علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین ہال میں محمد علی جناح کی تصویر کا تنازعہ کیوں پیدا ہوا؟ سبھی جانتے ہیں۔ کسی کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کو بانی ٔ پاکستان سے کوئی لینا دینا نہیں۔ علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ نے بی جے پی ایم پی کی شرپسندی کی ہندو یووا وانی کے مسلح کارکنوں کی کیمپس میں داخلے کا مقابلہ محض اس لئے کیا کہ بی جے پی اور سنگھ پریوار کا حال ان دنوں اُس ضدی بچے جیسا ہے جو ہر چیز کے لئے ضد کرنے لگتا ہے۔ جس طرح بچوں کی بھلائی کے لئے ہر ضد پوری نہیں کی جاتی، اسی طرح علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بالغ نظر طلبہ بالخصوص اسٹوڈنٹس یونین نے بھی سنگھ پریوار کے مطالبے کو تسلیم کرنے سے انکار کیا حالانکہ مختلف پلیٹ فارمس سے اپنے آپ کو سیکولر، وفادار، ثابت کرنے کی کوشش میں شیر دل سورمائوں نے بھی سنگھ پریوار کے آگے گھٹنے ٹیک دینے کا مشورہ دیا۔ جناح صاحب کی علی گڑھ یونیورسٹی کے ایک مخصوص ہال میں تصویر کا آویزان ہونے کے جوازکی وضاحت کی جاچکی ہے۔ اسے اسٹوڈنٹس یونین ہال سے ہٹادیا جانا چاہئے یا نہیں یہ کوئی مدعا ہی نہیں ہے مگر سنگھ پریوار ایسے ہی نان اشو اُٹھاکر جیتی رہی ہے۔ ہندوستان ایک عظیم جمہوری ملک ہے جس کے سیکولر کردار اور روایات کی مثالیں دی جاتی رہی ہیں۔ جناح نے ہندوستان کو برطانوی سامراج سے آزاد کروانے کیلئے ایک مجاہد آزادی کے طور پر بھی ہم رول ادا کیا۔ رہی بات قیام پاکستان اور ہندوستان کی تقسیم کی تو اس حقیقت سے نظریں نہیں چرانا چاہئے کہ جناح ملک کی تقسیم کے لئے تنہا ذمہ دار نہیں تھے۔ اگر وہ ذمہ دار تھے تب بھی وہ متحدہ یا غیر منقسم ہندوستان کی عظیم شخصیات میں سے ایک رہے ہیں۔ جب ہندوستان میں اُن برطانوی سامراجیوں کے نام سے سڑکیں، گلی کوچے اُن کی تصاویر کو بطور یاد گار رکھا گیا جنہوں نے ہمیں صدیوں غلام بنائے رکھا ،جو وطن عزیز کے مصائب کے اصل ذمہ دار ہیں، جنہوں نے ہندو اور مسلمانوں کے درمیان نفرت و دشمنی کی دیوار کھڑا کی، تو ان کے مقابلے میں محمد علی جناح نے گاندھی جی کے شانہ بہ شان ملک کی آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ان کی تصویر کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں موجودگی پر 80؍برس بعد اعتراض اور احتجاج شرپسندی نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ گاندھی جی اور جناح کی بعض معاملات میں اختلافات کے باوجود باہمی احترام ان کی قربت تاریخ کا حصہ ہے اور اس حیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پڑوسی ملک پاکستان میں گاندھی جی اور بھگت سنگھ وغیرہم کو عزت اور احترام کی نگاہ سے آج بھی دیکھا جاتا ہے۔ پیشرو نسل گاندھی کو اگرچہ کہ قیام پاکستان کا مخالف مانتی ہے‘ تاہم انہیں ایک مسلم دوست تسلیم کرتے ہیں۔ پاکستان کی پیشرو نسل نے نئی نسل کو گاندھی جی سے متعلق ورغلایا نہیں بلکہ ان کی بہت ہی اچھی امیج پیش کی ہے۔ اگر سوشیل میڈیا پر پاکستان میں گاندھی کے موضوع پر مواد تلاش کیا جائے تو سینکڑوں مضامین اور اَن گنت مثبت تاثرات مل جائیںگے جن سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ پاکستان میں گاندھی جی اب بھی ایک ہیرو ہیں جنہوں نے قیام پاکستان کے بعد نازک ترین وقت میں 55؍کروڑ روپے پاکستان کو دینے کے لئے نہرو اور پٹیل پر دبائو ڈالا تھا کیوں کہ اس وقت اسٹیٹ بینک آف انڈیا نے یہ رقم پاکستان کو دینے سے انکار کردیا تھا ۔اگر یہ رقم اس وقت پاکستان کو نہ ملتی تو نئی مملکت کی شیرازہ بکھر جاتا۔ پاکستان کی نئی نسل کا یہ ایقان ہے کہ پنڈت نہرو اور سردار پٹیل کی جانب سے پاکستان کو مالی تعاون کرنے میں پس و پیش کرنے سے گاندھی جی اس قدر دلبرداشتہ ہوئے کہ انہوں نے مرن برت رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ گاندھی جی فروری 1948ء میں پاکستان کا دورہ کرنے والے تھے مگر 30؍جنوری 1948ء کو انہیں گولی مارکر جان بحق کردیا گیا۔ پاکستانیوں کا یہ احساس اپنی جگہ تحقیق طلب ہے کہ گاندھی جی کو قتل کرنے کی ایک وجہ ان کا مجوزہ دورہ پاکستان اور مسلمانوں سے ان کی ہمدردی تھی۔ یوں تو پاکستان سے موصول ہنے والی اطلاعات کے مطابق وہاں کی درسی کتب میں گاندھی جی سے متعلق کوئی قابل ذکر مواد نہیں ملتا ،البتہ یہ ضروربتایا جاتا ہے کہ انگریزوں سے ہندوستان کی آزادی کے وہ عظیم رہنما تھے جو قیام پاکستان کے مخالف بھی تھے۔اس مخالفت کے باوجود پاکستان کے عوام کی اکثریت گاندھی جی کو پریم اور آدر سے دیکھتی ہے اور آنجہانی قائد کی مقبولیت کا ثبوت یہ بھی ہے کہ سنجے دت کی فلم ’’لگے رہو منا بھائی‘‘ پاکستان میں زبردست ہٹ ہوئی۔ یہ فلم گاندھی گری کے نظریہ پر مبنی ہے۔ سوشیل میڈیا پر نورجہاں خاں نے اپنے بلاگ میں لکھا کہ ’’اگر گاندھی جی آج کے دور میں ہوتے اور وہ نواز شریف کے خلاف ا نتخابات میں حصہ لیتے تو وہ گاندھی جی کو ووٹ دیتے کیوں کہ وہ کرپٹ نہیں تھے‘‘۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کی نئی نسل میں گاندھی جی کا ایک صاف ستھری شبیہ پائی جاتی ہے۔ اسی طرح بھگت سنگھ بھی پاکستان کے ہیرو ہیںاور لاہور میں شادمان چوک ان کے نام سے موسوم ہے۔
اسلام آباد میں شکرپریاں پہاڑی علاقہ میں پاکستان میموریل میوزیم ہے جہاں گاندھی جی اور جناح کی ایک تاریخ ساز ملاقات کو مجسمہ کی شکل میں ڈھالا گیا ہے۔ اس سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں بہرحال ہندوستان کے عظیم رہنما کو عزت و احترام اور قدر منزلت کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ہندوستان میں جناح کی تصویر کے خلاف سنگھ پریوار کی مخالفت الیکٹرانک میڈیا پر اہانت آمیز الفاظ کا استعمال کا منفی اثر ہوسکتا ہے۔ اندیشہ یہ ہے کہ پاکستان کی نئی نسل اور وہاں کے بعض مفاد پرست سیاست دان بھی گاندھی جی کی تصاویر اور پاکستان میموریل میوزیم میں گاندھی جی کے وجود کی مخالفت شروع نہ کردیںاور دونوں ممالک کے قائدین کی مخالفت سے باہمی تعلقات مزید کشیدہ نہ ہوجائیں۔
پاکستان ہمارا ایک پڑوسی ملک ہے۔ ہمارے پیش رو رہنمائوںنے بشمول اٹل بہاری واجپائی بار بار یہ کہا ہے کہ دوست بدلے جاسکتے ہیں پڑوسی نہیں بدلے جاسکتے۔ ہندپاک تعلقات کو بہتر بنانے کی پہلے دونوں جانب سے کوشش کی جاتی تھی‘ حتیٰ کہ ایک موقع پر مودی، نواز شریف کی دوستی بھی ایک مثال بن گئی تھی‘ یہ سچ ہے کہ پاکستان میں بعض مخصوص قسم کے سایسی قائدین اپنے مفادات کی خاطر ہندوستان اور پاکستان کو دست و گریبان دیکھنا چاہتے ہیں۔ تاہم ان عناصر کی منشاء کے مطابق دو ہمسایہ ممالک کے درمیان حالات کشیدہ نہیں ہونے چاہئیںمگر کیا کریں‘ کشیدہ تعلقات ہی تو دونوں ممالک کی سیاسی جماعتوں کی ضرورت بنے ہیں۔ جب بھی ہندوستان کی کوئی جماعت خطرہ میں ہوتی ہے تب پاکستان سے خطرہ کا نام لگا دیا جاتا ہے اور پاکستان کو اپنے اندرونی حالات سے نمٹنا ہو، خانہ جنگی پر قابو پانا ہو تو وہ ہندوستان سے لاحق خطرات کا رونا رونے لگتے ہیں۔ دو ممالک محض سرحدوں کی حفاظت، دہشت گردی اورخاتمہ کے نام پر اپنے وسائل اور دولت کا بڑا حصہ برباد کررہے ہیں۔ یہی دولت اور وسائل دونوں ممالک کی غربت، بیروزگاری کے خاتمے اور مختلف شعبہ حیات میں آگے بڑھنے کے لئے استعمال کئے جاسکتے ہیں۔ اُدھر اگرپاکستان کا رویہ ناٹھیک ہے ،اِدھر سنگھ پریوار ار اس کے زیر سایہ چلنے والی حکومت بھی ایسا ہی رویہ اختیار کئے ہوئی ہے گویا اسے پڑوسی ملک سے کبھی تعلقات کو بہتر بنانے کی سوجھتی ہی نہیں۔ چین تو پاکستان سے بڑا دشمن ہے ،جس نے ہندی چینی بھائی بھائی کا نعرہ لگاکر ہمیں دھوکہ دیا اور اس کا زخم تازہ ہے۔ اس نے کئی کیلو میٹر تک ہندوستانی علاقوں میں داخل ہوکر قبضہ بھی کرلیا ہے۔ اس نے کنزیومر مارکٹ میں بھی اپنے آپ کو اس قدر مضبوط کرلیا ہے کہ چینی پروڈکٹس کے مقابلے میں انڈین پروڈکٹس کو خود ہندوستانی نظر انداز کرنے لگے ہیں، اس کے باوجودچین کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا جاتا ہے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ آنے والے برسوں میں اس سے ہندوستان کو نقصان ہی ہوگا۔
ہندوستان بڑا ملک ہے‘ پاکستان اس کے مقابلے میں رقبے، آبادی اور وسائل کے لحاظ سے بہت چھوٹا ہے۔ ہندوستان خطے میں ایک بڑے بھائی کا رول ادا کرسکتا ہے۔حالیہ عرصہ کے دوران مختلف بہانوں سے مختلف الزامات کے تحت تقریباً ہر ایک شعبہ حیات میں پاکستان کا بائیکاٹ کیا جاچکا ہے۔ اس سے پاکستان کی طاقت میں اضافہ ہوا کیوں کہ جب کسی کو اپنی ناقدری، محرومی، اور نظرانداز کئے جانے کا احساس لاحق ہوتا ہے تو وہ اپنی کمزوریوں کو دور کرکے اپنے آپ کو اور مضبوط بنالیتا ہے۔ بہرحال جن گھمبیر حالات سے ہندوپاک گذر رہے ہیں وہ نئے نہیں ہیں۔ 1947ء سے ہی بار بار وہ نامساعد حالات اور شکر رنجیوں کا شکار ہوتے رہے اور نفرتوں کی بھٹیوں سے گذرتے رہے۔ یہ دونوں ممالک کی مشترکہ بدنصیبی ہے کہ انہیں اچھے سیاست دان اوراچھے حکمران نہیں ملے۔جہاں تک سنگھ پریوار کا تعلق ہے کہ اس وقت زعفرانی تنظیمیں شدت پسندی میں اپنی انتہا پر پہنچ چکی ہیں اور یہ قدرت کا نظام ہے کہ جب کوئی انتہاء پر پہنچ جاتا ہے تو وہیں سے دوبارہ پستی کی سمت اس کے سفر کا آغاز ہوجاتا ہے۔ سنگھ پریوار نے جبر و ستم کی انتہا کردی ہے اور یہیں سے ان کے زوال کا آغاز ہورہا ہے۔ بانی ٔ پاکستان کی بے ضرر تصویر پر شور ہنگامہ کر نے کی بجائے سنگھ پریوار اور بھاجپا حکومت کو چاہیے کہ عام آدمی کو درپیش بڑھتی مہنگائی ، بے روز گاری ، بھوک ، بیماری ، ناخواندگی ، خواتین کی بے حرمتی اور بچوں کے ا ستحصال کو روکنے کے لئے آگے آئیں تاکہ اس ملک کا بیڑہ پار لگے اور ہماری بگڑی ہوئی تقدیر کی تصویر بدل جائے۔
رابطہ :ایڈیٹر گواہ اردو ویکلی‘ حیدرآباد۔
فون9395381226