ہے وہی سازِ کہن مغرب کاجمہوری نظام
جس کے پردوں میںنہیں جُزازنوائے قیصری
(اقبال)
اس وقت کل ہند سطح پر 17؍ویں لوک سبھا کے انتخابات کے نام پر ایک عظیم ڈرامہ کھیلا جارہاہے۔ سارے پارلیمانی سیاسی مداری ، نٹ، قلاباز، بازی گر، بہروپیئے اور راس دھارہ اپنے اپنے کرتبوں کاتماشہ دکھا کر ہندوستانی عوام کو اپنا گردیدہ بنانے کی کوششوںمیں مصروف ہیں۔ سارے سیاسی سوداگر، تاجر، بیوپاری اور ان کے کمیشن ایجنٹ اپنا اپنا سیاسی سودا فروخت کرنے کے لئے انتخابی میدان ِکا ر زار میں اُترے ہوئے ہیں۔ اپنے اپنے سودا کو بیچنے کے لئے عوام کو حسین خواب دکھارہے ہیں۔ درخشاں اور چمکتا ہوا ہندوستان تعمیر کرنے کے لئے نعرے بلند کررہے ہیں۔ اسی دُنیامیں جنت، بہشت اور سورگ تعمیر کرنے کے وعدے کررہے ہیں۔ خوشحال، فارغ البال اور سکھی زندگی کے سنہرے سپنے دکھارہے ہیں۔ ایسا پہلی بار نہیںہورہا ہے ، انگریزوں کے ہندوستان سے چلے جانے کے بعد گزشتہ 72؍سال میں سیاسی اداکار سولہ بار پہلے بھی اور اب 17؍ویں بار اس قسم کی بھونڈی اداکاری کررہے ہیں۔
عوام اس وقت سخت اقتصادی، معاشی اور سیاسی بحران کے شکارہیں۔ عالمی کساد بازاری کااثر ہندوستان پربھی پڑرہاہے۔ عالمی سرمایہ داری نظام کا اَٹوٹ حصہ ہونے کی وجہ سے یہ ملک اس کساد بازاری کے اثر سے ہرگز بچ نہیں سکتا۔ مزدوروں، کاریگروں ، ہنرمندوں، سرکاری ملازموںاور دیگر محنت کشوں پر چھٹنی ، تخفیف کا خطرہ کساد بازری کی وجہ سے مکمل طورپر منڈلارہاہے۔ مالیات کے درہم برہم ہونے کی چیتائونی بدرجہ اُتم موجود ہے۔ افراط ِزر میںبتدریج اضافہ ہورہاہے۔ سرکار بے شک مصنوعی اعداد وشمار کے ذریعہ افراط زر میںکمی اور مہنگائی میں کمی کادعویٰ کرے لیکن عملی طورپر محنت کشوں کے لئے ضروریات زندگی کی قیمتوں میں اضافہ ہورہاہے اور حکومتی دعوئوں کے باوجود کسی عام استعمال کی چیز کی قیمت میں کمی واقع نہیںہوئی ہے۔ جن اشیائے ضروریہ کی قیمت ایک بار بڑھی ہے، اُن میںہرگزکوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ مہنگائی نے عوام کاکچومر نکال دیاہے۔ بے کاری نے عوام کی کمردوہری کردی ہے۔ رشوت ستانی اور بھرشٹاچار نے عوام کو اَدھ موا کردیاہے۔ شہری آزادیوں اورانسانی حقوق کی پائمالی نے عوام ی جذبات واحسا سات کو لہو لہان کررکھاہے۔ عوام میں زبردست بے چینی اور بے اطمینانی پائی جاتی ہے اور وہ اب گھمبیر صور ت حال کو بدلنے کے خواہش مند ہیں، لیکن وہ اس تذبذب وبے چینی میں مبتلا ہیںکہ یہ تبدیلی کیسے ممکن ہو۔
حکمران طبقوں کے پارلیمانی سیاست دان ان انتخابات کے دوران ووٹروں کویقین دہانیاںکروا رہے ہیں کہ انہیں ووٹ دے کر کامیاب کروادیا جائے اور اقتدار دے دیا جائے، تو عوام کی تمام مشکلات او رمصائب کا ازالہ کریںگے۔ یہ جھوٹی یقین دہانیاں اور وعدے پہلی بار نہیں ہورہے ہیں بلکہ پیش ترازیں 16؍مرتبہ ان شاطرسیاست دانوں نے عوام کے ساتھ اسی طرح کا کھیل کھیلاہے۔ اور 17؍مرتبہ پھروہی کھیل کھیلا جارہاہے، نہ پہلے 16مرتبہ کے وعدے پورے ہوئے ہیں اور نہ اب 17 ؍ویں مرتبہ وعدے پورے ہوںگے۔ ہم تجربات کی بنیاد پر اس حقیقت کااعلان ڈنکے کی چوٹ پر کردینا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں۔ اب کی بار بھی سامراجیوں، گماشتہ سرمایہ داروں اور لینڈلارڈوں کی تجوریاں ہی بھریںگی۔ غریب عوام ،محنت کش ، مزدور، کسان، کم تنخواہ ملازمین اور دیگر محنت مزدوری کے ذریعہ پیٹ پالنے والے لوگوں کی لوٹ کھسوٹ بھی بدستور جاری رہے گی اور ان کے مصائب اور مشکلات میں بدستور اضافہ ہوتا رہے گا، کیونکہ موجودہ پارلیمانی سیاست دانوں کی کوئی بھی پارٹی برسر اقتدارآئے وہ ان ہی طبقوں کی ترجمان ،نمائندہ اور محافظ ثابت ہوتی ہے۔
ہمارے نکتہ نظر کے مطابق ہر نظام اور ہرپارٹی کسی نہ کسی طبقہ کی نمائندہ اور ترجمان ہوتی ہے۔ نظام جمہوری ہو ، پارلیمانی ہو ، صدارتی ہو، آمرانہ ہو، شہنشانہ ہو، کوئی نہ کوئی طبقہ ہی برسراقتدار ہوتاہے۔ اس وقت ہندوستان میں سامراج، گماشتہ سرمایہ داروں اور لینڈلارڈوں کے اتحاد ثلاثہ کا راج ہے اور ساری پارلیمانی پارٹیاں ان ہی طبقوں کی نمائندہ اور ترجمان ہیں۔ گزشتہ 72؍سال کے عرصہ میں ان میںسے ہر پارٹی مسند اقتدار پر فرد کش رہی ہے لیکن کسی نے بھی عوام کے مصائب اور مشکلات کا خاتمہ نہیںکیاہے اور نہ ہی آئندہ ان سے اس امر کی توقع رکھی جاسکتی ہے۔ جب تک موجودہ لوٹ کھسوٹ کے استحصالی نظام کاخاتمہ نہیںہوتاہے، تب تک عوام کے مصائب اور مشکلات بھی ختم نہیں ہوسکتے ہیں۔ یہ نوشتہ ٔدیوار ہے جسے عوام کو بخوبی سمجھ لیناچاہیے۔ فیض احمد فیضؔ کے الفاظ میں ؎
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دُکھ تھے وہ لادوانہ تھے۔لیکن ان دُکھوں اور مصائب کا علاج موجودہ لٹیرے نظام کے دائرہ میں ہرگز نہیںہوسکتا۔ اس کاعلاج موجودہ استحصالی نظام کے خاتمہ اور عوامی جمہوریت کے قیام سے ہی ممکن ہے۔اسی کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ثابت ہے کہ پارلیمانی راستہ کے ذریعہ ہر گز اس لٹیرے نظام کا خاتمہ ممکن نہیںہے۔ اس کاخاتمہ عوامی اور انقلابی جدوجہد کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ اس کے بغیر نہیں، ساری دُنیا کا تجربہ اس بات کی تصدیق کرتاہے ۔ جب تک ہندوستانی عوام انقلابی اورعوامی جدوجہد کے ذریعہ اس لٹیرے نظام کوختم کرکے عوامی جمہوریت کا قیام عمل میں نہیں لاتے ۔وہ دُکھ درد کی زندگی سے نجات حاصل کرکے خوشحال زندگی تعمیر نہیںکرسکتے۔ موجودہ نظام کی تبدیلی پارلیمانی راستہ کے ذریعہ ہرگزممکن نہیںہے، کیونکہ موجودہ لٹیرے نظام میں لوٹ کھسوٹ کرنے والے طبقوں کی پارلیمانی پارٹیاں دولت ، زر، روپیہ پیسہ، مذہب، ذات براداری ، دھونس اور جابرانہ حربوںکے ذریعہ کبھی منصفانہ انتخابات کی نوبت ہی نہیں آنے دیتیں۔کیا موجودہ نظام کے اندر جس میںانتخابات کروڑوں روپیہ کے اخراجات کے متحمل ہوتے ہیں۔ غنڈہ گردی سرعام ہوتی ہے۔ مذہب اور ذات برادری کا کھلے عام استحصال ہوتاہے۔ اس میںکوئی محنت کشوں کا نمائندہ کامیاب ہوسکتاہے ،ہرگز نہیں۔ اس نظام میں فقط دولت مند، جابر، ظالم، غنڈے ہی کامیاب ہوکر برسر اقتدار آسکتے ہیں۔ سچے عوامی نمائندے فقط عوامی جمہوریت میںکامیاب ہوسکتے ہیں اور ایک صالح نظام بھی قائم کرسکتے ہیں۔اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ ہم جمہوریت اور انتخابات کے عمل سے ہی منکر ہیں اور کسی آمرانہ نظام کے حامی ہیں۔ ہم سچے دل سے جمہوریت پسند ہیں اور منصفانہ انتخابات میں یقین رکھتے ہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ لٹیرے نظام کے اندر جمہوریت کا قیام اور منصفا نہ انتخابات کاانعقاد ممکن ہی نہیں ہے۔ یہ تجزیہ محض خیالی نہیں ہے بلکہ عملی حقیقت پر مبنی ہے۔ دُنیابھر کے تجربات کو بالائے طاق رکھئے، صرف ہندوستان کے تجربوں کو دیکھئے اور بتائیے کہ کیا یہ حقیقت نہیںہے؟
گزشتہ 72سال کے تجربہ کی بنیاد پر عوام اس ٹھوس حقیقت کو سمجھتے توہیں اور اس تجربہ کی بنیاد پر کہتے بھی ہیں کہ وہ موجودہ نظام کے اندر انتخابات کے عمل سے بیزار ہیںاو رمتبادل عوامی اور انقلابی راستہ پر چلنے کے خواہاں ہیںلیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہرپانچ سال وہ انتخابات کے عمل سے بیزاری کا رونا رونے کے بعد اس عمل پر گریزکرنے کی سوجھ بوجھ کے باوجود وہ انتخابات کے موقع پر انتخابی مداریوں کے نرغے میںایسا پھنستے ہیں کہ پھر اسی تباہ کن راستہ پر گامزن ہوجاتے ہیں۔ اس عمل سے وہ متواتر لوٹ کھسوٹ کاشکاربھی ہیں اور اپنے مصائب میںاضافہ بھی کررہے ہیں۔ اس موقع پر علامہ اقبال کا شعر ہی حقیقت حال سمجھنے کے لئے گنگنایا جاسکتاہے ؎
دائے ناکامی متاعء کارواں جاتارہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتارہا
مقام حیرت ہے کہ پانچ سال تک لوگ پارلیمانی لیڈروں سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں اور مندرجہ ذیل شعرکے مطابق سوجھ بوجھ رکھتے ہیں ؎
مجھ کو راہ ِ زندگی میںا س قدر راہ زن ملے
کہ رہنما پربھی گمان ِ رہنماء ہوتانہیں
لیکن پانچ سال کے بعد پھر ان ہی سماجی گرگوں کے چکرمیں پھنس کر گمراہی کاشکار ہوجاتے ہیں اور اس شعر کے مجسمۂ تصویر بنتے ہیں ؎
اِک گجربجنے سے دھوکہ کھاگئے
پھر بھیانک تیرگی میںآگئے
اندریں حالات ہم عوام سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ پارلیمانی راستہ پر گمراہی سے نجات حاصل کرکے پارلیمانی ابہامات سے چھٹکارا حاصل کریں اور انقلابی و عوامی انقلاب اور انقلابی جدوجہد کاراستہ اختیارکریں،اسی میں ان کی نجات مضمر ہے۔ وگرنہ لٹیرے طبقوں اور ان کے نمائندے پارلیمانی سیاست دانوں کے گورکھ دھندے میںپھنس کر مزید تباہ وبرباد ہوجائیںگے۔