چاڈورہ//کہتے ہیں یادیں انسان کی کمر توڑ دیتی ہیں اور جب یہ یادیں اپنے جگر کے ٹکڑے ، گھر کے چشم و چراغ اور پانچ بہنوں کے اکلوتے بھائی کی ہوں تو ایک انسان کس قدر اپنے جذبات کو قابو کر سکیں اور کیسے ایک ماں اور ایک باپ دل پر پتھر رکھ کر اپنے لخت ِ جگر کی تازہ اور کرب دینے والی یادوں سے منہ موڑنے کی کوشش بھی کریں ؟۔جمعہ کو چاڈورہ معرکہ آرائی کے دوران فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں گولی لگنے سے جاں بحق ہوئے تین نوجوانوں کا چہارم تھا جس دوران ہزاروں لوگوں نے مہلو کین کے گھر جاکر انکی ڈھارس باندھی اور جاں بحق ہونے والے نوجوانوں کے ایثال ثواب کے لئے دعائیں مانگیں۔ جمعہ کی نماز ادا کرنے کے بعد قصبہ چاڈورہ اور اسکے گرد و نواح میں موجود جامع مساجد سے لوگ جوک در جوک مہلوکین کے گھر کا رخ کررہے تھے جس دوران زاہد رشید نامی بائیس سالہ نوجوان کے مقبرہ پر متعدد مرتبہ فاتحہ خوانی کی گئی۔عبدالرشید گنائی بھی اپنے لخت ِ جگر کی قبر پر گئے جس دوارن ان پر غشی طاری ہوئی اور وہ گرپڑے ۔ انہیں فوری طور پرچاڈورہ ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں انکا علاج معالجہ کیاگیا۔زاہد کی پانچ بہنوں کا حال اس سے مختلف نہیں ۔ سوگواران کے یہاں تعزیت پُرسی کرنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ زاہد کی بہنیںاپنے اکلوتے بھائی کے غم میں نڈھال اورآہیں بھر رہی ہیں۔بہنوں کا کہنا کہ جب سے انکا بھائی انہیں چھوڑ گیا ہے تو اسکے انتظار میں قیامت جیسے پلوں کو کاٹ رہی ہیں۔ وہ ہر گزرتے پل اپنے بھائی کو پکارتی ہیں تاہم جواب نہ ملنے پر بیہوش پڑ جاتی ہیں۔بھائی کے غم میں ڈوبی دو بہنیں باربار زاہد کے گھر میں موجود ہونے ، گھر کے اندر داخل ہونے ، اور اسکے لئے کمرہ صاف کرنے کی باتیں کرتے کرتے بے حسی کے عالم میں کھو جاتی ہیں اور بار بار انہیںطبی معائنہ کے لئے چاڈورہ اسپتال بھی لے جانا پڑتا ہے ۔بی ایم او چاڈورہ ڈاکٹر دلیر احمد بٹ کا کہنا تھا کہ بھائی کی جدائی میں بہنوں پر غشی طاری ہوتی ہیں اور انہیں اپنے بھائی کے گھر میں موجود ہونے کا احساس سا ہوجاتا ہے ۔تاہم انکے بقول طبی معائنے اور دوائی دینے کے بعد انہیں وقتی طور پر ٹھیک کیا جاتا ہے ۔