پارلیمانی انتخابات کی تاریخوں کااعلان ہوچکا ہے۔پانچ سو ملین ڈالر کے خرچے سے مکمل ہونے والے اس جمہوری عمل کیلئے تمام سیاسی قوتیں جیت کا خواب اور اقتدار کی حسرت لیکر میدان میںاتر چکی ہیں ۔مئی کے آخری ہفتے میں انتخابی عمل ختم ہوچکا ہوگا اور نتائج آنا شروع ہوچکے ہوں گے اور اس بار جونتائج آئیں گے وہ ہندوستان کی تاریخ اور تقدیر کا وہ فیصلہ ہوگا جو نہ صرف اس ملک بلکہ جنوبی ایشیاء کے باشندوں کا مستقبل بھی طے کرے گا ۔ یہ انتخاب اس ہمہ گیر تبدیلی کے نتائج سامنے لائے گا جو گزشتہ انتخاب نے حیرت انگیز طور پر پیداکی تھی جب ہندوستان پر دہائیوں تک حکمرانی کرنے والی کانگریس کے ساتھ ساتھ تمام روایتی سیاسی قوتیں اُس بھارتیہ جنتاپارٹی کے سامنے خس و خاشاک کی طرح بکھر گئی تھیں جس کی قیادت ہندوستان کے سیاسی اُفق پر ابھر نے والی نئی شخصیت نریندر مودی کے ہاتھوں میں تھی ۔سارے فیصلے اسی کے تھے ۔ ساری طاقت اسی کے ہاتھوں میں تھی ۔ سارے منصوبوں کے پیچھے اسی کی سوچ تھی اوراس نے کامیابی کے وہ جھنڈے گاڑھ دئیے جس کا تصور بھی اس سے پہلے کوئی نہیں کرسکتا تھا۔بھاجپا کو پہلی بارپارلیمنٹ میں حتمی اکثریت حاصل ہوئی اور اب اس کا امتحان تھا کہ وہ کس طرح سے ملک کا نظام چلاتی ہے اورکونسی تبدیلی لاتی ہے ۔یہ طاقتور منڈیٹ ایک سیاسی جماعت کاہی منڈیٹ نہیں تھا بلکہ ایک نئی سوچ اور اس نظرئیے کا منڈیٹ تھا جسے ہندوستان نے تقسیم ملک کے بعد رد کردیا تھا ۔دو قومی نظرئیے کی بنیاد پر بننے والے ایک نئے ملک پاکستان کے برعکس ہندوستان نے سیکولر نظرئیے کو اپنے آئین کی بنیاد قرار دیا ۔ آئین میں ملک کے ہر باشندے کو برابر کے حقوق دئیے گئے۔ ملک کی آزادی کی جنگ لڑنے والی آل انڈیا کانگریس نے ملک میں ہر مذہب ، ہر نسل اور ہر گروہ کو مساوی حقوق دینے کا فیصلہ کیا۔اس نظرئیے کے خلاف ایک ہی نظریہ تھا جو آر ایس ایس اور اسی قبیل کی دیگر چھوٹی جماعتوں نے اپنا یا تھا اور وہ نظریہ یہ تھا کہ یہ ملک ہندو اکثریت کا ملک ہے ،اس لئے اس پر پہلا حق اور بالادستی اکثریتی فرقے کو ہی حاصل ہونی چاہئے۔ اس نظرئیے کو ہندوستان کی اکثریت نے قبول نہیں کیا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ گاندھی اور کانگریس کے دوسرے لیڈروں کی کرشماتی لیڈر شپ تھی جو ترقی پسند نظرئیے کے قائل تھے ۔ آر ایس ایس ، وشو ہندو پریشد اور دیگر ایسی ہی جماعتوں کا سیاسی بازو جن سنگھ نامی تنظیم تھی لیکن وہ ایک محدود طبقے سے آگے نہیں بڑھ سکی ۔شریمتی اندرا گاندھی نے جب ملک میں ایمرجنسی قائم کی تواس کے خلاف ملک گیر تحریک میں دیگر جماعتوں کے ساتھ ساتھ جن سنگھ بھی پیش پیش تھی ۔ اس دور میں اس جماعت کو وسعت اختیار کرنے کے مواقع حاصل ہوئے اور اس میں اٹل بہاری واجپائی ،ایل کے ایڈوانی اور کئی ایسے ہی دیگر لیڈرو ں کو قوت حاصل ہوئی جنہوں نے جن سنگھ کو قابل قبول بنانے کیلئے اسے بھارتیہ جنتا پارٹی میں تبدیل کردیا ۔اٹل بہاری واجپائی کی سیاسی سوچ بہت مختلف تھی ۔
وہ کانگریس میں بڑھتے ہوئے کرپشن اور خاندانی راج کی علت کیخلاف متبادل کے طور پر ایک طاقتور جماعت قائم کرنے کی خواہش رکھتے تھے اوران کے پاس بی جے پی کے علاوہ کوئی متبادل نہیں تھا ۔ انہوں نے بی جے پی پر آر ایس ایس کے نظرئیے کو حاوی نہیں ہونے دیا ۔ان کی قیادت میں بی جے پی کواتنی قوت حاصل ہوئی کہ وہ کانگریس کی جگہ اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی حالانکہ اسے دوسری جماعتوں کا سہارا بھی لینا پڑا ۔ یہ اٹل بہاری واجپائی ہی تھے جنہوں نے نریندر مودی کو آر ایس ایس کی شاکھا سے نکال کر بی جے پی کی سیاست میں لایا ۔ 2014ء کے آتے آتے نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے بی جے پی کی ایک نئی شناخت کے طور پر سامنے آچکے تھے ۔دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے اتنی قوت اور طاقت حاصل کی کہ اٹل بہاری واجپائی ، ایل کے ایڈوانی ، جسونت سنگھ اور دیگر قد آور لیڈروں کی کی جگہ قیادت ان کے ہاتھوں میں آگئی ۔گجرات کے فرقہ وارانہ فسادات کے داغ کو انہوں نے اپنی کامیابیوں کی سیڑھی بنایا ۔ اس طرح اٹل بہاری واجپائی کی بی جے پی کی جگہ ایک نئی بی جے پی کا جنم ہوا جس پر اسی نظرئیے کی بالادستی تھی جسے واجپائی ڈاکٹرین نے پیچھے دھکیل دیا تھا ۔لیکن انہیں بھی ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘‘ کا نعرہ دیکر سیکولر امیج کا مکھوٹا پہن لینا پڑا ۔ لوگ کانگریس سے متنفر ہوچکے تھے اور وہ تبدیلی چاہتے تھے حالانکہ یہ تبدیلی گاندھی کی جگہ گوڈسے کو قبول کرنے کی تبدیلی نہیں تھی لیکن جو شخصیت تبدیلی کی علامت کے طور پر ابھری ،اس کی سوچ گاندھی کی سوچ نہیں تھی ۔وقت کاجبر کبھی کبھی متضاد چیزوں کو خلط ملط کردیتا ہے اور یہی ہوا ۔نریندر مودی کو سب سے مضبوط منڈیٹ حاصل ہوا ۔وزیراعظم کے عہدے پر براجماں ہونے کے بعد انہوں نے ساری سرکاری مشینری اور اپنی توجہ مودی کوبرتر ، بالا تر اور عظیم تر بنانے بنانے پر مرکوز کی ۔ انہوں نے چار سال بیرونی دوروں پر صرف کئے ۔ دنیا کے عظیم لیڈروں کے ساتھ ذاتی تعلقات استوار کرنے کے لئے انہوں نے وہ سب کچھ کیا جو انہیں ضروری لگا ۔ ابتداء میں انہیں کئی کامیابیاں حاصل ہوئیں لیکن رفتہ رفتہ ان کی سمجھ میں یہ بات آگئی کہ دنیا کا کوئی لیڈر کسی کا دوست نہیں ہوتا ،سب اپنے مفاد کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں ۔اس درمیان ان سارے وعدوں ،جو انہوں نے الیکشن سے پہلے عوام سے کئے تھے ،پر توجہ دینے کی مہلت انہیں حاصل نہیں ہوئی ۔یہ احساس انہیں تب ہوا جب پانچ ریاستوں کے انتخابات میں بی جے پی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ ان کا ووٹ بینک کسان اور بنیا تھے اور دونوں ان سے نالاں ہیں ۔کسان کے قرضے معاف نہیں ہوئے اور بنیا کو جی ایس ٹی اور نوٹ بندی کی مار جھیلنی پڑی ۔نوٹ بندی کا اعلان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ اقدام شدت پسندوں اور ملک دشمنوں کی کمر توڑنے کے لئے کیا گیا ۔ اس کے بعد شدت پسندی میں اتنا اضافہ ہوا جتنا اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا ۔قریب تھا کہ انہیں انتخابات میں ایسا دھچکا جھیلنا پڑتاجس سے ابھرنا ان کے لئے ممکن نہ ہوتا لیکن پلوامہ میں فدائی حملے نے منظر بدل دیا ۔قوم پرستی کا جوش ان کے حق میں گیا۔ بالا کورٹ حملہ اور اس کے بعد ہند و پاک تنائو نے ان کے حق میں رائے عامہ کو پھر سے ہموار کرنے میں مدد کی حالانکہ ملک کو کوئی بڑی حصولیابی حاصل نہیں ہوئی ۔ بالاکوٹ حملے پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں اور پاک بھارت فضائی ٹکرائو میں بھارت کی کارکردگی پر بھی لیکن اس کے باوجود دہشت گردی کیخلاف مضبوط لیڈر کے طور پر وہ اپنی امیج بنانے میں کامیاب رہے ۔اس کے باوجود بھی ایسا نہیں لگتا کہ ان کے لئے حالات ابھی بھی بہتر ہوئے ہیں ۔ یو پی میں بی جے پی کی جیت کے امکانات محدود ہوچکے ہیں ۔ مایا وتی اور اکھلیش یادو کا اتحاد ان کے سامنے ایک ہمالہ کی طرح کھڑا ہوچکا ہے ۔بنگال میں ممتا بینر جی ان کے لئے چٹان کی طرح کھڑی ہے ۔ اور شمالی ہندوستان میں ان کیلئے جیت کے امکانات محدود ہیں ۔جنوبی ہندوستان میں تاجر اورچھوٹے صنعت کار ،جن کے ووٹ سے انہوں نے پچھلا الیکشن جیتا تھا، ان کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں ۔دانشور ،ترقی پسند اور تعلیم یافتہ نوجوان فرقہ واریت اور آر ایس ایس نظریات کو جبراً اپنے اوپر حاوی ہونے سے روکنے کیلئے اٹھ کھڑے ہوچکے ہیں لیکن اس کے باوجود ابھی کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکتی ہے ۔ آنے والے دنوں میں کیا ہوگا ،وثوق کے ساتھ کچھ کہنا مشکل ہے ۔ نریندر مودی کے سامنے ان کے برابر ی کا کوئی اپوزیشن لیڈر نہیں ہے ۔ یہ ان کے حق میں بہت بڑی بات ہے ۔ تاہم جو بھی ہو ،یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ آنے والا انتخاب ہندوستان کی تاریخ اور تقدیر کا فیصلہ ہوگا ۔ پرینکا گاندھی نے اس انتخاب کو ہندوستان کی آزادی کی ایک اور جنگ قرار دیا ہے۔اس لحاظ سے ان کی یہ بات درست ہے کہ اگر مودی جی حتمی اکثر یت کے ساتھ پھر سے اقتدار میں آئے تو ایک شخصی راج قائم ہونے کا خدشہ کئی حلقوں میں موجود ہے ۔ اسی کے نظریات اور اسی کی سوچ ملک کے اقتدار پر حاوی ہوجائے گی جس کے نتیجے میں ہندوستان کا وہ نظریہ کہیں گم ہوکر رہ جائے گا جو اس کے وجود کی بنیاد ہے ۔
ہفت روزہ ’’نوائے جہلم‘‘ سری نگر