Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

! پاندریٹھن سانحہ۔ ایک لمحۂ فکریہ فکر وادراک

Towseef
Last updated: January 7, 2025 9:01 pm
Towseef
Share
5 Min Read
SHARE

خورشید ریشی

زندگی کشمکش ہے اور محنت اور مشقت کے بغیر کسی بھی دور میں زندگی گزارنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہےاور اپنے عیال کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ہر ایک اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر موسمی صورتحال کو بالائے طاق رکھ کر شدید گرمی ہو یا سردی اپنے قدم گھر سے باہر نکالنے سے گریز نہیں کرتا اور اس دوران ان افراد کو کن کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کبھی بھی وہ اپنے گھر والوں کے سامنے ان کا انکشاف تک نہیں کرتا بلکہ ہنسی خوشی اپنے عیال کے ساتھ روز مرہ کی زندگی گزار کر اپنے اوپر ان مسائل کو حاوی نہیں ہونے دیتا ہے اور اپنے عیال کی کفالت کے لئے ہر ایک دکھ درد کو برداشت کرتا ہے۔

اوڑی کا اعجاز احمد بٹ بھی سرینگر میں مزدوری کرکے اپنے عیال کی کفالت کرتا تھا اور مہنگائی کے اس دور میں اوڑی سے سرینگر آنے پر کن حالات نے اس کو مجبور کیا ،یہ اللہ ہی جانتا ہے مگر اپنے بچوں کی پرورش اور زچگی کی حالت میں اپنی بیوی کی دیکھ بھال اور اس کی کفالت کرنا جہد سے کم نہیں ہے۔سنیچر کی شام کو جب اعجاز احمد بٹ کرائے کے اس ایک کمرے میں اپنے بچوں اور بیوی کے ساتھ بیٹھ کر انکو تسلی دیتا ہوتا اور بچے اپنے والد کے چہرے پر نظریں جمائے ہوئے ماں باپ کی گفتگو کو سن رہے ہوتے تو ان سب کو کیا معلوم ہوتا کہ اس گفتگو کے ساتھ ہی ان کی زندگی اختتام پذیر ہوگی اور انکے سوچے ہوئے منصوبے اور دیکھے ہوئے خواب نہ تو شرمندہ تعبیر ہونگے اور نہ ہی صبح یہ ایک ساتھ چائے پئیں گے ، نہ بچے اپنے والد سے نت نئے چیزوں کا تقاضا کرینگے اور نہ ہی بیوی اپنے خاوند سے اللہ حافظ کہہ کر شام کو جلدی گھر آنے کو کہے گی اور یہ شام ان سب کی آخری شام بن جائے گی۔اتوار کی صبح انکے موت کی خبر جنگل کے آگ کی طرح پھیل گئی اور سوشل میڈیا پر انکی مردہ تصاویر کو بے تحاشا وائرل کیا گیا، اس سانحہ سے ہر ایک آنکھ نم ہوئی اور ہر ایک دل بھاری ہو گیا اور ہر ذی شعور انسان اس سانحہ پر افسوس کرنے لگا۔قدرت کے قانون کے سامنے سب بے بس ہیں مگر بات بھی قابل غور ہیں کہ آجکل تعزیت ،ہمدردی اور دعائیں صرف فیس بک تک ہی محدود ہیں۔انسانیت اب موت کے دروازے پر کھڑی ہے کیونکہ جیتے جی نہ ہم اب کسی کے دُکھ سکھ میں ساتھ دیتے ہیں اور نہ ہی کسی کی عیادت یا تعزیت پُرسی کے لئے گھر جاتے ہیں بلکہ ہمارا سب کچھ آج سوشل میڈیا تک ہی محدود رہ گیا ہے اور آٹے میں نمک کے برابر لوگ آج بھی جیتے جی کسی کے دُکھ سُکھ میں شامل ہوتے ہیں اور دوسرں کے کام آتے ہیں۔اگر اعجاز احمد کے کنبے میں ایک یا دو افراد ہی اس سانحہ میں زندہ بچ پاتے تو سوشل میڈیا کے ذریعے اس کی امداد کے لئے گھنٹوں میں لاکھوں روپے جمع ہوتے مگر جیتے جی شاید اعجاز احمد کی کسی نے مدد نہ کی ہوگی۔لہٰذا ایسے واقعات میں زندگی سے ہاتھ دھونے والوں پر اُن کے جانے کے بعد افسوس کرنے سے بہتر ہے کہ ہم اپنے آس پڑوس میں ایسے افراد کی جیتے جی مدد کریں تاکہ انہیں روزی روٹی کی تلاش میں در در کی ٹھوکریں نہ کھانا پڑیں اور انکی تصاویر کو سوشل میڈیا پر پھیلانے سے پہلے ہزار بار سوچیں کہ کہیں ہماری اس حرکت سے انکے رشتہ داروں کو تکلیف تو نہیں پہنچتی اور انکی تصاویر کو سوشل میڈیا پر بار بار دیکھتے دیکھتے انکے زخموں کو کُریدنے کی کوشش تو نہیں کر رہے ہیں اور کہیں ہماری
اس حرکت سے کسی اور کو اپنی زندگی سے ہاتھ دھونا نہ پڑے۔اس کے ساتھ ساتھ سردیوں کے ان ایام میں ہیٹنگ آلات کا سوچ سمجھ کر استعمال کریں اور انکا استعمال کرتے وقت احتیاط برتنےکی اشد ضرورت ہے تاکہ ہماری غفلت شعاری سے معصوم بچوں کی زندگیوں کو خطرے میں نہ پڑیں۔
[email protected]>

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
نجی ہسپتال اس بات کو یقینی بنائیںکہ علاج عام شہری کی پہنچ سے باہر نہ ہو:وزیراعلیٰ نیشنل ہسپتال جموں میں خواتین کی جراحی کی دیکھ بھال پہل ’پروجیکٹ 13-13‘ کا آغا ز
جموں
آپریشنز جاری ،ایک ایک ملی ٹینٹ کو ختم کیاجائیگا بسنت گڑھ میںحال ہی میں4سال سے سرگرم ملی ٹینٹ کمانڈر مارا گیا:پولیس سربراہ
جموں
مشتبہ افراد کی نقل و حرکت | کٹھوعہ میں تلاشی آپریشن
جموں
نئی جموں۔ کٹرہ ریل لائن سروے کو منظوری د ی گئی
جموں

Related

کالممضامین

رسوم کی زنجیروں میں جکڑا نکاح | شادی کو نمائش سے نکال کر عبادت بنائیں پُکار

July 16, 2025
کالممضامین

! عالمی حدت اور ہماری غفلت | ہوا، زمین اور پانی کو ہم نے زہر بنا دیا گلوبل وارمنگ

July 16, 2025
کالممضامین

والدین کی قربانیوں کی کوئی انتہا نہیں

July 16, 2025
کالممضامین

اپنے مستقبل سے جوا بازی کی بھیانک صورتحال | معاشرے کی نوجوان نسل کس سمت جارہی ہے؟ توجہ طلب

July 16, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?