سرینگر//متحرک سیول سوسائٹی گروپ کشمیر سینٹر فار سوشل ا ینڈ ڈیولپمنٹ اسٹیڈیز نے کانگریس کے پالیسی ساز گروپ کو11نکات پر مشتمل ایک میمورنڈم پیش کرتے ہوئے افسپا اور دیگر کالے قوانین کی منسوخی اور ریاست کے حتمی حل تک1953سے قبل پوزیشن کی بحالی کی تجویز کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس کی حکومت ہی تھی،جس نے یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں لے جاکر کشمیری عوام کو حق خود ارادیت کا موقعہ فراہم کرنے کی وکالت کی تھی۔کشمیر کو جمہوری بالا دستی کے بجائے سیکورٹی ڈھانچے کیلئے تجربہ گاہ میں تبدیل کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے سیول سوسائٹی گروپ نے کانگریس کویاداشت میں15نکات پر مشتمل میمو رنڈم میں الزامات عائد کرتے ہوئے کہا کہ حراستی ہلاکتیں،تشدد،جنسی پامالیاں،ماروائے عدالت اموات اورانسانی حقوق کی پامالیاں بھی کانگریس سرکار کی ہی دین ہے۔ گروپ کو یاداشت پیش کرتے ہوئے کشمیر سینٹر فار سوشل اینڈ ڈ یولپمنٹ اسٹیڈیزنے کانگریس کو اس بات کی یاد دہانی کرائی کہ سب سے پہلے کانگریس نے ہی اقوام متحدہ کی قومی سلامتی کونسل میں مہاراجہ کے زیر اثر کشمیر میں حق خود ارادیت کی وکالت کی،جبکہ ریاستی عوام سے لالچوک اور پارلیمنٹ کے علاوہ رابطہ چینلوں کا بھی استعمال کیا۔ یاداشت میں کہا گیا ہے کہ کانگریس ہی وہ جماعت ہے جس نے اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں پہنچادیا،جبکہ مہاراجہ ہری سنگھ نے بھی ایک آزاد حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے کانگریس سے ہی معاہدہ کیا،اور بھارت کے ساتھ مشروط الحاق کیا گیا۔ یاداشت میں مزید کہا گیا کہ1948اور1949میں کانگریس کے نظریہ اور اقوام متحدہ کی طرف سے منظور کی گئی قرار دادوں کے پیش نظر ہی آئین ساز اسمبلی(پنڈت نہرو کی صلاح پر) نے دفعہ370کو آئین ہند میں شامل کیا،تاکہ آئینی، اور کشمیر و بھارت کے درمیان حتمی حل تک انتظامی روابط کی وضاحت کی جاسکے۔ سول سوسائٹی نے یاداشت میں کانگریس پر وعدہ خلافی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ایک قانون کے بعد دوسرے قانون میں ترمیم کی گئی ،اور آئین ہند کے قوانین کو ریاستی قوانین میں شامل کیا گیا،جس کی وجہ سے جموں کشمیر کی سالمیت کو ختم کیا گیا۔یاداشت میں کہا گیا کہ355,356اور357جیسے دفعات کو نام گزاری میں تبدیلی کیلئے استعمال کیا گیا اور وزیر اعظم کو وزیر اعلیٰ اور صدر ریاست کو گورنر میں تبدیل کیا گیا،داخلی پرمٹ نظام کی منسوخی1960میں عمل میں لائی گئی،اور یہ سب کچھ انتخابی عمل کیلئے کیا گیا۔متحرک سیول سوسائٹی گروپ کی طرف سے پیش کئے گئے یاداشت میں کہا گیا کہ1947میں جموں میں مسلمانوں کے قتل عام سے بھی نظریں چرائی گئیں،جبکہ کچھ مجرموں کی حوصلہ افزائی تک کی گئی۔یاداشت کے مطابق کانگریس پر الزام عائد کیا گیا کہ انکی حکومت نے آر ایس آیس اور دیگر ہندو شدت پسند گروپوں کی مرضی کے مطابق جموں کشمیر میں جمہوریت کا پہلے قتل کیا،جب مرحوم شیخ محمد عبداللہ کی بر طرفی عمل میں لائی گئی،اور انہیں نام نہاد کیسوں میں13سال تک قید کیا،جیسے کہ موجودہ سرکار حریت لیڈروں کے ساتھ کر رہی ہے۔ ایک اور نقطہ میں کہا گیا ہے کہ کانگریس نے نہ صرف کشمیر کو علاقوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کی بلکہ مختلف اداروں کی طرف سے اس کو تہذیبی جارحیت سے ہندو مت کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کی،جبکہ حالیہ ایام میں ماحولیاتی خطرات کے باوجود امرناتھ یاترا کو سیاسی رنگ میں پیش کیا۔کانگریس پر جموں کشمیر میں کٹ پتلی حکومتیں برسر اقتدار لانے کا بھی الزام عائد کرتے ہوئے ’’کے سی ایس ڈی ایس‘‘ نے اپنی یاداشت میں کہا کہ فوجی جمائو نے کشمیر میں جگہ تنگ کی ہے،اور ماحولیاتی اعتبار سے مقدس جگہ کو پامال کیا گیا۔کشمیر کو جمہوری بالا دستی کے بجائے سیکورٹی ڈھانچے کیلئے تجربہ گاہ میں تبدیل کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے سیول سوسائٹی گروپ نے کہا کہ کانگریس کے سابق وزیر داخلہ نے افسپا کو منسوخ کرنے کی وکالت کی،تاہم فوجی جنرل نے اس کی مخالف کی۔یاداشت میں کہا گیا ہے کہ کانگریس نے2014تک کشمیر میں قتل عام کیا اور اب موجودہ حکومت اسی نقش قدم پر گامزن ہے۔متحرک سیول سوسائٹی گروپ کا کہنا ہے کہ کانگریس نے ہی اصل مسئلہ کو حقیقت سے بعید نام دیا اور سرحد پار دہشت گردی کا نام دیا،جس کی وجہ سے کشمیر دنیا میں فوجی جمائو کے سب سے بڑے علاقے میں تبدیل ہوا،جبکہ مسائل کو حل کرنے کیلئے اقدمات اٹھانے کے بجائے عالمی اصولوں اور جمہوری اقدار کے قطع نظر ایجنسیوں کو خوف وہراس اور تشدد بپا کرنے کیلئے کھلی چھوٹ دی گئی۔یاداشت میں کہا گیا کہ سابق گورنر ایس کے سنہا نے کشمیر میںنفسیاتی جنگ چھیڑدی،جبکہ مصنوعی شیو لنگم گھپا میں نصب کر کے6ماہ تک امرناتھ یاترا منعقد کرنے کی کوششیں کی۔ کانگریس پالیسی ساز گروپ کے نام یاداشت میں اس بات کا بھی الزام عائد کیا گیا کہ کشمیر میں سرکاری بندوق برداروں کی فوج کو قائم کیا گیا،جنہوں نے مقامی لوگوں کو زبردست تشدد کا نشانہ بنایا۔کانگریس پر ریاست کی معیشت کو زک پہنچانے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ این ایچ پی سی کے ذریعے ریاستی وسائل کی لوٹ کی گئی۔سابق وزیر اعظم ہند نرسما رائو کے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کیلئے’’آسمان حد ہے‘‘ کے اعلان کے باوجود ایک انچ بھی پیش رفت نہیں کی گئی،جبکہ کانگریس نے پیش قدمی کرنے کے بجائے پیچھے ہٹنا ہی بہتر سمجھا۔مصالحت کاروں کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا کہ آپ کی حکومت نے ان کی تعیناتی عمل میں لائی اور انکی سفارشات کو کوڑے دان کی نظر کیا گیا،جبکہ اصل میں ان مذاکرات کاروں کو کشمیریوں کی توجہ مبذول کرانے کیلئے ہی تعینات کیا گیا تھا۔کشمیر سینٹر فار سوشیل این د ڈیولپمنٹ اسٹیڈیز نے کانگریس کے پالیسی ساز گروپ کو مشورہ دیا کہ پیش رفت کے طور پر وہ بھارتی عوام کو مسئلہ کشمیر کے اصل حقیقت اور وقت وقت پر بھارتی حکومت کی طرف سے کئے گئے وعدوں سے متعلق آگاہ کرسکتے ہیں۔کانگریس کو مشورہ دیا گیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو پارلیمنٹ میں اٹھائے،تاکہ جموں کشمیر کے لوگوں کا اعتماد ان پر قائم ہو سکے،جبکہ مسئلہ کشمیر کا حل کشمیری عوام کے جذبات اور احساسات کے عین مطابق برآمد ہو۔کانگریس پالیسی ساز گروپ کو مشورہ دیا گیا کہ وہ لوگوں کو بھارتی آئین میں دفعہ370 اور35A کو شامل کرنے کے اصل وجوہات کے بارے میں لوگوں کو جانکاری دے،کیونکہ ریاست کو ایک آزاد ملک کی حیثیت حاصل تھی،جب انہوں نے بھارت کے ساتھ مشروط الحاق کیا،اور کشمیر نے صرف3معاملات تک بھارت کو عمل دخل کرنے کی اجازت دی تھی۔پارلیمنٹ میں مسئلہ کشمیر کے حتمی حل تک1953سے قبل کی پوزیشن کی تجویز لانے کا مطالبہ کرتے ہوئے یاداشت میں کہا گیا کہ افسپا سمیت دیگر کالے قوانین کی منسوخی کیلئے وہ اپنا کردار ادا کریں۔
پالیسی ساز گروپ کے سامنے کانگریس پارٹی کا آپریشن
متحرک سیول سوسائٹی گروپ نے11نکات پر مشتمل میمورنڈم پیش کیا
نیوز ڈیسک
سرینگر//متحرک سیول سوسائٹی گروپ کشمیر سینٹر فار سوشل ا ینڈ ڈیولپمنٹ اسٹیڈیز نے کانگریس کے پالیسی ساز گروپ کو11نکات پر مشتمل ایک میمورنڈم پیش کرتے ہوئے افسپا اور دیگر کالے قوانین کی منسوخی اور ریاست کے حتمی حل تک1953سے قبل پوزیشن کی بحالی کی تجویز کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس کی حکومت ہی تھی،جس نے یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں لے جاکر کشمیری عوام کو حق خود ارادیت کا موقعہ فراہم کرنے کی وکالت کی تھی۔کشمیر کو جمہوری بالا دستی کے بجائے سیکورٹی ڈھانچے کیلئے تجربہ گاہ میں تبدیل کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے سیول سوسائٹی گروپ نے کانگریس کویاداشت میں15نکات پر مشتمل میمو رنڈم میں الزامات عائد کرتے ہوئے کہا کہ حراستی ہلاکتیں،تشدد،جنسی پامالیاں،ماروائے عدالت اموات اورانسانی حقوق کی پامالیاں بھی کانگریس سرکار کی ہی دین ہے۔ گروپ کو یاداشت پیش کرتے ہوئے کشمیر سینٹر فار سوشل اینڈ ڈ یولپمنٹ اسٹیڈیزنے کانگریس کو اس بات کی یاد دہانی کرائی کہ سب سے پہلے کانگریس نے ہی اقوام متحدہ کی قومی سلامتی کونسل میں مہاراجہ کے زیر اثر کشمیر میں حق خود ارادیت کی وکالت کی،جبکہ ریاستی عوام سے لالچوک اور پارلیمنٹ کے علاوہ رابطہ چینلوں کا بھی استعمال کیا۔ یاداشت میں کہا گیا ہے کہ کانگریس ہی وہ جماعت ہے جس نے اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں پہنچادیا،جبکہ مہاراجہ ہری سنگھ نے بھی ایک آزاد حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے کانگریس سے ہی معاہدہ کیا،اور بھارت کے ساتھ مشروط الحاق کیا گیا۔ یاداشت میں مزید کہا گیا کہ1948اور1949میں کانگریس کے نظریہ اور اقوام متحدہ کی طرف سے منظور کی گئی قرار دادوں کے پیش نظر ہی آئین ساز اسمبلی(پنڈت نہرو کی صلاح پر) نے دفعہ370کو آئین ہند میں شامل کیا،تاکہ آئینی، اور کشمیر و بھارت کے درمیان حتمی حل تک انتظامی روابط کی وضاحت کی جاسکے۔ سول سوسائٹی نے یاداشت میں کانگریس پر وعدہ خلافی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ایک قانون کے بعد دوسرے قانون میں ترمیم کی گئی ،اور آئین ہند کے قوانین کو ریاستی قوانین میں شامل کیا گیا،جس کی وجہ سے جموں کشمیر کی سالمیت کو ختم کیا گیا۔یاداشت میں کہا گیا کہ355,356اور357جیسے دفعات کو نام گزاری میں تبدیلی کیلئے استعمال کیا گیا اور وزیر اعظم کو وزیر اعلیٰ اور صدر ریاست کو گورنر میں تبدیل کیا گیا،داخلی پرمٹ نظام کی منسوخی1960میں عمل میں لائی گئی،اور یہ سب کچھ انتخابی عمل کیلئے کیا گیا۔متحرک سیول سوسائٹی گروپ کی طرف سے پیش کئے گئے یاداشت میں کہا گیا کہ1947میں جموں میں مسلمانوں کے قتل عام سے بھی نظریں چرائی گئیں،جبکہ کچھ مجرموں کی حوصلہ افزائی تک کی گئی۔یاداشت کے مطابق کانگریس پر الزام عائد کیا گیا کہ انکی حکومت نے آر ایس آیس اور دیگر ہندو شدت پسند گروپوں کی مرضی کے مطابق جموں کشمیر میں جمہوریت کا پہلے قتل کیا،جب مرحوم شیخ محمد عبداللہ کی بر طرفی عمل میں لائی گئی،اور انہیں نام نہاد کیسوں میں13سال تک قید کیا،جیسے کہ موجودہ سرکار حریت لیڈروں کے ساتھ کر رہی ہے۔ ایک اور نقطہ میں کہا گیا ہے کہ کانگریس نے نہ صرف کشمیر کو علاقوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کی بلکہ مختلف اداروں کی طرف سے اس کو تہذیبی جارحیت سے ہندو مت کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کی،جبکہ حالیہ ایام میں ماحولیاتی خطرات کے باوجود امرناتھ یاترا کو سیاسی رنگ میں پیش کیا۔کانگریس پر جموں کشمیر میں کٹ پتلی حکومتیں برسر اقتدار لانے کا بھی الزام عائد کرتے ہوئے ’’کے سی ایس ڈی ایس‘‘ نے اپنی یاداشت میں کہا کہ فوجی جمائو نے کشمیر میں جگہ تنگ کی ہے،اور ماحولیاتی اعتبار سے مقدس جگہ کو پامال کیا گیا۔کشمیر کو جمہوری بالا دستی کے بجائے سیکورٹی ڈھانچے کیلئے تجربہ گاہ میں تبدیل کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے سیول سوسائٹی گروپ نے کہا کہ کانگریس کے سابق وزیر داخلہ نے افسپا کو منسوخ کرنے کی وکالت کی،تاہم فوجی جنرل نے اس کی مخالف کی۔یاداشت میں کہا گیا ہے کہ کانگریس نے2014تک کشمیر میں قتل عام کیا اور اب موجودہ حکومت اسی نقش قدم پر گامزن ہے۔متحرک سیول سوسائٹی گروپ کا کہنا ہے کہ کانگریس نے ہی اصل مسئلہ کو حقیقت سے بعید نام دیا اور سرحد پار دہشت گردی کا نام دیا،جس کی وجہ سے کشمیر دنیا میں فوجی جمائو کے سب سے بڑے علاقے میں تبدیل ہوا،جبکہ مسائل کو حل کرنے کیلئے اقدمات اٹھانے کے بجائے عالمی اصولوں اور جمہوری اقدار کے قطع نظر ایجنسیوں کو خوف وہراس اور تشدد بپا کرنے کیلئے کھلی چھوٹ دی گئی۔یاداشت میں کہا گیا کہ سابق گورنر ایس کے سنہا نے کشمیر میںنفسیاتی جنگ چھیڑدی،جبکہ مصنوعی شیو لنگم گھپا میں نصب کر کے6ماہ تک امرناتھ یاترا منعقد کرنے کی کوششیں کی۔ کانگریس پالیسی ساز گروپ کے نام یاداشت میں اس بات کا بھی الزام عائد کیا گیا کہ کشمیر میں سرکاری بندوق برداروں کی فوج کو قائم کیا گیا،جنہوں نے مقامی لوگوں کو زبردست تشدد کا نشانہ بنایا۔کانگریس پر ریاست کی معیشت کو زک پہنچانے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ این ایچ پی سی کے ذریعے ریاستی وسائل کی لوٹ کی گئی۔سابق وزیر اعظم ہند نرسما رائو کے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کیلئے’’آسمان حد ہے‘‘ کے اعلان کے باوجود ایک انچ بھی پیش رفت نہیں کی گئی،جبکہ کانگریس نے پیش قدمی کرنے کے بجائے پیچھے ہٹنا ہی بہتر سمجھا۔مصالحت کاروں کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا کہ آپ کی حکومت نے ان کی تعیناتی عمل میں لائی اور انکی سفارشات کو کوڑے دان کی نظر کیا گیا،جبکہ اصل میں ان مذاکرات کاروں کو کشمیریوں کی توجہ مبذول کرانے کیلئے ہی تعینات کیا گیا تھا۔کشمیر سینٹر فار سوشیل این د ڈیولپمنٹ اسٹیڈیز نے کانگریس کے پالیسی ساز گروپ کو مشورہ دیا کہ پیش رفت کے طور پر وہ بھارتی عوام کو مسئلہ کشمیر کے اصل حقیقت اور وقت وقت پر بھارتی حکومت کی طرف سے کئے گئے وعدوں سے متعلق آگاہ کرسکتے ہیں۔کانگریس کو مشورہ دیا گیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو پارلیمنٹ میں اٹھائے،تاکہ جموں کشمیر کے لوگوں کا اعتماد ان پر قائم ہو سکے،جبکہ مسئلہ کشمیر کا حل کشمیری عوام کے جذبات اور احساسات کے عین مطابق برآمد ہو۔کانگریس پالیسی ساز گروپ کو مشورہ دیا گیا کہ وہ لوگوں کو بھارتی آئین میں دفعہ370 اور35A کو شامل کرنے کے اصل وجوہات کے بارے میں لوگوں کو جانکاری دے،کیونکہ ریاست کو ایک آزاد ملک کی حیثیت حاصل تھی،جب انہوں نے بھارت کے ساتھ مشروط الحاق کیا،اور کشمیر نے صرف3معاملات تک بھارت کو عمل دخل کرنے کی اجازت دی تھی۔پارلیمنٹ میں مسئلہ کشمیر کے حتمی حل تک1953سے قبل کی پوزیشن کی تجویز لانے کا مطالبہ کرتے ہوئے یاداشت میں کہا گیا کہ افسپا سمیت دیگر کالے قوانین کی منسوخی کیلئے وہ اپنا کردار ادا کریں۔