28جولائی جمعہ المبارک کوسپریم کورٹ آف پاکستان نے پوری دنیامیں اودھم مچادینے والے مشہورزمانہ’’ پاناما کیس‘‘ کا فیصلہ سناتے ہوئے پاکستان کے ارب پتی منتخب وزیراعظم نوازشریف کو نااہل قرار دے دیا۔سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئرجج صاحبان،جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجازافضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل 5 رکنی لارجر بینچ نے کورٹ نمبر ایک میں فیصلہ سنایا ۔ پانچ ججزکا متفقہ فیصلہ 25 صفحات پر مشتمل تھا جس کا کچھ حصہ جسٹس اعجاز افضل خان اور کچھ بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کھلی عدالت میں پڑھ کر سنایا۔جسٹس اعجاز افضل خان نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ بینچ کے پانچوں ججوں نے نوازشریف کو آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت نا اہل قرار دیا گیا ہے۔خیال رہے کہ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل62،63 پاکستان کی قومی اسمبلی کے لئے اراکین کی اہلیت و نااہلیت کے بارے میں بحث کرتے ہیںہے۔ان شقات کی رو سے کوئی شحص شوریٰ’’پارلیمنٹ ‘‘کا رکن منتخب ہونئے یا چنے جانے کا اہل نہیں ہوگا اگروہ اچھے کردار کا حامل نہ ہو اور عام طور پر احکام اسلام سے انحراف میں مشہور ہو۔اگروہ اسلامی تعلیمات کا حاطر خواہ علم نہ رکھتا ہو اور اسلام کے مقرر کردہ فرائض کا پابند نیز گناہِ کبیرہ سے مجتنب نہ ہو۔وہ سمجھدا ر، پارساہو اور فاسق ہو اور ایماندار اور امین نہ ہو۔کسی اخلاقی پستی میں ملوث ہونے یا جھوٹی گواہی دینے کے جرم میں سزایافتہ ہو۔اس نے قیامِ پاکستان کے بعد ملک کی سالمیت کے خلاف کام کیا ہو یا نظریہ پاکستان کی مخالف کی ہو۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نوازشریف صادق اور امین نہیں رہے لہذا صدر مملکت نئے وزیراعظم کے انتخاب کا اقدام کریں۔پاکستان کی عدالت عظمی نے اپنے فیصلے میں الیکشن کمیشن کو حکم دیاکہ وہ فوری طور پر وزیراعظم کی نااہلی کا نوٹی فکیشن جاری کرے۔سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے نوازشریف کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا بھی حکم دیا ہے جب کہ شریف خاندان کے تمام کیسز نیب میں بھجوانے کا حکم دیا گیا ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد نوازشریف اب اپنی جماعت کے صدر بھی نہیں رہ سکتے۔پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 کے تحت اسمبلی رکنیت سے نااہل ہونے والا شخص پارٹی عہدہ رکھنے کا بھی اہل نہیں ہوتا۔جبکہ فیصلہ صادرہونے کے فوری بعدالیکشن کمیشن آف پاکستان نے نوازشریف کی اسمبلی رکنیت ختم کرنے کا نوٹی فکیشن جاری کردیا۔ الیکشن کمیشن کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں نوازشریف کی قومی اسمبلی کی رکنیت کے حلقہ این اے 120 کی رکنیت ختم کردی گئی ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاناما کیس کے فیصلے میں حکم دیا ہے کہ نوازشریف، حسن ،حسین، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈصفدر کے خلاف بھی ریفرنس دائرکیا جائے اور نیب 6 ہفتوں میں ریفرنس دائر کرے۔ عدالت نے حکم دیا کہ احتساب عدالت ان مقدمات پر 6 ماہ میں فیصلہ کرے گی۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ نوازشریف اپنے اثاثے ظاہر کرنے میں ناکام رہے ہیں جب کہ انہوں نے کیپٹل ایف زیڈ ای کمپنی کو چھپایا۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف بھی نیب میں ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا ہے۔
واضح رہے کہ پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم’’جے آئی ٹی‘‘نے اپنی رپورٹ 10 جولائی کو عدالت میں جمع کرائی تھی جس کے بعد 17 جولائی سے 3 رکنی بینچ نے کیس کی مسلسل پانچ سماعتیں کیں اور 21 جولائی کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔جبکہ 28جولائی کو نوازشریف کے خلاف فیصلہ سنادیا۔پاناما کیس کے فیصلے کے پیش نظر اسلام آباد پولیس نے سیکیورٹی کا خصوصی پلان تشکیل دیا تھا۔ سپریم کورٹ کے اطراف سیکورٹی ہائی الرٹ رکھی گئی، اہم مقامات ریڈ زون اور عدالت کے اطراف پولیس، رینجرز اور ایف سی کے 3 ہزار اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔غیر متعلقہ افراد کا ریڈ زون میں داخلہ ممنوع تھا جب کہ میڈیا نمائندوں کو کوریج کے لیے خصوصی سیکیورٹی پاس جاری کیے گئے ہیں۔سپریم کورٹ رجسٹرار کی جانب سے جاری پاسز کے بغیر کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی جب کہ ریڈ زون میں موجود دفاتر میں کام کرنے والے ملازمین کو اپنے دفتر کارڈ ساتھ رکھنے کی ہدایت کی گئی۔سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے بعد نوازشریف وزارت عظمی کے عہدے سے سبکدوش ہوگئے اور کابینہ بھی تحلیل ہوگئی ہے۔
نوازشریف کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان کافیصلہ صادرہونے پرمسلم لیگ نواز کے ترجمان کا کہنا تھا کہ فیصلے کے بارے میں نوازلیگ کو شدید تحفظات ہیں جن کے حوالے سے تمام آئینی و قانونی آپشنز استعمال کیے جائیں گے۔جبکہ پاناما کیس کے فیصلے کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے عمران خان کاکہناتھا کہ اس فیصلے سے امید مل گئی ہے کہ باقی ممالک کی طرح ہم بھی آگے بڑھ سکتے ہیں۔ ان کاکہناتھاکہ یہ شروعات ہوئی ہے، اس کے بعد بڑے بڑے ڈاکو پکڑے جائیں گے۔عمران خان کاکہناتھاکہ جے آئی ٹی نے جس انداز میں کام کیا ایسا مغربی ممالک میں بھی نہیں ہوتا۔جس کامطلب یہ ہے کہ پاکستان میں احتساب کے لئے رجال کارموجودہیں اوراگردیانتداری سے کام لیاجائے توپھرکسی بھی کرپٹ عہدے دارکوپاکستان میں سر چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی۔
نواز شریف 25 دسمبر 1949 کوپاکستان کے صوبہ پنجاب کے صدرمقام لاہور میں کشمیری خاندان میں پیدا ہوئے۔ نواز شریف کی والدہ کا تعلق پلوامہ سے تھا۔جبکہ ان کے والد میاں محمد شریف ایک کشمیری صنعت کار و تاجر تھے جن کا تعلق کشمیر کے ضلع اسلام سے تھا، وہاں سے ہجرت کر کے وہ جاتی عمرہ، امرتسر میں چلے گئے، اور وہاں کاروبار شروع کیا،قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں تحریک پاکستان جاری تھی، جس کے نتیجے میں 1947 میں پاکستان آزاد ہو کیا تو، وہ امرتسر سے لاہور منتقل ہو گئے۔ نواز شریف نے ابتدائی تعلیم سینٹ اینتھنیز ہائی سکول، لاہور سے حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن کرنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے قانون’’وکالت‘‘کی ڈگری حاصل کی۔۔ اتفاق گروپ اور شریف گروپ کے بانی میاں محمد شریف ان کے والد اور تین بار وزیر اعلی پنجاب رہنے والے شہباز شریف ان کے بھائی ہیں۔ نواز شریف 1970 کی دہائی کے آخر میں سیاست میں داخل ہوئے ۔اس وقت نواز شریف کے اثاثوں کی قدروقیمت1.71ارب ایک اعشاریہ اکہتر ارب روپے تک جاتی ہے۔کہاجاتاہے کہ یہ اعدادوشمار انہوں نے گذشتہ انتخابات میں اپنے کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت ظاہر کیے تھے۔
نوازشریف کی سیاسی تربیت پاکستان کے سابق فوجی سربراہ جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے زیر سایہ ہوئی۔ صدرضیاء الحق دور میں وہ لمبے عرصے تک پنجاب حکومت میں شامل رہے۔ وہ کچھ عرصہ پنجاب کی صوبائی کونسل کا حصہ رہنے کے بعد 1981 میں پنجاب کی صوبائی کابینہ میں بطور وزیرِخزانہ شامل ہو گئے۔ وہ صوبے کے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں دیہی ترقی کے حصے کو 70% تک لانے میں کامیاب ہوئے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ کھیلوں کے وزیر بھی رہے اور صوبے میں کھیلوں کی سرگرمیوں کی نئے سرے سے تنظیم کی۔صدرضیاء الحق کے دورمیں 1985 میں ہونے والے غیر جماعتی انتخابات میں میاں نواز شریف قومی اور صوبایی اسمبلیوں کی سیٹوں پہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے۔ 9 اپریل ،1985 کو انھوں نے پنجاب کے وزیرِاعلی کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ 31 مئی 1988 کو جنرل ضیاء الحق نے جونیجو حکومت کو برطرف کردیا تاہم میاں نواز شریف کو نگران وزیراعلی پنجاب کی حیثیت سے برقرار رکھا گیا۔ یہ امر نوازشریف کے جنرل ضیاء الحق سے قریبی مراسم کی نشاندہی کرتا ہے۔یہ مشہورہے کہ ایک بار جنرل ضیا ء الحق نے ایک بار نوازشریف کو اپنی عمر لگ جانے کی بھی دعا دی۔
6 نومبر 1990 کو نواز شریف نے اس وقت بطور منتخِب وزیرِاعظم حلف اٹھایا جب ان کی انتخابی جماعت،اسلامی جمہوری اتحاد نے اکتوبر 1990 کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ تاہم وہ اپنی پانچ سال کی مدت پوری نہ کر سکے اور ان کو اس وقت کے صدر نے ان کو ان کے عہدے سے فارغ کر دیا۔ اگرچہ ملک کی عدالتِ اعظمی نے ایک آئینی مقدمے کے بعد انھیں دوبارہ ان کے عہدے پہ بحال تو کر دیا،لیکن ان کو جولائی 1993 میں صدر کے ساتھ اپنے عہدے سے استعفی دینا پڑا۔ ان کے زمانہ وزارتِ اعظمی میں انہوں نے وسطی ایشیائی مسلم ممالک سے تعلقات مستحکم کیے گئے۔ اقتصادی تعاون تنظیم کو ترقی دی گئی۔اس وقت کے افغان بحران جوافغان مجاہدین کے درمیان دراڑیں ڈال کرپیداکیاگیاتھاکو حل کرانے میں مدد دی گئی اور مختلف افغان دھڑوں نے’’معاہد اسلام آباد‘‘ پہ دستخط کیے۔ ان کے دورِحکومت کی اہم خوبی، پریسلر ترمیم کے تحت نافذ کی گئیں امریکی پابندیوں کے باوجود معاشی ترقی کا حصول تھی۔ اکتوبر 1999 میں نواز شریف نے اس وقت کے فوج کے سربراہ پرویز مشرف کو ہٹا کر نئے فوجی سربراہ کے کی تعیناتی کی کوشش کی۔تاہم یہ کوشش ان کے لیے آفت بن گئی اور ایک فوج بغاوت کے بعد ان کی حکومت کو ختم کر دیا گیا۔فوج کی طرف سے ان کی حکومت ختم ہونے کے بعد ان پر مقدمہ چلا، جو’’طیارہ سازش کیس‘‘کے نام سے مشہور ہوا۔ اس میں اغوا اور قتل کے الزامات شامل تھے۔ لیکن سعودی عرب کی ثالثی کے بعدفوج کے ساتھ ایک خفیہ معاہدے کے بعدنوازشریف پورے خاندان سوائے والدین کے سعودی عرب چلے گئے۔ 2006 میں میثاق جمہوریت پر بے نظیر بھٹو سے مل کر دستخط کیے اور مشرف کی فوجی حکومت کے خاتمے کے عزم کا اعادہ کیا۔ 23 اگست، 2007 کو عدالت عظمی نے شریف خاندان کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے ان کی وطن واپسی پر حکومتی اعتراض رد کرتے ہوئے پورے خاندان کو وطن واپسی کی اجازت دے دی۔ نواز شریف اپنے خاندان کے ہمراہ سعودی عرب کے پرویز مشرف پر دبا ئوکے نتیجے میں 25 نومبر، 2007 کو لاہور پہنچ گئے۔ 2013 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن نے واضح اکثریت حاصل کی۔اس بنا پر وہ تیسری بار وزیر اعظم پاکستان کے عہدے پر فائز ہوئے۔اس طرح کل ملاکرکشمیری نژاد نواز شریف تین مرتبہ1990 تا 1993، 1997 تا 1999 اور آخری بار 2013 تا 2017 وزیر اعظم پاکستان پر رہے۔
کہاجاتاہے کہ مسلم لیگ نواز کی کورکمیٹی میاںشہباز شریف کووزارت عظمی کیلئے نامزگی کافیصلہ لے چکی ہے ۔پاکستان میں تازہ سیاسی اتھل پتھل اورپاناما کیس کے فیصلے کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیتے ہوئے ایک امریکی محکمہ خارجہ کے عہدیدار نے امیدظاہرکی کہ پاکستان کی پارلیمنٹ نئے وزیراعظم کاانتخاب کر کے پرامن منتقلی کاعمل مکمل کریگی۔اس سے قبل چین نے پاناما کیس پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھاکہ نوازشریف کی نااہلی پاکستان کا داخلی معاملہ ہے،اس سے بیلٹ وروڈ منصوبے کے تناظر میں بھی ان کی سماجی ، اقتصادی تعاون پر مبنی شراکت داری متاثر نہیں ہوگی ۔چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان لوکھانگ کا کہنا تھاکہ دوست ہمسایہ ملک کے طور پر چین کو امید ہے کہ پاکستان کے تمام طبقے اور جماعتیں ملکی اور قومی مفادات کو ترجیح دیں گے ، اپنے داخلی امور سے مناسب طور پر نمٹیں گے ، اتحاد اور استحکام برقرار رکھیں گے اور اقتصادی وسماجی ترقی پر توجہ مبذول رکھیں گے ۔ چینی ترجمان کاکہناتھاکہ پاکستان اور چین کے درمیان سدا بہار دوستی آزمائش کی ہر گھڑی پر پوری اتری ہے ، ہمیں یقین ہے کہ پاک چین دفاعی تعاون ، شراکت داری پاکستان کے اندر صورتحال کی تبدیلی سے متاثر نہیں ہوگی ۔خیال رہے کہ نوازشریف کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان کافیصلہ آنے سے قبل پاکستان میں عوامی سطح پراس امرکاشدت کے ساتھ تاثرمل رہاتھااورخاموش ناراضگی پائی جارہی تھی کہ نوازشریف کے بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کے ساتھ قریبی مراسم قائم کیوںہیںجوصریحاََپاکستان کی قومی پالیسیوں کے منافی ہے ؟کشمیریوں پربھارتی مظالم کے حوالے سے وہ خاموش کیوں ہیں؟ وہ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرکشمیریوں پرڈھائے جانے والے مظالم پربات نہیں کرتے کیوں؟انہوں نے کلبھوشن یادوکی مجرمانہ سرگرمیوں پرکبھی بھی کھل کربات کیوں نہیں کی ؟کیوںانہوں نے ڈاکٹرعافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے کوئی کوشش نہیں کی ؟کیوں انہوں نے ممتازقادری کی پھانسی پرچپ سادھ کر یہ پھانسی نہ رکوائی؟ان کی بیرون ملک دولت پربھی پاکستان کے عوام الناس ناخوش ہیںاورایک طویل مدت تک برسراقتداررہنے کے باوصف انہوں نے پاکستان میں اسلامی شریعہ کے نفاذ کے لئے عملی طورپرکام کیوں نہیں کیا؟