جموں اور سرینگر میں دوپرانے پاسپورٹ دفاتر کے بعد حکومت نے اب ریاست میں چار مزید پاسپورٹ دفتر کھولنے کا عمل شروع کیاہے جس کے ساتھ ریاست میں پاسپورٹ دفاتر کی کل تعداد چھ ہوجائے گی ۔ تین نئے پاسپورٹ دفاتر اننت ناگ ، بارہمولہ اور کٹھوعہ میں کھولے جارہے ہیں جبکہ اس سے پہلے ہی اودھمپور میں بھی پاسپورٹ دفتر کام کررہاہے ۔حکام کے مطابق یہ پاسپورٹ دفاتر دور دراز علاقہ جات کے عوام کی مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے انہیں مقامی سطح پر ہی پاسپورٹ بنوانے کی خاطر قائم کئے گئے ہیں ۔بے شک ان دفاتر کے قیام سے سرینگر اور جموں میں بھیڑ کم ہوجائے گی اورپاسپورٹ کی حصولی کا عمل آسان ہوجائے گا لیکن جہاں تک دوردراز علاقوں کے لوگوں کو اس کی سہولت بہم پہنچانے کے دعویٰ کا سوال ہے تو جب تک خطہ پیر پنچال اور خطہ چناب میں بھی ایسے ہی مراکز قائم نہیں کئے جاتے تب تک ان دعوئوں کی حقیقت تسلیم نہیں کی جاسکتی ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جموںسے کٹھوعہ اور اودھمپور تک کا سفر ایک سے ڈیڑھ گھنٹے تک کا ہے جبکہ جموںسے پونچھ ، کشتواڑ ، ڈوڈہ اور رام بن تک کا سفر پورے دن کا ہے ۔ اس طرح سے اگر کسی شخص کو خطہ پیر پنچال یا خطہ چناب سے پاسپورٹ کیلئے جموں آناہوتو اس کو اپائنمنٹ تاریخ سے ایک روز قبل ہی جموں پہنچناپڑتاہے اوراُسے رات کو ہوٹل میں کرایہ کاکمرہ لیکر قیام کے بعد دوسرے دن پاسپورٹ دفتر پہنچ کر دستاویزات جمع کروانے پڑتے ہیں اور پھر رات کو جموں ٹھہر کر تیسرے روز گھر واپسی کرناپڑتی ہے ۔ یوں جموں میں قیام اور آنے جانے کا یہ تین روزہ سفر نہ صرف تکلیف دہ ہے بلکہ اس کیلئے ہزاروں روپے بھی خرچ ہوتے ہیں ۔ اس پر مشکل یہ کہ بزرگ ، بچوں اور خواتین کے ساتھ گھر سے کسی دوسرے شخص کو بھی آناپڑتاہے اور کئی لوگوں کے پاس کرایہ کیلئے بھی پیسے نہیں ہوتے ۔یہ شکایات بھی سنی جاتی ہیں کہ بیشتر افراد کودستاویزات یا حلف نامہ میں معمولی سیخامی یہاں تک کہ راشن کارڈ یا نکاح نامہ انگریزی زبان میںنہ ہونے کی بناپرواپس بھیج دیاجاتاہے اور اسے پھر سے دوبارہ جموں کا رخ کرنے پر مجبور کیاجاتاہے ۔ ریاست میں نئے پاسپورٹ دفاتر کا قیام خوش آئند اقدام ہے لیکن نہ جانے خطہ پیر پنچال اور خطہ چناب کو کیوں کر نظرانداز کیاگیا جبکہ یہ دو خطے بھی ان دفاتر کے قیام کےلئے بھر پور حق رکھتے ہیں ۔ چونکہ یہ دونوں خطے پہاڑی ہیںاور دوردراز علاقوں پرمشتمل ہیں اوریہاں کے لوگوں کو گھر سے تحصیل یا ضلع صدر مقامات تک پہنچنے کیلئے کئی کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں ۔ لہٰذا ہونا تو یہ چاہئے تھاکہ حکومت ان خطوں کے عوام کو درپیش مسائل اور انہیں پاسپورٹ دفتر جموں آنے جانے کے دوران پیش آنے والی تکالیف کو محسوس کرتے ہوئےیہاں بھی پاسپورٹ دفاتر قائم کرنے کے اقدامات کرتی لیکن نہ جانے ان دفاتر کے قیام کیلئے کونسا پیمانہ مقرر کیاگیاجو ریاست کے سب سے دور دراز علاقے نظرانداز ہوکر رہ گئے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جموں شہر ریاست کا سرمائی دارالحکومت ہے اور وہاں سہولیات کی دستیابی لازمی امر ہے لیکن ایسےپسماندہ علاقوں،جہاں ایسی سہولیات کی زیادہ ضرورت ہے، کونظر انداز کرنا مجموعی ترقی کے تصور کی نفی کرتا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ خطہ پیر پنچال اور خطہ چناب میں مرکزی مقامات پر پاسپورٹ دفاتر قائم کئے جائیں اور ریاستی سرکار اس سلسلے میں مرکز سے فوری طور پر رجوع کرے نہیں تو خالی دعوئوںسے نہ ہی لوگوں کی مشکلات میں کمی آئے گی اور نہ ہی زمینی حقائق تبدیل ہوسکیںگے ۔