آج کل ہمارے معاشرے میں جہاں بیشتر لوگوں کا یہ خیال ہے کہ عصر حاضر کی جدید ٹیکنالوجی نے انسان کی صحت پر مثبت اثرات مرتب کئےہیں،وہیں بہت سارے لوگوں کا کہنا ہے کہ جدیدٹیکنالوجی کے دماغی صحت اور انسانی جسم پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ خاص طورپر اس کا مسلسل استعمال اور روز مرہ کے کاموں میں اس پر انحصار یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ کیا ٹیکنالوجی نے واقعی انسانی زندگی کو بہتر بنایا ہے؟جبکہ ٹیکنالوجی کا مسلسل استعمال اور اس پر مکمل انحصار کرنے سے نفسیات پر جلد یا بدیر نقصان دہ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔بظاہرتو جدید سماجی رابطوں ویب سائٹس سے فاصلے تو سمٹ گئے ہیں اور باہمی روابط بھی بہتر ہو گئے ہیں تاہم حقیقت اس کے برعکس ہے۔اس حوالے سےجو ریسرچ سامنے آئی ہے،اس سے ثابت ہوا ہے کہ جو افراد سماجی رابطے کی ویب سائٹ سے مسلسل جڑے رہتے ہیں ،وہ اُن افراد کے مقابلے میں جو اس کا کثرت سے استعمال نہیں کرتے، تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ریسرچ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مسلسل سماجی رابطے کی ویب سائٹ سے منسلک افراد میں بے چینی اور ڈپریشن جیسے ذہنی مسائل بڑھ جاتے ہیں۔ ماہرین نے اس حوالے سے مختلف نتائج پیش کئے ہیں،جن کے مطابق جن افراد کو سماجی ویب سائٹس پر مثبت رویہ اور حوصلہ افزائی ملتی ہے، ان میں پریشانی اور ڈپریشن کافی کم ہوتا ہےاور جنہیں سوشل نیٹ ورک پر حوصلہ افزائی کا سامنا نہیں ہوتا، ان میں ڈپریشن کافی زیادہ ہوتا ہے۔جبکہ کچھ لوگ ٹیکنالوجی کی کثرت استعمال سے ڈیجیٹل ڈیمنشیا کا شکار ہو سکتے ہیں جس کی وجہ سے اُنہیں معلومات پر توجہ مرکوز کرنے یا یاد رکھنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔گویا حد سے زیادہ فکر کسی بھی شخص کو اس کی صحت کے بارے میں پریشانی میں مبتلا کر سکتی ہے جوکہ ڈپریشن میں مبتلا ہونے کا سبب بنتی ہے۔ بعض افراد اس قدر انٹرنیٹ کے استعمال کے اسیر ہو کر رہ جاتے ہیں، جس سے ان کے سماجی راوبط ہی نہیں بلکہ روزِمرہ کےکام کاج بھی متاثر ہوتے ہیں ،اُن کی خود اعتمادی میں کمی اور احساس محرومی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔جس کے نتیجے میں ان کی زندگی میں دیگر مسائل پیدا ہوکر پیشہ ورانہ شب روز بھی متاثر ہورہے ہیں۔ اگرچہ یہ بات حتمی نہیں کہ انٹرنیٹ کے زیادہ استعمال سے پریشانی اور بے چینی میں غیرمعمولی اضافہ ہوتا ہے، تاہم جدید تحقیق میں توجہ کے فقدان کا بڑا سبب انٹرنیٹ پر زیادہ دیر گزارنے کو قرار دیا گیا ہے۔ بعض افراد کی یہ عادت بن جاتی ہے کہ وہ سوتے وقت اپنے ساتھ موبائل فون رکھ لیتے ہیں۔ ان کو گمان ہوتا ہے کہ کوئی نہ کوئی میسج آئے گا یا فیس بک پر کوئی اَپ ڈیٹ ہی آ سکتی ہے۔ بعض اوقات ان کا یہ عمل لاشعوری طور پر بھی ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کی نیند پُرسکون نہیں ہوتی اور وہ سوتے ہوئے بھی ذہنی طور پر اضطراب کا شکار رہتے ہیں۔ نیند میں دشواری کا دوسرا سبب ’بلو ریز‘ یعنی نیلی روشنی ہوتی ہے جو سمارٹ فون کی سکرین سے خارج ہوتی ہے، یہ بھی نیند میں دشواری کا باعث بن جاتی ہے اور یہ شعاعیں جسمانی اعضا کو بھی متاثر کرنے کا سبب ہو سکتی ہیں۔ ایک مطالعے کے مطابق گذشتہ نصف صدی سے بالغ افراد کی نیند کا اوسط دورانیہ آٹھ گھنٹے ہوتا ہے جس میں اب بتدریج کمی آ رہی ہے اور یہ عمل یقینی طور پر جسمانی صحت پر اثرانداز ہوتا ہے۔گویا صرف نفسیاتی صحت ہی ٹیکنالوجی کے مضر اثرات کی زد میں نہیں رہتی بلکہ جسمانی صحت کو بھی اس کے غیرضروری استعمال سے خطرات کا سامنا رہتا ہے۔ظاہر ہےکہ سمارٹ فونز، لیپ ٹاپ، ٹیبلیٹ یا کمپیوٹر کا مسلسل استعمال کرنے والوں کو آنکھوں میں جلن، خشکی اور دباؤ کے علاوہ سر، گردن اور کندھوں میں درد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ وقت جو سکرین کے سامنے گزارتے ہیں ? سکرین کی تیز روشنی ? آنکھوں سے سکرین کا غیرمناسب فاصلہ ? آنکھوں کے مسائل کا شکار بناتاہے ۔ بیشتر افراد کے کمپیوٹر کی سکرین نیچے کی جانب ہوتی ہے جس کی وجہ سے ان کی گردن اور ریڑھ کی ہڈی پر دباؤ بڑھ جاتا ہے،جوکہ خطرے کی گھنٹی کا انتباہ ہوتی ہے کیونکہ زیادہ دیر تک بغیر جسمانی حرکت کے ایک ہی جگہ بیٹھے رہنے سے مختلف نوعیت کی جسمانی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جن میں موٹاپا، دل اور شریانوں کے امراض اور شوگریا دوسرے درجے کی ذیابیطیس شامل ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے ہم کس طرح اپنی نفسیاتی اور جسمانی صحت کو برقرار رکھ سکیں گے،اس پر دانش مندی کے ساتھ غور وفکر کرنا لازمی ہے۔کیونکہ جسم کی صحت سے بڑھ کرکوئی تونگری نہیں۔