Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

! ٹیکنالوجی ،تعلیم اور اکیسویں صدی | ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا انضمام نوجوان طلاب کو متفکرانسان بنا سکتا ہے؟ رفتارِ زمانہ

Towseef
Last updated: October 25, 2024 11:23 pm
Towseef
Share
10 Min Read
SHARE

ڈاکٹر شوکت احمد میراور ایڈوکیٹ وسیم خالق

اکیسوی صدی میں تعلیم کے عمل میں غیر معمولی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔علم کی رسائی اور فراہمی میں نمایاں رد وبدل دیکھنے کو ملا۔ مفکرین کی سوچ تعلیم کو ڈ یجیٹل پلیٹ فارموں پرلانے کے فائدے اور نقصانات کی طرف منتقل ہو گئی ۔ معلم اور ماہرین تعلیم نے تدریس اور سیکھنے کے عمل پر نئی ٹیکنالوجی کے اثرات کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا ۔ وہ اس نئی تبدیلی کو ثقافتی ، سماجی اور سیاسی زاویوں سے بھی سمجھنے اور دیکھنے لگے۔ ٹیکنالوجی کی آمد کی وجہ سے پیدا ہونے والے اہم سوالات بنیادی طور پر ڈیجیٹل عدم مساوات اور سماجی غیر یکسانیت کے متعلق تھے ۔ تاہم انفارمیشن اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کا اثر تعلیم کے وسیع عمل میں دیکھا گیا ہے ۔ اکیسویں صدی میں ٹیکنالوجی نے پہلے ہی ثقافت اور معاشرے کی مختلف جہتوں کو تبدیل کر دیا ہے ۔ مزید لوگوں کو تعلیم فراہم کرنے کے تناظر میں تعلیم میں انضمام ٹیکنالوجی اورہم آہنگ سازی کے خیال پربھی بہت غوروخوض ہوا۔ ایک طرف ڈیجیٹل عدم مساوات کو تکنیکی ہم آہنگ سازی میں ایک بڑی رکاوٹ سمجھا جانے لگا، دوسری طرف اکیسویں صدی میں ٹیکنالوجی کے بغیر تعلیم کے بارے میں سوچنا ترقی پسند ملکوں کے لیے ٹھیک نہیں ہوسکتا۔

تعلیم کی ڈیجیٹلائزیشن کے تناظر میں ڈی اسکولنگ کا خیال آنے والےدورمیں حقیقی معلوم ہوتا ہے ، حالانکہ یہ قابل بحث بھی ہے ۔ ایجوکیشن پالیسی 2020 میں بھی اسکولوں میں ٹیکنالوجی کو شامل کرنےکی سفارش کی گئی۔ یہ سفارشات مناسب معلوم ہوتی ہیں کیونکہ اکیسوی صدی میں معلومات اور جدید تعلیم تک رسائی کے طریقوں میں کافی حد تک تبدیلی آئی ہے ۔ تاہم ڈیجیٹل ٹیکنالوجی پر اُبھرتی ہوئی توجہ ماہرین تعلیم کے لیے سماجی و اقتصادی منظرناموں کے بارے میں ایک آزمایش بھی ہے ۔ مذکورہ بالا تناظر میں سیٹلر (1968) کا خیال دلچسپ معلوم ہوتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ’’کتابیں جلد ہی اسکولوں میں متروک ہو جائیں گی۔ موشن پکچر کے ذریعے انسانی علم کی ہر شاخ کو سکھانا ممکن ہے ۔ ہمارے اسکولوں کا نظام دس سالوں میں مکمل طور پر بدل جائے گا ۔ تاہم کتابوں اور اساتذہ کی اہمیت کو کبھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔چاہے ٹیکنالوجی کتنی ہی کیوں نہ اُبھرے ۔ موجودہ دور میں ہم نے اسکولوں میں ٹیکنالوجی پر منحصر تعلیم کو ابھرتے دیکھا ہے جو ہمیں اس خیال کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتا ہےکہ کیا ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا انضمام نوجوانوں کو دنیا پر غوروفکر کرنے والا انسان بنا سکتا ہے۔

اکیسویں صدی اسکولوں میں علم حاصل کرنے کے جدید طریقوں نے ڈیجیٹل وسائل تک رسائی کے متعدد طریقے تلاش کئے ہیں ۔ ڈیجیٹل وسائل تک رسائی کے لئے کچھ شرائط اہم ہے ۔جیسے کہ ڈیجیٹل کلاس رومز کے لئے بہت اچھا بنیادی ڈھانچے کا ہونا ، اساتذہ کا جدید ٹیکنالوجی سے اچھی طرح واقف ہونا ۔ لیکن بھارت میں اس سلسلے میں ابھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ کئی تحقیقات کے ذریعے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ بھارت میں اسکولوں کے بنیادی ڈھانچے کی بے حسی ظاہر ہوتی ہے۔ ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کے لئے اساتذہ کے پاس معلومات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صلاحیت نہیں ہے ، جو تدریس اور سیکھنے کے عمل کو متاثر کرسکتی ہے اور اگر سکھانے والوں کے پاس آئی۔ سی۔ ٹی کے استعمال میں مہارت نہیں ہے تووہ آنے والے وقت میں بھارتی تعلیمی نظام کے لئے بڑا خطرہ پیدا کرسکتی ہے۔

یہ عمل یہیں نہیں رُکتا ، کیونکہ تعلیم کے عمل میں دیگرطول وعرض بھی ہیں ۔ معاشرہ ، ثقافت اور اس سے بھی اہم بچے کی کلچرل کیپٹل کی وجہ سے بچوں کو جو تجربات ہوتے ہیں وہ اسکولوں میں سیکھنے کی عمل کو متاثر کرتے ہیں ۔ جو فیملی ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے اچھی طرح سے واقف ہوتا ہے ، وہ اپنے بچوں کو ڈیجیٹل وسائل رسائی میں مدد کر سکتا ہے ، جس کی وجہ سےان بچوں کو اسکولوں میں بھی مدد مل سکتی ہے ۔ دوسری طرف ان بچوں کے لیے رکاوٹیں ہو سکتی ہیں جن کے پاس سرمائے کی کمی ہے ۔ اس بات کا ہمیشہ امکان ہے کہ جن اسکولوں کے پاس زیادہ مادی وسائل ہوں، ممکن ہے کہ ان کو ڈیجیٹل پلیٹ فارم تک ان اسکولوں کے مقابلے میں زیادہ رسائی حاصل ہو گی جن کے پاس کم وسائل ہوں اور جوبچے دور دراز علاقوں میں رہتے ہوں ۔ کلاس روم میں ٹیکنالوجی کو شامل کرنا ایک پرجوش قدم ہو سکتا ہے، لیکن اس سے پہلے سے موجود عدم مساوات کے مضبوط ہونے کا اندیش بھی ہوسکتا ہے ۔ اس طرح ٹیکنالوجی کے مطلوبہ مقاصد کو حاصل کرنے کے بجائے ان میں رکاوٹ ڈالنے کے امکانات ہیں ۔ حکام کو اس عنصر پر غور کرنا چاہیے۔ روایتی تعلیم کو ڈیجیٹل تعلیم سےبدلےکے لے زیادہ وسائل اور بنیادی ڈھانچہ درکار ہے، کیونکہ آئی، سی، ٹی روایتی ذرائع سے مہنگے ہوتے ہیں ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ تعلیمی شعبے کونظر انداز کیا گیا ہے ۔ اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں ہندوستان کا تعلیم پر خرچہ 2019 سے 2023 تک مسلسل جی، ڈی، پی کے ٪2.9 فیصد پرہی قائم رہا۔ تاہم 2024 میں یہ بڑھ کر 3.5 فیصد ہو گیا لیکن اسکے باوجود بھی یہ این۔ ای۔ پی 2020 کے مقرر کردہ ہدف سے نمایاں طور پر کم ہے ۔ بجٹ کی خامیوں کے علاوہ دیگر سماجی و ثقافتی عوامل بھی ہیں جو ڈیجیٹل تعلیمی نظام میں تصادم و تعامل پیدا کرتی ہے ۔

بھارت میں 14.89 لاکھ اسکول موجود ہیں، جن میں سے 10.12 لاکھ اسکول سرکاری ہیں ۔ طلباء کی کل تعداد 26.52 کروڑ تک پہنچ گئی ہے اور اساتذہ کی تعداد 95 لاکھ ہے ۔ اس بڑے تعلیمی ڈھانچے کو دیکھتے ہوئے ٹیکنالوجی کے انضمام کے لیے ڈیجیٹل عدم مساوات کو مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ بانرین ان اقوالٹی رپورٹ (2022) کے مطابق انٹرنیٹ کے ساتھ کمپیوٹر تک رسائی رکھنے والے طلباء کا تناسب دیہی علاقوں (4 فیصد) کے مقابلے شہری علاقوں (21 فیصد) میں زیادہ ہے ۔ مزید برآں دیہی علاقوں (17 فیصد) کی نصبت شہری علاقوں (44 فیصد) میں انٹرنیٹ کی دسترس بہت بہتر ہے ۔ رپورٹ میں مزید یہ بھی بتایا گیا کہ ’’فی الحال اونچے سماجی و اقتصادی جماعتوں کے طلباء کو ڈیجیٹل اساس تک نسبتاً بہتر رسائی حاصل ہے ۔‘‘ ذات پات اور صنفی جہتوں کو مدنظر رکھنے کے بعد یہ صورتحال اور بھی خراب ہو جاتی ہے ۔ ڈیجیٹل انفراسٹرکچر میں عدم مساوات کو یو ڈی آئی ایس ای (2021-22) نے بھی اُجاگر کیا تھا ۔ بھارت میں تقریباً 14,89,115 اسکول ہیں ، اور 22-2021 میں صرف 32,762 اسکولوں میں ڈیجیٹل لائبریری تھی ۔ اسکولوں کے مختلف زمروں میں بھی تغیرات پائے گئے، صرف 2 1 فیصد سرکاری اسکولوں میں ڈیجیٹل لائبریری کی دستیاب ہے ۔ یہ فیصد سرکاری امداد یافتہ اسکولوں میں غیر امدادی اسکولوں کے مقابلے میں کم ہے ، جو بالترتیب 3.2 فیصد اور 5.1 فیصد ہیں ۔ اس کے علاوہ ، جدید اسکولوں کو ٹیکنو ہب میں تبدیل کرنے کا ارادہ ترقی پسند لگتا ہے، لیکن بیک وقت قابل عمل نہیں ہے ۔ مزید مارکیٹ کا اثرغیر متعلقہ نصابی کتابیں اور نظریاتی عقائد سے چلنے والا نصاب ہمارے تعلیمی نظام کے دیگر خدشات ہیں ۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا نئی ٹیکنالوجی صرف انفوٹینمنٹ کا ذریعہ ہے جو ‘ٹیکنو کیپٹلزم سے رہنمائی کرتی ہے یا اس میں شمولیاتی تعلیم کے لئےایک راہ بھی ہے۔ اس طرح ٹیکنالوجی کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ اس کی نوعیت تعلیمی تناظرمیں مبہم ہے۔
(مضمون نگاران ڈاکٹر شوکت احمد میر گورنمنٹ ڈگری کالج بارہ مولہ میں ایجوکیشن کے لیکچرر ہیں اور وسیم خالق نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایل ایل ایم کی ڈگری حاصل کی ہے)
showkatmir09@ gmail.com

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
نجی ہسپتال اس بات کو یقینی بنائیںکہ علاج عام شہری کی پہنچ سے باہر نہ ہو:وزیراعلیٰ نیشنل ہسپتال جموں میں خواتین کی جراحی کی دیکھ بھال پہل ’پروجیکٹ 13-13‘ کا آغا ز
جموں
آپریشنز جاری ،ایک ایک ملی ٹینٹ کو ختم کیاجائیگا بسنت گڑھ میںحال ہی میں4سال سے سرگرم ملی ٹینٹ کمانڈر مارا گیا:پولیس سربراہ
جموں
مشتبہ افراد کی نقل و حرکت | کٹھوعہ میں تلاشی آپریشن
جموں
نئی جموں۔ کٹرہ ریل لائن سروے کو منظوری د ی گئی
جموں

Related

کالممضامین

رسوم کی زنجیروں میں جکڑا نکاح | شادی کو نمائش سے نکال کر عبادت بنائیں پُکار

July 16, 2025
کالممضامین

! عالمی حدت اور ہماری غفلت | ہوا، زمین اور پانی کو ہم نے زہر بنا دیا گلوبل وارمنگ

July 16, 2025
کالممضامین

والدین کی قربانیوں کی کوئی انتہا نہیں

July 16, 2025
کالممضامین

اپنے مستقبل سے جوا بازی کی بھیانک صورتحال | معاشرے کی نوجوان نسل کس سمت جارہی ہے؟ توجہ طلب

July 16, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?