عظمیٰ مانیٹرنگ ڈیسک
نئی دہلی: دنیا بھر میں پانی کا بڑھتا ہوا بحران خوراک کی پیداوار کے لیے بڑا خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو 2050 تک عالمی جی ڈی پی میں آٹھ فیصد تک کی کمی ہو سکتی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کم آمدنی والے ممالک میں جی ڈی پی 15 فیصد تک گر سکتی ہے۔بین الاقوامی گروپ گلوبل کمیشن آن دی اکنامکس آف واٹر کی رپورٹ کے مطابق کمزور معاشی نظام، زمینی استعمال میں اضافہ، آبی وسائل کے ناقص انتظام اور موسمیاتی بحران نے عالمی سطح پر پانی کا بحران پیدا کر دیا ہے۔ جس کی وجہ سے 2050 تک دنیا کی نصف سے زیادہ غذائی پیداوار خطرے میں ہے۔ اس کے بڑے معاشی نتائج بھی ہو سکتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تقریباً تین ارب افراد اور خوراک کی پیداوار کا نصف سے زیادہ حصہ ان علاقوں میں ہے جہاں پانی یا تو خشک ہو چکا ہے یا خشک ہونے کے دہانے پر ہے۔کئی شہروں کو زیر زمین پانی کی کمی کا سامنا ہے۔ پی آئی ایف سی کے ڈائریکٹر جان راک اسٹروم کا کہنا ہے کہ دنیا کی نصف سے زیادہ آبادی کو پانی کی کمی کا سامنا ہے۔ چونکہ پانی کی دستیابی میں مسلسل کمی آرہی ہے، خوراک کی حفاظت اور انسانی ترقی خطرے میں ہے۔ یہ تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ عالمی آبی چکر غیر متوازن ہو گیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی اور زمین کا بڑھتا ہوا استعمال انسانی وجود کی بنیاد کو کمزور کر رہا ہے۔پانی کے انتظام کے اقدامات ماحولیاتی نظام کو مضبوط بنانے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ ڈبلیو ٹی او کے ڈائریکٹر جنرل اور کمیشن کے شریک چیئرمین گوزی اوکونجو اویلا نے کہا کہ پانی کا عالمی بحران ایک المیہ ہے، لیکن یہ پانی کی معاشیات کو تبدیل کرنے کا ایک موقع بھی پیش کرتا ہے۔ ہمیں پانی کی قلت اور اس کے فراہم کردہ بہت سے فوائد کو پہچاننے کے لیے پانی کی صحیح قدر کرنا چاہیے۔