غور و فکر
سید مصطفیٰ احمد
دنیا کے عظیم ماہر اقتصادیات نے جس بات پر سب سے زیادہ زور دیا ہے، وہ یہ ہے کہ ایک ملک کی حقیقی ترقی کا راز اس کی ٹھوس اور پائیدار معیشت میں پنہاں ہے۔ جس طرح تاریخ کو آئینے کے معنوں میں سمجھا جاتا ہے اسی طرح مضبوط معیشت سماج کی کلہم ترقی کی بنیادی اکائی سمجھی جاتی ہے۔ ہمارے یہاں معیشت کو ناپنے کے طریقوں کی بھرمار ہے۔ GDP سے لے کر GNP تک، اول الذکر پیمانے کے علاوہ بعدالذکر پیمانے کی ذیلی شاخیں بھی پائی جاتی ہیں۔ معیشت کوئی محدود نظریہ نہیں ہے، یہ اپنے اندر سمندر کی وسعت کے ساتھ ساتھ سمندر کی گہرائی بھی چھپائی بیٹھی ہے۔ اس کو ایک مضمون کے اندر سمونا بہت دشوار ہے۔ لیکن ایک کوشش یہاں پر کی گئی ہے جس سے یہ بات واضح ہوجائے گی کہ کیسے مضبوط معیشت ایک ملک کی جامع ترقی کو پروان چڑھاتی ہے۔ کیسے ہندسوں کے جھانسے میں پھنسنے کے بجائے لوگوں اور معیشت سے جڑے شعبوں کو حقیقی اور ٹھوس راہوں پر چلانے سے مستقل کامیابی کے دروازے کھل سکتے ہیں۔ اگر ہم اپنے ملک کی بات کرے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ کیسے ہندوستان جیسا عظیم ملک ہندسوں کے جھانسے میں آکر حقیقی اور پائیدار ترقی سے کوسوں دور ہورہا ہے۔ دنیا کی پانچویں معیشت ہونے کے باوجود اور دنیا کی تیسری بڑی معیشت کی دوڑ میں رواں دواں ہندوستان، Gross National Happiness کی لمبی دوڑ میں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ پچھڑتا جارہا ہے۔ یہاں پر میں یہ بات کہتا چلو کہ ملک کے خزانے کا حجم بڑھنے سے ملک کے باشندوں کی خوشیوں میں اضافہ ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر کبھی کبھار ایسا ہوتا بھی ہے تو اسے ہم coincidence کے نام سے سمجھ سکتے ہیں۔
ملک کی معیشت میں سب سے بڑا حصہ جوانوں کا ہوتا ہے۔ جوانوں کی اندر پائی جانے والے لاوا کو ہی صحیح معنوں میں استعمال کرکے ملک کی ڈوبتی ناؤ کو بھنور سے نکال کر صحیح سلامت ساحل تک محفوظ لایا جاسکتا ہے۔ جرمنی، جاپان اور چین اس کی زندہ مثالیں ہیں۔ کیسے ان ممالک کے جوانوں کی ذہانت اور ولولے کو صحیح ڈگر پر چلا کر دنیا میں عالی شان مقام حاصل کئے ہیں۔ جنگوں کے جنون کا لباس اتار کر ترقی اور دوراندیشی کو گلے لگا کر اپنے ممالک کے نام روشن تر سے روشن ترین کئے۔ چین کے بابت مضامین کی بھرمار آئے دن آنکھوں سے گزرتے ہیں۔ چین کا اپنے نوجوانوں کی طاقت کا صحیح استعمال، ان کی کامیابی کا راز ہے۔ مالی معاونت سے لے کر سیاسی مدد نے وہاں کے نوجوانوں کو اپنا لوہا منوانے پر خود ہی ابھاراہے۔ اس کے برعکس ترقی پذیر ممالک میں نوجوانوں کا طبقہ ہی ہر افراتفری کا شکارہے۔ ان کی نشوونما کا صرف ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔ اس کے برعکس ان کی اندر پائی جانے والی ذہانت اور ولولے کا گھلا گھونٹ دیا جاتاہے، جس کی وجہ سے ملک کی معیشت پر دیر سویر بُرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ انسانی وسائل کا زیاں ناتلافی زیاں ہے۔ اس کی بھرپائی کرنا بہت مشکل ہے۔
معیشت کی درست تعلیم اور عملی نفاذ سے ایک ملک کی معیشت میں چار چاند لگائے جا سکتے ہیں۔ قابل اور ماہر اقتصادیات کی تجاویز پر عمل کرکے ایک ملک کی قسمت بدلی جاسکتی ہے۔ Arvind Panagariya, Thomas Pikkety، Urjit Patel،Raghuram Rajan،وغیرہ جیسی قابل اور ذہین شخصیات سے صلح مشورہ کرکے ملک کی معیشت کو ڈگر پر لایا جاسکتا ہے۔ کچھ دن پہلے میں ہندوستان کے ایک ماہر اقتصادیات کا بیان سن رہا تھا، اُن کے مطابق ہندوستان کی ترقی کا رازsecondary sector شعبے کی ترقی میں پنہاں ہے۔ اگر اس شعبے کو پھلنے اور پھولنے کا موقع دیا جاتا ہے تو قوی امید لگائی جاسکتی ہے کہ مستقبل میں ایک پائدار سیکنڈری شعبے کے پھل ہماری جھولی میں آسکتے ہیں۔ اسی طرح JK BOSE کی طرف سے شائع کئی گئی دسویں جماعت کی Geography کتاب میں Manufacturing Industries کے عنوان کے تحت براعظم ایشیا کے کچھ ممالک کا تقابلی مقابلہ کیا گیا ہے۔ اس میں جاپان کے سیکنڈری شعبے کی طرف ہمارا دھیان مبذول کرواتے
ہوئے اس حقیقت کو ہمارے سامنے رکھنے کی کوشش کی گئی ہے کہ کیسے جاپان کی ترقی کے راز کے پیچھے بہت سارے عوامل ہونے میں ان کے سیکنڈری سیکٹر کے مضبوط ہونے کا رول اہم ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ہندوستان، اسرائیل، چین، جاپان، جرمنی،وغیرہ نے پھر سے نئی زندگی کی شروعات کیں لیکن کچھ ممالک اس دوڑ میں بہت آگے نکل گئے اور کچھ وہی کے وہی رہ گئے۔ اس کے پیچھے بنیادی وجوہات میں ایک وجہ ماہر اقتصادیات کی تجاویز کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دینا ہے۔ ہندوستان میں جب 2016،2017 اور 2020 میں کچھ اقتصادی فیصلے ایسے اٹھائے گئے، جن کے دوررس فائدے حاصل ہونے کے بجائے مشکلات میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔ عام لوگوں کی زندگی جیسے اجیرن بن گئی اور دم اور گھٹن کے ماحول کے علاوہ لوگوں کی جمع پونجی بھی لٹ گئی۔
وقت کی ضرورت ہے کہ ملک کی معیشت کو صحیح راستے پر لانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ معیشت کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ آج کی زندگی کا دوسرا نام پیسہ ہے۔ فلسفہ اور وعظ و نصائح تب ہی انقلابی نوعیت کے ہونگے جب جیب میں پیسے اور ایک غریب کی زندگی میں قرض کی لعنت منڈلا نہیں رہی ہو۔ جب ضروریات زندگی کا سامان مہیا ہو اور مستقبل کے لئے بینک اور تجوری میں خاصی موٹی رقم پڑی ہو، تب زندگی میں سکون اور وعظ و نصائح کا بھرپور فائدہ بھی حاصل ہوتا ہے۔ امید ہے کہ سارا ہی نہیں کم از کم معیشت کے ڈوبتے ہوئے نظام میں سدھار کی گنجائش نکل جائے اور بیشتر افراد پیٹ کی فکر سے آزاد ہوکر زندگی کے دو پل شانتی اور سکون سے گزارے۔
رابطہ ۔: 7006031540
[email protected]