ڈاکٹر عاشق آکاش
محبانِ وطن!کہتے ہیں کہ پانی سے دنیا وجود میں آئی ہے۔ جب معبود برحق کو انسان کی بناوٹ کا خیال آیا تو پانی کی مدد سے ہی انسانی جسم کا خمیر تیار ہوا۔ جاندار کے جسم کا بیشتر حصہ پانی ہی پانی ہے ۔ارض کائنات کا ستر فیصد حصہ پانی سے بنا ہے ۔ درختوں میں پانی ہے ، ہواؤں میں پانی ہے، فضاؤں میں پانی ہے ، غرض حیات کو کسی شے سے اگر مماثلت ہے تو وہ پانی ہی ہے۔ اور نہ جانے کہاں کہاں یہ پانی بسا ہے۔ پاتال میں پانی ، کوہسار میں پانی ، رندو درند میں پانی ، آنکھوں میں پانی ، ناک میں پانی ، منہ میں پانی ،یہاں تک کہ اب دودھ میں بھی پانی ہی پانی ملتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ پینے کا پانی آج کل صرف بوتلوں میں ہی ملتا ہے اور بوتل خریدتے خریدتے انسان کا اپنا بچا کھچا پانی پہلے خشک ہوجاتا ہے اور بعد میں دوسو ملی لیٹر پانی کو وہ ایسے پیتا ہے جیسے کہ ارض کائنات کی آخری بوتل ہو۔
ایک زمانہ ایسا بھی تھا کہ پانی ہر راہ پر گھڑوں میں ملا کرتا تھا۔۔۔۔۔ صاف اور شفاف۔۔۔ انسان جتنا چاہتا پی لیتا۔۔ لیکن ماڈرنائزیشن نے ان گھڑوں کا گلہ گھونٹ کر ماڈرن نلوں میں تبدیل کیا جن کو دیکھتے ہی انسان کی پیاس تو کیا بھوک بھی مٹ جاتی ہے۔ ہاں یہ بات الگ ہے کہ سوسائٹی کا ایک ملازم روزانہ ’’پینے کا صاف پانی‘‘ بورڈ کو نل سے لئے گئے پانی سے دھوکر چمکانے میں محو رہتا ہے۔
اس بات میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ہمارے ہاں اب قدرتی آبی وسائل ہونے کے باوجود ہر کوئی بوتل کا پانی ہی پیتا ہے اور یہ بوتل نانوائی کی تندور سے لیکرسنتورکے ٹیبل تک راج کرنے لگی ہے۔ آخر کیوں نہ کریں ہمارے ماڈرن مزاج نے تو ہماری سوچ سے قدیم زمانے کی وہ رنگینیاں ہی نکال دی ہیں۔ جس کی وجہ سے ہم نے نا جانے کتنے چشموں ، جھیلوں ، اور نہروں کا قتل عام کیا ہے۔ لیکن اس قتل پر کوئی 302 یا 420 نہیں لگتا ۔ لگتا اگر ہے تو دکان ،مکان یا عبادت گاہ کی بنیاد اور اس قتل عام میں نہ کوئی ملزم ہے نہ ہی کوئی منصف ۔۔۔ سب کے سب ماڈرن انسان !!!
کچھ روز قبل ہی میرا گذر میرے لڑکپن کی دوست ، زبیدہ کے اکیلے شوہر اور کریم چاچا کے اکلوتے بیٹے طبریز کے گھر سے ہوا۔ گھر ڈھونڈنے میں کافی تکلف اٹھانا پڑا۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے میرے چشموں کا پانی ہی خشک ہونے لگا اور مجھے دھندلی سی تصویریں دکھنے لگی۔ ان حالات میں ،میں نے لوٹنے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ کسی کونے سے حلیم آپا کو میرے سنہرے سر کی اور نظر پڑی، اس کی ممتا جاگ گئی اور مجھے بے قابو ہوکر بلانے لگی۔کم بخت طبریز ہوتا تو اپنی آنکھیں بند کردیتا۔ سنہرے سر سے یاد آیاکہ میرا اجڑا چمن بھی کبھی آباد ہوا کرتا تھالیکن اس کی حسین کھیتی بھی بے رحم آلودگی نے ہی اُجاڑ ڈالی۔ زمانہ ایسا بھی تھا جب سرپر لہلہاتے بال بھی ہوا کرتے تھے لیکن اب یہ صرف آئینے کے طور استعمال ہوتا ہے۔
میں نے حلیم آپا کے حلم بھرے بلاوے کو معبود برحق کے کھلے کرم کی مانند جانا اور گیٹ کی اور رخ کیا۔ سلائیڈنگ گیٹ سے اندر جاتے جاتے یہ سوچتا رہا کہ شاید کسی قدرتی آفت نے اس جگہ کا نقشہ ہی بدل دیا ہوگا۔ ہمارے بچپن کے زمانے میں طبریز اور میں جس نہر میں ڈبکیاں لگاتے تھے اس کا نام و نشان ہی نہ تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ کسی جنگ عظیم میں شہید ہوچکی ہو۔ پھر حالات کا جائزہ لینے کے بعد اس بات کا علم ہوا کہ طبریز نے نہر کو کوہِ داماں کی مٹی سے بھر کر وہاں پر ایک خوبصورت پارک بنادی تاکہ اپنی جوروکے مرجھے چہرے کے سوکھے کو یمبرزل ، پمپوش اور گلاب کی ترو تازگی سے قدرے دور کرسکے ۔ پارک کا ہر ایک بوٹا میری طرف ایسے دیکھ رہا تھا جیسے کہ پانی کی بھیک مانگ رہا ہو ، میں ان ہی سوچوں میں گم تھا کہ زبیدہ نے پانی کی ایک بوتل میز پر رکھ دی۔ زبیدہ تھی بھی بے چاری ، چہرہ جیسے توے پر بُنا ہوا۔ ایسا لگتا تھا کہ بوتل کا تمام پانی اُسی کے چہرے سے نچوڑ نچوڑ کر جمع کیا گیا ہو۔
ہمارے ہاں ہر گھر کی یہی کہانی ہے۔ عورتوں کی نمی کو نچوڑ کر کئی اشیاء سیراب ہوتی ہیں۔ کھیت کھلیان ہو ں، مویشی ہوں ،بچے ہوں ، رسوئی کا تندور ہو، مانگ کا سندور ہو یا پھر دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا طبریز جیسا پہلوان ۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ سیراب ہونے سے اگر کوئی رہتا ہے تو بے چاری زبیدہ جیسی حسینائیں۔ خیر میں بھی کیسا بے لگا م قلم کار ہوں ۔ بات طبریز کے پارک کی ہورہی تھی اورمیں نے آپ کو زبیدہ کی رنگینیوں میں سیر کروانا شروع کیا۔
خیر میں نے بھی بنا تکلف بوتل کا گلہ کاٹ کر پینا شروع کیا !!! میرا مطلب پانی پینا شروع کیا !!!!حقیقت بتاؤں تو اس پانی سے جیسے نہر کے خون ناحق کی بو آرہی تھی۔
’’پانی رے پانی تیرا رنگ کیسا‘‘ یہ الفاظ گنگناتے ہوئے میں نے بوتل کا بچا کھچا پانی گلاب کے بوٹے کی نظر کردیا جس کے نیم مردہ پھولوں کی حالت میرے دل کی تاروں سے ٹکرا کر اس فریاد کو جنم دے رہی تھی:
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے طبریز ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے۔
محبانِ وطن ! ہمارے ہاںاب چشموں کے پانی کے ساتھ ساتھ آنکھوں کے پانی میں بھی آلودگی آنے لگی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ چشموں کا پانی بوتلوں میں دستیاب ہونے لگا ہے لیکن آنکھوں کے پانی کا کوئی فلٹریشن پلانٹ ہی کم بخت سائنس نے اب تک ایجاد نہیں کیا اور شاید مستقبل قریب میں بھی ایسی کوئی امید نہیں ۔
کیسے دن گزرے ہیں جب انسان کی آنکھوں سے شرم و حیا کا پانی چھلک رہا ہوتا تھا لیکن اب سگریٹ ، تمباکو کے ساتھ ساتھ شرم و حیا کا دھواں بھی اُڑتا رہتا ہے۔ ایک زمانہ ایسا تھا جب میاں بیوی راہ چلتے تو ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہوکر چلا کرتے تھے۔ ان کی آنکھوں میں اتنا پانی ہوا کرتا تھا جسے ان کا شعور ہر دم سیراب رہتا لیکن ترقی کرتے کرتے شعور کے وہ سبزہ زار ریگستان میں تبدیل ہوئے ہیں۔ اب تو انجان جوڑے اس پانی سے ایسے محروم ہورہے ہیں جیسے کہ گلوبل وارمنگ کا سارا اثر ان کے شعور اور تحت الشعور کے بیچ پردے پر ہی ہورہا ہو اور ozone depletion کی مانند اس پردے میں ایسے سراخ پیدا ہورہے ہیں جن کے باعث تحت الشعور اور لاشعور کے سارے راز سر عام کھلنے لگتے ہیں۔
پانی کی اس قحط سالی کا رنگ میرے دوست فرحت اور میں نے حال ہی میں آبرو نگر کی رنگ برنگی پارک میں دیکھا۔ پارک کے اندر داخل ہوتے ہی میں فرحت کے ذہنی توازن کو شک کی نگاہوں سے دیکھنے لگا۔ ہوا یوں کہ فرحت بار بار مجھے اشاروں کنایوں میں کوئی خلاف فطرت چیز دیکھنے کی اور مائیل کررہاتھا ۔ پہلے پہل تو مجھے اس پر بھروسہ ہی نہ ہوا۔ مجھے ایسا لگا کہ میری اکلوتی عینک کی دو کھڑکیوں پر دھول جمع ہوچکی ہے اور حقیقت میں مجھے دھندلی سی تصویریں دکھ رہی تھی۔ لیکن فرحت کے بار بار اشاروں سے تنگ آکر میں نے بھی باریکی سے دیکھنا شروع کیا۔ دیکھتا ہوں کہ پارک میں پیڑ پودوں کی مانند الگ الگ جگہوں پر انجان جوڑے پارک کی زینت بنے ہیں۔ ان کو چھوڑ کر پارک کے تمام پیڑ پودوں کے سر شرم سے جھکے ہوئے تھے۔
فرحت اور میں نے اپنے شعور اور تحت الشعور کے درمیان پردے کوبچاتے بچاتے ایک دوسرے سے نظریں چراتے ہوئے پارک کے باہر کا رخ کیا۔ آبرو نگر کی آبرو ریزی دیکھ کر بے چارہ فرحت تب سے اپنی آبرو بچانے کی تاک میں گھر سے باہر تک نہیں نکلتا!!!
ہم نے ترقی کرتے کرتے آرٹیفیشل اِنٹلیجنس(Artificial Intelligence) اور ورچول رییلٹی (Virtual Reality)جیسی ٹکنالوجی کو تعلیمی اداروں کی زینت بنایا ۔پانی کے فلٹریشن پوئینٹ نصب کرلئے ۔ شیتل کی مائی اور زبیر کے ابا کو بھی ’جل بچاو مہم ‘ میں جوڑ لیا لیکن آنکھوں کے پانی کی خشک سالی کا علاج ندارد۔ اس آلودگی نے معلم اور متعلم کی خصلتیں بدل ڈالیں، گرو اور شش کا رشتہ بدل ڈالا ، استاد اور شاگرد کے بیچ حیا کے پردے کو چھلنی کردیا ۔ اس میں اتنے سراخ کئے کہ روز ایک سراخ سے ایک نئی کرب ناک کہانی باہر آتی ہے جس کی بدولت اخباروں کے پنوں میں رنگ چڑھتا ہے۔ نیوز چینلوں کی ٹی۔آر ۔پی بڑھتی ہے۔ فیس بُک جرنلسٹوں اور یو ٹیوبرس کے پیجوں پر لائکس کا سیلاب آتا ہے اور یوں بغیچے کا ایک ایک پھول جڑھتا ہے۔
ہمارے ہاں ایسا وقت بھی گذرا ہے کہ جب جہلم ، جمنا، چناب اور گنگا کے ساتھ لوگوں کی آستھا جڑی تھی لیکن اب صرف ان کے ساتھ بیت الخلا کی پائپیں اور کوڑے دانوں کی تقدیر جُڑی ہے جن کے فضلہ جات ان بیش بہا خزانوں میں سنسنی پھیلاتے ہیں اور اس کشمکش میں پانی بے چارہ درد کا مارا جوں کا توں رہتا ہے۔ ہاں پانی پر اگر کرم فرمائی کی ہے تو صرف اپنے زمانے کے دودھ والے بھیا نے۔ ارض کائنات میں اگر کسی کو پانی کی قدر ہے تو وہ صرف دودھ والے کو۔۔۔ جاڑا ہو یا بہار، بے چارہ ہمیشہ ہر حال میں دودھ سے نہلاتا ہے پانی کو!!! اور مشرق و مغرب، شمال و جنوب گھر گھر یہ دودھ سے نہلایا ہوا امرت پہنچتا ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ اس امرت سے کتنی رسوئیوں میں سیلاب آتا ہے۔ کتنے ہٹے کٹوں کی مردانگی عبس ہو جاتی ہے ۔ بے چارے اس امرت سے بنی چائے کے ساتھ جورو کی کیا کیا تلخیاں نگلتے ہیں اس کا حساب لکھتے لکھتے کاتبین بھی آب آب ہوتے ہیں۔ لیکن بے چارہ بے خواب ہی راہ چلتے دیوانوں کی طرح ان الفاظ کا ورد کرتا رہتاہے۔۔۔۔
دودھ سے نہلائے پانی کو ایسی ہے ریت مرے اب دیش
اپنے مقدر کو نا جانے کیا کیا مصائب ہے درپیش
محبان وطن ! تلخ ، تند، شیریں الفاظ کی آڑ میں آپ سفیدے کی مانند سوکھ نہ جائیو!!! اپنے پیروں کا سہارا بنیں ، پانی کا ایک گلاس لیجئے کہیں یہ بوندیں بھی آپ سے ناتا نہ توڑیں۔خدا نخواستہ آپ کو کچھ ہوا تو ہماری تحریریںاناتھ ہو جائیں گی۔
���
برنٹی اننت ناگ کشمیر،موبائل نمبر؛9906705778