سرینگر //وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے مزار شہداء کے باہر لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا اور پولیس پر انہیں اور ان کے ساتھیوں کو شہدا کے قبرستان میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش پر تنقید کرتے ہوئے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ، “یہ افسوسناک ہے کہ ان لوگوں کی ہدایت پر جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی ذمہ داری سیکورٹی اور امن و امان ہے، ہمیں یہاں فاتحہ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی، ہمیں اتوار کو گھر میں نظر بند رکھا گیا تھا۔”غصے میں وزیر اعلیٰ نے مزید کہا”ان کی ڈھٹائی دیکھیں، انہوں نے آج بھی ہمیں روکنے کی کوشش کی، ہمارے ساتھ ہاتھا پائی کی بھی کوشش کی، پولیس کبھی کبھی قانون بھول جاتی ہے، جب پابندی کل کی تھی تو مجھے آج کیوں روکا گیا؟” ۔ ڈاکٹر فاروق نے کہاکہ یہ کہتے ہیں کہ یہ ایک آزاد ملک ہے۔انہوں نے کہا”لیکن وہ ہمیں اپنا غلام سمجھتے ہیں، ہم نہیں ہیں، ہم نوکر بلکہ عوام کے ہیں،مجھے سمجھ نہیں آتی کہ وہ وردی میں قانون کو کیوں توڑتے ہیں،” ۔عمر عبداللہ نے کہا کہ انہوں نے اور ان کی پارٹی رہنمائوں نے پولیس کی انہیں پکڑنے کی کوششوں کو ناکام بنایا۔وزیر اعلیٰ نے کہا’’انہوں نے ہمیں پکڑنے کی کوشش کی، ہمارے جھنڈے کو پھاڑنے کی کوشش کی لیکن یہ سب بے سود رہا، ہم نے یہاں آکر فاتحہ خوانی کی، ان کے خیال میں شہدا کی قبریں یہاں صرف 13 جولائی کو ہوتی ہیں، لیکن وہ سارا سال یہاں رہتی ہیں‘‘۔انہوں نے کہا’’ایل جی انتظامیہ کب تک انہیں شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے سے روک سکتی ہے، اگر 13 جولائی کو نہیں تو یہ دسمبر، جنوری یا فروری کی 12 یا 14 جولائی ہو سکتی ہے‘‘۔عمر عبداللہ نے زور دے کر کہا کہ ہم جب بھی چاہیں گے ،یہاں آئیں گے۔اس نے X پر ایک پوسٹ بھی لگائی، اس عزم کا اعادہ کیا کہ اسے آج نہیں روکا جائے گا۔انہوں نے کہا”غیر منتخب حکومت نے میرا راستہ روکنے کی کوشش کی اور مجھے نوہٹہ چوک سے چلنے پر مجبور کیا، انہوں نے نقشبند صاحب کے مزار تک جانے والے گیٹ کو بلاک کر دیا اور مجھے دیوار تک لگانے پر مجبور کر دیا، انہوں نے مجھے جسمانی طور پر پکڑنے کی کوشش کی لیکن مجھے آج روکا نہیں جاسکا۔”13 جولائی 1931کو جموں و کشمیر میں میں سری نگر کی سینٹرل جیل کے باہر ڈوگرہ فوج کے ہاتھوں مارے گئے 22 افراد کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے یوم شہدا کے طور پر منایا جاتا ہے ۔اس سے قبل وزیر اعلیٰ نے شدید غصہ کا اظہار کرتے ہوئے پیر کی صبحX پر پوسٹ کیا’’ہمارے مقامی اخبارات پر ایک نظر ڈالیں ،دونوں جموں اور سرینگر سے، انگریزی اور مقامی زبان سے۔بزدلوں نے اس حقیقت کو پوری طرح دفن کر دیا کہ کل پوری منتخب حکومت کو بیشتر منتخب نمائندوں سمیت تالے لگا دیے گئے تھے۔ کچھ ہمت کے ساتھ اخبارات نے اسے صفحہ اول پر رکھا ہے، ان پر شرم آنی چاہیے جنہوں نے کہانی کو دفن کر دیا، مجھے امید ہے کہ لفافے کا سائز اس کے قابل تھا‘‘۔