سرینگر//اتحاد المسلمین صدر مولانا مسرور عباس انصاری نے مسلمانان کشمیر کی سب سے بڑی عبادت گاہ مرکزی جامع مسجد سرینگر کو ریاستی حکمرانوں کی جانب سے لگاتار گزشتہ پانچ جمعہ سے مقفل رکھنے اور وہاں نماز جمعہ کی ادائیگی پر پابندی عائد کئے جانے پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے مداخلت فی الدین قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاستی حکمران امن و قانون کو بہانہ بنا کر اور ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت جامع مسجد کے منبرو محراب کو کو خاموش کرنے پر تلے ہوئے ہیںتاکہ اس دینی مرکز سے کشمیری عوام کے سیاسی اور دینی حقوق کی جو ترجمانی ہوتی رہی ہے اس پر روک لگائی جا سکے کیونکہ اس مرکز سے صدیوں سے نہ صرف حق و انصاف کے حق میں آواز بلند ہوتی رہی ہے بلکہ کشمیری مسلمانوں کے خلاف ہو رہے استحصال اور ان کے حقوق پر مارے جارہے شب خون کے خلاف بھی صدائے احتجاج بلند ہوتا رہا ہے۔ مولانا مسرور انصاری نے کہا کہ مسلم اکثریتی ریاست میں جہاں کے حکمران خود کو مسلمان کہہ رہے ہیں مرکزی جامع مسجد سرینگر میں نماز کی ادائیگی پر پابندی کا عمل حد درجہ افسوسناک ہے اور یہ شخصی راج کے اس دور کی یاد دلاتا ہے جب مرکزی جامع مسجد کو طویل مدت تک بند رکھا گیا اور اس کے منبر و محراب کو خاموش کیا گیا۔ انہوں نے حریت (ع) چیئرمین میرواعظ عمر فاروق کی مسلسل نظر بندی اور ان کی پر امن سرگرمیوں پر لگاتار پابندی کو افسوسناک قرار دیا۔مولانا مسرور نے ریاستی وزیر عمران انصاری کی جانب سے دئے گئے اس بیان جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’جامع مسجد میں نماز پر پابندی سے انسان جانیں تلف ہونے سے بچ جاتی ہیں ،لہٰذا بقول ان کے اس مرکز میں نماز پر پابندی ٹھیک ہے ‘‘ کو ان کے افلاس تدبر کی انتہا قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی دین اسلام متعلق معلومات نہایت ناقص ہے ۔ مولانا مسرور نے کہا کہ ریاستی وزیر کا بیان اصل میں اس سرکاری پالیسی کا حصہ ہے جس کے تحت مسلمانان کشمیر کی اس سب سے بڑی عبات گاہ کو زک پہنچا کر اس کی مرکزیت کو ختم کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس مرکز کے باہر ہنگامہ صرف وہاں پولیس اور فورسز کی تعیناتی کی وجہ سے ہوتا رہا ہے اور ہمارا یہ دیرینہ مطالبہ رہا ہے کہ وہاں سے فورسز کے جمائو کو ختم کیا جائے لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ سرکار ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اس مرکزی عبادت گاہ کے تقدس کو پامال کرنے پر تلی ہوئی ہے اور وزیر کا بیان اسی تناظر کی ایک کڑی ہے۔