ایس معشوق احمد
محاسب بتاتے ہیں سال میں چار موسم ہوتے ہیں۔ ہم جیسے ناداں تو آسانی سےبھروسہ کرلیتے ہیں لیکن شاعروں نے اس تقسیم پر کبھی اتفاق نہ کیا اور خود کو اس تفریق سے آزاد رکھ کر پانچویں موسم کے حوالے سے کوئی نہ کوئی شعری تخلیق سامنے لائے۔بیدل حیدری تو یہ دعوی کرتے ہیں کہ : ’’میرے اندر کا پانچواں موسم۔کس نے دیکھا ہے کس نے جانا ہے‘‘۔آنند بخشی نے فلم’ سندر‘ کے لئے جو گانا لکھا تھا ،اس میں انہوں نے یہ انکشاف کیا کہ پانچواں موسم بھی ہوتا ہے اور ان کی نظر میں یہ پانچواں موسم ‘پیار اور انتظار کا موسم ہے۔لکھتے ہیں : ــ
پت جھڑ ساون بسنت بہار
ایک برس میں موسم چار!
پانچواں موسم پیار کا انتظار کا!
کشمیر کے معروف شاعر علی شیدا بھی ادبی دنیا کے باسیوں،جو بہار ،گرمی،خزاں اور سردی کو برداشت کرلیتے ہیں ،کے لئے پانچواں موسم لے کر آئے ہیں۔ان کے یہاں پانچواں موسم کون سا ہے ،اس سوال نے ان کے تازہ نظموں کے گلدستے’’ پانچواں موسم ‘‘‘جس میں کل انسٹھ نظمیں شامل ہیں کا مطالعہ کرنے پر اُکسایا تو پایا کہ ان کے یہاں ہجرت کا پانچواں موسم ہے۔شاعر نےخود ہجرت نہ کی بلکہ ان سے دور وہ چیزیں ہوئیں جو روز ان کے ساتھ باتیں کیا کرتی تھی،جن میں اک ٹوٹا قلم تھا، ایک سوکھی دوات اور ایک میلی تختی۔کچھ بے جان کھلونے بھی تو تھے جو بابا نے لائے تھے اور جن میں سے کچھ شاعر کے ہاتھ سے گرکر ٹوٹ بھی گئے۔کچھ زندہ کھلونے جو شاعر کے ساتھ رہتے تھے اور رہ کر ہجرت کرتے تھے۔ شاعر کا بچپن ہجرت کررہا ہے لیکن یادیں تازہ ہیں ، ابابیلوں کا جھنڈ چھت سے چمٹ کر گھونسلہ بناتا تھا تو شاعر کا بچپن اُچھل کود کرتا تھا لیکن پھر پانچواں موسم آتا ہے ہجرتوں کا موسم!
پانچواں موسم تھا
آخری ہجرتوں کا
آیا تو آکرہی رہ گیا
آج تک جانے کا نام نہیں لیتا
کھڑکیوں کے جالی دار پٹ کھول دو
مرے ابابیلوں کو رستہ دو
آنے دو جانے دو
جاکر پھر آنے دو
بلک رہے ہیں کراہ رہے ہیں
زندگی ہجرت سے چھٹکارا چاہتی ہے
جالی دار پٹ کھول دو
ہجرتوں کا پانچواں موسم اب بھی نہ گیا
تو پھر کبھی نہیں جائے گا
پانچواں موسم میں شاعر نے عجیب طبیعت پائی ہے۔وہ دھند میں کاسنی کے پھول تلاش کرنے کے لئے گھر سے نکلتا ہے، گمشدہ پڑاؤ پر پہنچ کر ابدیت کا گیت گاتا ہے، موسموں کے بدلتے تیور دیکھ کر دسمبر کے آنگن میں بیٹھنے کا فیصلہ کرتا ہے لیکن جب اسے زرد آنگن کی دھوپ تنگ کرتی ہے تو گملوں میں اگائی نظمیں سن چنچل لڑکی کو سنانے لگتا ہے، فریم سے نکلا آدمی جب یہ نظارا دیکھتا ہے تو شاعر اس صورتحال سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے یہ دعویٰ کرتا ہے کہ انتظار کے پیڑ کے نیچے میں نے پرندے کو دیکھا جو زرد موسم کی بارش میں زرد پتوں پر بکھری نظم کوسنا کر غار سے پھوٹی روشنی کی طرف اشارہ کرتا ہے جہاں شکن زاد تخلیق پڑی ہے۔ وقت خاموش مسافر ہے۔۔۔ شاعر جب خواب کی اوٹ سے دیکھتا ہے تو فوراً دعاؤں کی نظم پڑھنے لگتا ہے لیکن عریانی میں چھپی نظم کو چھپا نہیں پاتا تو پنگھٹ پر سوئی نظم کو جگانے کی کوشش کرتا ہے لیکن یہاں دکھ کے دائرے اسے گھیر لیتے ہیں، تب بس اسٹاپ پر ٹھہری نظم شاعر کو چلو کا اشارہ کرتی ہے تو شاعر کائنات ،نظم اور تنہائی کا قصہ چھیڑ کر اعلان کرتا ہے۔ اے لوگو سنو نظم کائنات کا دُکھ ہے،نظم کائنات کی سانس ہے اور باتوں باتوں میں گم صم کائنات کے گیت شاہراہ پر ٹھہری ہجرت کو سنانے لگتا ہے۔موسم کی رہائی ہوتی ہے،خوابوں کا موسم بیت جاتا ہے ،پت جھڑ کی دستک ہوتی ہے تو چاروں طرف یہ صدا آتی ہے کہ دُکھ کائنات کی ڈور ہے۔
یہ نظموں کا مجموعہ پڑھ کر مجھے لگا کہ علی شیدا موسموں کا شاعر ہے۔ ٫’’پانچواں موسم ‘‘میں انہوں نے مختلف موسموں کا حال بیان کیا ہے۔اس مجموعے میں شامل کچھ نظموں کے عنوانات دیکھ لیجیے، نئے خواب کا موسم،دسمبر کے آنگن میں،موسموں کے بدلتے تہوار، زرد آنگن کی دھوپ ، اگلے موسم کی دھوپ،ہجرت کا پانچواں موسم،پت جھڑ کی دستک ، زرد موسم کی بارش ،آدھے موسم کی بارش ، خوابوں کا موسم ،موسم کی رہائی۔۔۔ شاعر جب بچپن کی یادیں مٹھی میں بھر کر تتلیاں ڈھونڈنے نکلتا ہے تو نئے موسم کا خواب جیسی نظم وجود میں آتی ہے،جب اس خیال کا اظہار کرتا ہے کہ دُکھ سکھ موسموں کے تہوار ہیں جو ہمارے جسم و جان کی گلیوں میں منائے جاتے ہیں تو موسموں کے بدلتے تہوار جیسی نظم صحفہ قرطاس کے حوالے ہوتی ہے،شاعر جب پچھلے موسم کی شاخوں سے دھوپ اُتار کے لے آتا ہے تو بدن کے آئینے سے نظمیں منعکس ہوتی ہے اور جب یخ بستہ نظموں کو آنچ پرسلگایا جاتا ہے تو اگلے موسم کی دھوپ تک قاری اس تذبذب کا شکار ہوتا ہے کہ جو نظمیں کئی رنگوں سے بنی تھی ان کا کیا ہوا۔۔۔جب شاعر کو لگتا ہے کہ دھوپ اور بادل کا پرانا رشتہ ہے اور ان کی آنکھ مچولی کائنات میں پنپتی زندگی کا محور ہے ،زندگی جب تھک کر تھوڑی دیر سنہری دھوپ میں سستانے بیٹھتی ہے تو نیند کی آغوش میں چلی جاتی ہے پھر اس کو زرد موسم کی بارش جگانے آجاتی ہے :
کائنات میں پنپتی زندگی کو دھڑکنے کے لئے
کائنات کی دھڑکن زندگی کا محور ہے
زندگی جب وقت گزارتے تھکنے لگے
سنہری دھوپ میں سستانے بیٹھتی ہے
نیند اسے اپنی آغوش میں لے لیتی ہے
علی شیدا نے زرد موسم سے لے کر محبت کے موسم تک موسم سے جڑی مختلف کیفیتوں،حالتوں ، موسم سے جڑی یادوں، موسم سے جڑے خوابوں، سہانی دھوپ، ہجر کی برسات، بوند بوند کا برسنا، بہار کی دستک، خزاں کے پتوں کی زردی، بارش کے ساز ، برف اور یخ بستہ ہواؤں کا سوز ، سلگتے سورج، نیم گرم دھوپ کے مختلف روپ اپنی نظموں میں برتے ہیں۔
ترے موسموں کی نئی ہوا
مجھے راس شاید نہ آگئی
تری بارشوں میں ہیں بلبلے
کف پا میں ہیں مری آبلے
علی شیدا نے اپنی نظموں میں بس موسم اور موسمی حالات کی عکاسی نہ کی بلکہ ان کے یہاں کیف وسرور،تصور اور تصویریں ،عشق کی رنگیاں ،حسن کی شوخیاں،وصل اور ہجر ،کائنات کے راز ، نظم کے ساز اور سوچ کی تنہائیوں کی بازگشت بھی سنائی دیتی ہے۔تخیل جب تخلیقی زبان کی قبا پہن لیتا ہے اور عریانی میں چھپی نظمیں جب شاعر کا ورثہ بن جاتی ہے ،تو پانچواں موسم جیسا شعری مجموعہ وجود میں آتا ہے جو شاعر کو امرت پلا کر دوام بخشتا ہے۔
رابطہ۔ 8493981240
[email protected]