خورشید ریشی
زندگی کشمکش ہے اور محنت اور مشقت کے بغیر کسی بھی دور میں زندگی گزارنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہےاور اپنے عیال کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ہر ایک اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر موسمی صورتحال کو بالائے طاق رکھ کر شدید گرمی ہو یا سردی اپنے قدم گھر سے باہر نکالنے سے گریز نہیں کرتا اور اس دوران ان افراد کو کن کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کبھی بھی وہ اپنے گھر والوں کے سامنے ان کا انکشاف تک نہیں کرتا بلکہ ہنسی خوشی اپنے عیال کے ساتھ روز مرہ کی زندگی گزار کر اپنے اوپر ان مسائل کو حاوی نہیں ہونے دیتا ہے اور اپنے عیال کی کفالت کے لئے ہر ایک دکھ درد کو برداشت کرتا ہے۔
اوڑی کا اعجاز احمد بٹ بھی سرینگر میں مزدوری کرکے اپنے عیال کی کفالت کرتا تھا اور مہنگائی کے اس دور میں اوڑی سے سرینگر آنے پر کن حالات نے اس کو مجبور کیا ،یہ اللہ ہی جانتا ہے مگر اپنے بچوں کی پرورش اور زچگی کی حالت میں اپنی بیوی کی دیکھ بھال اور اس کی کفالت کرنا جہد سے کم نہیں ہے۔سنیچر کی شام کو جب اعجاز احمد بٹ کرائے کے اس ایک کمرے میں اپنے بچوں اور بیوی کے ساتھ بیٹھ کر انکو تسلی دیتا ہوتا اور بچے اپنے والد کے چہرے پر نظریں جمائے ہوئے ماں باپ کی گفتگو کو سن رہے ہوتے تو ان سب کو کیا معلوم ہوتا کہ اس گفتگو کے ساتھ ہی ان کی زندگی اختتام پذیر ہوگی اور انکے سوچے ہوئے منصوبے اور دیکھے ہوئے خواب نہ تو شرمندہ تعبیر ہونگے اور نہ ہی صبح یہ ایک ساتھ چائے پئیں گے ، نہ بچے اپنے والد سے نت نئے چیزوں کا تقاضا کرینگے اور نہ ہی بیوی اپنے خاوند سے اللہ حافظ کہہ کر شام کو جلدی گھر آنے کو کہے گی اور یہ شام ان سب کی آخری شام بن جائے گی۔اتوار کی صبح انکے موت کی خبر جنگل کے آگ کی طرح پھیل گئی اور سوشل میڈیا پر انکی مردہ تصاویر کو بے تحاشا وائرل کیا گیا، اس سانحہ سے ہر ایک آنکھ نم ہوئی اور ہر ایک دل بھاری ہو گیا اور ہر ذی شعور انسان اس سانحہ پر افسوس کرنے لگا۔قدرت کے قانون کے سامنے سب بے بس ہیں مگر بات بھی قابل غور ہیں کہ آجکل تعزیت ،ہمدردی اور دعائیں صرف فیس بک تک ہی محدود ہیں۔انسانیت اب موت کے دروازے پر کھڑی ہے کیونکہ جیتے جی نہ ہم اب کسی کے دُکھ سکھ میں ساتھ دیتے ہیں اور نہ ہی کسی کی عیادت یا تعزیت پُرسی کے لئے گھر جاتے ہیں بلکہ ہمارا سب کچھ آج سوشل میڈیا تک ہی محدود رہ گیا ہے اور آٹے میں نمک کے برابر لوگ آج بھی جیتے جی کسی کے دُکھ سُکھ میں شامل ہوتے ہیں اور دوسرں کے کام آتے ہیں۔اگر اعجاز احمد کے کنبے میں ایک یا دو افراد ہی اس سانحہ میں زندہ بچ پاتے تو سوشل میڈیا کے ذریعے اس کی امداد کے لئے گھنٹوں میں لاکھوں روپے جمع ہوتے مگر جیتے جی شاید اعجاز احمد کی کسی نے مدد نہ کی ہوگی۔لہٰذا ایسے واقعات میں زندگی سے ہاتھ دھونے والوں پر اُن کے جانے کے بعد افسوس کرنے سے بہتر ہے کہ ہم اپنے آس پڑوس میں ایسے افراد کی جیتے جی مدد کریں تاکہ انہیں روزی روٹی کی تلاش میں در در کی ٹھوکریں نہ کھانا پڑیں اور انکی تصاویر کو سوشل میڈیا پر پھیلانے سے پہلے ہزار بار سوچیں کہ کہیں ہماری اس حرکت سے انکے رشتہ داروں کو تکلیف تو نہیں پہنچتی اور انکی تصاویر کو سوشل میڈیا پر بار بار دیکھتے دیکھتے انکے زخموں کو کُریدنے کی کوشش تو نہیں کر رہے ہیں اور کہیں ہماری
اس حرکت سے کسی اور کو اپنی زندگی سے ہاتھ دھونا نہ پڑے۔اس کے ساتھ ساتھ سردیوں کے ان ایام میں ہیٹنگ آلات کا سوچ سمجھ کر استعمال کریں اور انکا استعمال کرتے وقت احتیاط برتنےکی اشد ضرورت ہے تاکہ ہماری غفلت شعاری سے معصوم بچوں کی زندگیوں کو خطرے میں نہ پڑیں۔
[email protected]>