اور اصل غلطیوں کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ چونکہ پانی سب سے اہم قدرت کی نعمت ہے اور آنے والی دہائیوں میں اس کی اہمیت مسلسل بڑھنے ہی والی ہے ، اس لئے ہمارے آبی وسائل اور فراہمی کے نظام کا پیشہ ورانہ جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔اگر نظام میں خرابیاں ہیں تو ہمیں ان کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر عہدیداروں کی طرف سے نااہلی ہے تو اس کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر فنڈس اور آلات کی کمی ہے تو اس کو بھی سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ عالمی سطح پر ہم دیکھ رہے ہیں کہ لوگ پانی کے کم ہونے کے بارے میںانتہائی فکر مند ہیں۔ اگر ہمیں قدرت نے بے پناہ آبی وسائل سے نوازا ہے توہم پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم قدرت کے اس انمول تحفہ کی حفاظت کریں ،اس کا مناسب استعمال یقینی بنائیں اور اس بات کو بھی یقینی بنائیں کہ اس قدرت کی اس انمول نعمت کو کوئی نقصان نہ پہنچے ۔لیکن بدقسمتی سے ہمارا بحران صرف حکمرانی کے معاملات میں ناکامی تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ قدرتی وسائل کے بارے میں بے حسی کا ہمارااجتماعی رویہ بھی اس بحران کاذمہ دار ہے۔ہم نے اپنی آب گاہوں کو کنکریٹ جنگلات میں تبدیل کردیا ہے ۔آبی وسائل کو اس حد تک آلودہ کردیا ہے کہ وہ پانی زہر بن چکا ہے ۔ہمارے گلیشیئر مسلسل پگھلتے جارہے ہیں ۔ہمارے ندی نالوں کی حالت ناگفتہ بہہ ہے اور ہمارے چشمے ناپید ہورہے ہیں۔یہ سب ہماری اجتماعی بے حسی کی وجہ سے ہورہا ہے اور اس کیلئے اکیلے حکومت کو ہی ذمہ دار نہیں ٹھہرا یا جاسکتا ہے۔اس پر طرہ یہ ہے کہ اب جو پانی سپلائی بھی کیاجاتا ہے کہ اس کو بھی ہم گھر کے باغات کو سینچنے کیلئے استعمال کرتے ہیں حالانکہ اُس کیلئے ایک عدد ٹیوب ویل بھی لگایا جاسکتا تھا لیکن ہم وہ خرچہ کرنے کو تیار نہیں ہیں اور سارا بوجھ پبلک سپلائی لائن پر ہی ڈال رکھا ہے جس کے نتیجہ میں عمومی طو ر گرمیوںکے سیزن میں پانی کا بحران سنگین ہوجا تا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ لیپا پوتی کا عمل جاری ہے اور بحران کو ٹالنے کا کام ہورہا ہے جس کیلئے عارضی علاج سے ہی کام چلا یا جارہا ہے لیکن ہمیں یہ ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ یہ عارضی نسخے کوئی مستقل علاج نہیں ہیں ۔ہمیں بڑے کینواس پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔تلخ حقیقت یہ ہے کہ آبی وسائل مسلسل کم ہوتے چلے جارہے ہیں اور یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ پانی کی فراہمی کا نظام انتہائی ناقص ہے ۔ایسے میں ہمیں ایسے حل تجویز کرنے کی ضرورت ہے جو ہمیں مستقبل میں ایک گہرے بحران سے بچا سکیں ورنہ آنے والے میں پانی کا بحران سنگین تر ہوجانا طے ہے۔