بھارتی صدر رام ناتھ کووند کے ٹیپو سلطان شہید کو زبردست خراج عقیدت نے ہندو انتہا پسندوں کو سیخ پا کر دیا ہے۔جب صدر ہند نے کرناٹک کی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں ٹیپو شہید کی موت کو ہیرو کی موت قرار دیا تو بی جے پی اور دیگر ہندو انتہا پسندآپے سے باہر ہو گئے۔ اورنگ زیب عالمگیر کے بعدعظیم حکمران سلطان سید الشروف فتح علی خان ٹیپو سلطان کے بارے میں تنازعات کھڑے ہوتے رہتے ہیں کیوں کہ ہندو انتہا پسند وں سے ان کی بہادری اور شہادت برداشت نہیں ہو پاتی۔ یہ ٹیپوہی ہیں جنھوں نے دنیا کو راکٹ ٹیکنالوجی دی۔ بھارت میں ہرسال بی جے پی اور ویشنو ہندو پریشد سمیت دیگر ہندو انتہا پسندہنگامے کرتے رہتے ہیںتا کہ ٹیپو شہید کا یوم ولادت نہ منایا جاسکے۔ مسلم حکمران کاجشن ولادت منانا ان کے لئے ناقابل برداشت ہے۔مسلم حکمرانوں پر بے سروپا تہمتیں لگانا ان مزاج بن چکا ہے،جب کہ وہ روادار اور وسیع القلب تھے۔غیر مسلم رعایا کا خاص خیال رکھتے تھے۔ ٹیپو سلطان کو شیر میسو رکہا جاتا ہے ۔ ٹیپو سلطان نے پوری عمر انگریزوں کے خلاف جنگ کی۔ وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا راستہ روکنے میں مصروف جنگ وجدل رہے۔ ایک حکمران تھے، انگریز سے اوروں کی طرح ساز باز یا سودا بازی کر کے آرام دہ زندگی بسر کر سکتے تھے لیکن انھوں نے ضمیر کا سودا کیا نہ اپنی حب الوطنی پر آنچ آنے دی۔ اپنا سکھ اور آرام وطن کی آزادی کے لئے قربان کر دیا۔ 10نومبر ٹیپو سلطان کا یوم پیدائش ہے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس ٹیپو سلطان کے یوم پیدائش کو یوم سیاہ کے طور پر منانا چاہتے ہیں۔ بی جے پی کی حکومت مسلمانوں، دلتوں ، عیسائیوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف انتہائی تعصب روا رکھ کر تاریخ کو دھڑا دھڑمسخ کر رہے ہیں۔ ایک طرف وہ گاندھی کے قاتلوں کو شہید قرار دے کر انہیں قومی ہیرو کے طور پیش کرتے ہیں، دوسری طرف مسلم حکمرانوں خاص طور پر اورنگ زیب اور ٹیپو سلطان سمیت دیگر حکمرانوں کو تواریخ ہند کا فخریہ حصہ تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔ ٹیپو سلطان کی خدمات اور آزادی کے لئے انگریزوں کے ساتھ مسلسل جنگ تاریخ کا زریں باب ہے۔ ٹیپو سلطان نے یہ جنگ صرف مسلمانوں کی آزادی یا دفاع کے لئے نہیں لڑی بلکہ ٹیپو سلطان کی عظیم قربانیوں کی وجہ سے تمام مذاہب اور ذات پات والوں کو آزادی نصیب ہوئی۔ ٹیپو سلطان کی بہادرانہ جدو جہد سے میسور فیضیاب ہوا۔ وہ شیر میسور اسی وجہ سے وہ کہلائے کہ انھوں نے اپنی غیر معمولی بہادری کے ساتھ انگریزوں کو شکست دی۔ پھر نظام حیدر آباد کے ساتھ بھی جنگ کی وجہ یہی تھی۔ مراٹھے بھی عوام کی غلامی چاہتے تھے، نظام اور مراٹھ قوم نے مل کر عوام کی آزادی سلب کرنے کی کوشش کی تو ٹیپو سلطان کو میدان میں آنا پڑا۔ ٹیپو سلطان کی سالگرہ کے پیش آیند موقع پر سنگھ نے جو بوال مچایا مگر کرناٹک کی کانگریس حکومت نے ٹیپو جینتی منانے کا اعلان کیا۔ اس کے خلاف تمام انتہا پسند اور متعصب ہندو ایک ہو گئے ہیں۔یہ انتہا پسند اس دن کو یوم سیاہ کے طور پر منانا چاہتے ہیں۔ بھارت کے آزاد خیال میڈیا کا اصرار ہے کہ بھارت میں ٹیپو سلطان کو ہیرو کا درجہ دینا چاہیے اور ان کی قدر کی جانی چاہیے مگر ایسا نہیں ہورہا۔ میڈیا کا یہ حصہ قلیل ہی سہی مگرسچائی کی جھلک بھی دکھاتا ہے۔ صداقت شعاری کے ساتھ زبان اور کیمرے کے یہ محافظ ٹیپو پر خواہ مخواہ آسمان سر پر اٹھانے والوں سے یہ لوگ گلا پھاڑ پھاڑ کر کہہ رہے ہیں : عقل کے اندھو!ٹیپو عظیم ہندوستانی مجاہد آزادی تھے۔ انہوں نے لڑتے لڑتے شہادت کا جام پیا ۔ ان کے ساتھ اپنوں نے بھی ضمیر فروشی کی مگر یہ میدان عمل میں تن تنہا دشمن کے خلادف ڈٹا رہا۔ جو لوگ آزادی کی جدوجہد کے بجائے مفادات ، مراعات، اقتدار، دولت، شہرت، تن آسانی میں لگے رہے تم ان کو ہی ہیرو کا درجہ دیتے ہو اور دعویٰ یہ ہے کہ ہم دیش بھکت ہیں اور جنہوں نے اپنی جانیں قربان کیں وہ دیش دروہی ہیں ۔ یہ لوگ قوم کو دھوکہ دیتے ہیں، اپنے حقیرمفاد کے لئے قوم کو قربان کرتے ہیں اور جو لوگ تحریک آزادی ہند میں سب کچھ گنوا بیٹھے ان کو غدار واغیار جتلاتے ہیں ۔ اس بات کا فیصلہ تاریخ کے بے باک اوراق کر تے ہیں کہ کون غدار اور کون وفا دار ہیں۔ ٹیپو ، بہادر شاہ ظفر اور ان کے جیسے ہزاروں المرتبت عظیم ہستیاں ہیں جنہوں نے نہ صرف انگریز سے لوہے کے چنے چبوائے بلکہ بے مثال ذاتی قربا نیاں دے کر تحریک آزادی ٔ ہند کو جلا بخشی اور وہ منزل حاصل کی جس پر تاریخ عالم کو فخر ہے، بھلے ہی ہندتو کے حامیوں کو یہ بہت بُرا لگے ۔ یہ ان کے دماغ کا فتور ہی تو ہے کہ انسان تو انسان ان کا تاج محل سے بھی تعصب اور تنگ نظری کا رشتہ ہے ۔ٹیپو سلطان نے خود کو قربان کیا لیکن اگر یہ منہ بولتی حقیقت شر پسندوں کو تسلیم نہیں تو بھی کیا ہے ؟ سورج کو اجالا نہ ماننے سے سچ کا سورج کبھی جھوٹ کا اندھیرانہیںبن سکتا۔ عظیم مجاہد شہیدٹیپو سلطانے ہی بجا طورفرمایا کہ شیر کی ایک دن کی زندگی ،گیدڑ کی سو سال کی زندگی سے بہتر ہے۔