نئی دلی// فوج نے وزارت دفاع سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کو محدود فوجی کارروائی کے بارے میں جانکاری دی تاہم کمیٹی کے اراکین کو سوال پوچھنے کی اجازت نہین دی گئی جس پر کانگریس اراکین نے احتجاج کیا۔فوج کے ڈپٹی چیف لیفٹنٹ جنرل وپن راوت نے جموں و کشمیر کے اوڑي سیکٹر میں گزشتہ 18 ستمبر کو فوج کے کیمپ پر دہشت گردانہ حملے کے جواب میں کی گئی اس کارروائی کے مقاصد کے بارے میں کمیٹی کے ارکان کو تفصیل سے بتایا۔کانگریس کے کچھ ارکان نے میٹنگ کا ایجنڈا بدلے جانے کی مخالفت کی۔ ایک رکن نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ ’’کمیٹی کو صرف وہی معلومات دی گئی ہیں جو اب تک میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچی ہیں ، اس کے علاوہ کچھ نہیں بتایا گیا‘‘۔ انہوں نے بتایا کہ تقریبا 25 منٹ تک جاری رہی بریفنگ کو ممبران نے بڑے دھیان سے سنا لیکن انہیں کوئی سوال پوچھنے کی اجازت نہیں تھی ۔فوج کی بریفنگ کی میٹنگ شروع ہونے پر کانگریس رکن امبیکا سونی اور مدھوسدن مستری نے آخری وقت میں پارلیمانی کمیٹی کی میٹنگ کا ایجنڈا بدلے جانے کا مسئلہ اٹھایا۔ مستری نے کہا کہ انہوں نے اس معاملے پر اپنا احتجاج درج کرانے کے لئے ایک خط بھی لکھا تھا۔ کمیٹی کے صدر بی سی کھنڈوری نے خط لکھے جانے کی بات تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ایجنڈا بدلے جانے کے معاملے میں ان کے دفتر کی سطح پر کچھ لا پرواہی ہو سکتی ہے ۔ساتھ ہی انہوں نے اس پر چٹکی لیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ جو خط انہوں نے لکھا تھا وہ کمیٹی کے پاس آنے سے پہلے میڈیا کے پاس پہنچ گیا۔ کھنڈوری کی طرف سے یہ واضح کئے جانے کے بعد فوج کے نائب سربراہ نے اپنی بریفنگ شروع کی جو تقریبا 20 سے 25 منٹ تک جاری رہی۔ ذرائع نے کہا کہ بریفنگ زبانی طور پر کی گئی اور اس دوران کوئی کمپیوٹر یا ویڈیو ریکارڈنگ نہیں پیش کی گئی۔ اس کے بعد اراکین نے فوجی افسر سے کوئی سوال نہیں پوچھاکیونکہ انہیں پہلے ہی بتایا گیا تھا کہ سوال کا جواب نہیں دیا جاسکتا۔لیفٹنٹ جنرل نے میٹنگ کے بعد ایک بیان میں کہا کہ کوئی حساس تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔کھنڈوری نے کہا کہ میٹنگ میں صرف جانکاری دینے کا ایجنڈا تھا، کوئی سوال جواب کی اجازت نہیں تھی کیونکہ یہ فوج کا انتہائی خفیہ راز ہے۔کانگریس نے ایک بیان میں کہا کہ کمیٹی کو سرجیکل آپریشن کے بارے میں مکمل جانکاری نہ دینے کے فیصلے سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اراکین پارلیمان پر اعتماد نہیں ہے۔کانگریس نے کہا ہے کہ حکومت اس آپریشن کے ثبوت فراہم کرے تاکہ پاکستان کے انکار کو بے نقاب کیا جائے۔