جس دھج سے کوئی مقتل میںگیا وہ شان سلامتی رہتی ہے
یہ جان توآنی جانی ہے اس جان کی توکوئی بات نہیں
فیضؔ
10؍ نومبر کو کرناٹک میں ریاستی سرکار کی طرف سے ہندوستان کے عظیم مجاہد آزادی شہید ٹیپو سلطان کی جینتی سرکاری طورپر منائی جارہی ہے۔ ٹیپو سلطان میسور کے حکمران تھے۔ کرناٹک کے ممبر پارلیمنٹ ہونے کے ناطے مرکزی وزیر اننت کمار ہیگڈے کو بھی قواعد کے مطابق تیاری کمیٹی میں شمولیت کی دعوت دی گئی تھی۔ لیکن جو ا باً ہیگڈے نے ٹیپو سلطان کے خلاف بدزبانی، بدتمیزی اور بد کلامی کرتے ہوئے ٹیپو سلطان کے خلاف نہ صرف دُشنام طرازی کی ہے اور گالی گلوچ سے کام لیاہے بلکہ ٹیپو سلطان جیسے شہید وطن کی زبردست توہین کی ہے جو کہ وزیر موصوف کی فرقہ پرستی ،قدامت پسندی اور یادہ گوئی کی غمازی کرتی ہے۔ بھاجپا لیڈروں کا شیوہ بن چکاہے کہ وہ اپنی ناکامیوں ، ناکردگیوں اور عوام دُشمنی سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے فرقہ وارانہ اور منافرت انگیز پرچار کریں۔ اس لئے وزیر مذکور کی ٹیپو شہید پر بے جا تنقید حیران کن نہیںہے۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ نئی نسل جوکہ تاریخ کے کئی اوراق سے ناواقف ہے کو اصل حقیقت سے آگاہ کیا جائے۔ ٹیپو سلطان عظیم مجاہد آزادی تھے جنہوںنے انگریزوں کے ہندوستان میں پائوں جمانے کی کوششوں کا آخر دم تک مقابلہ کیا اور جدوجہدمیں اپنا سب کچھ بلکہ جان تک بھی قربان کردی۔ اگرچہ بیشتر حلقوں کی طرف سے بدزبان وزیر مذکور کے نازیبا بیان کی سخت مذمت ہوئی ہے لیکن ٹیپو سلطان جیسے مجاہد کو قربانیوں کو جاننا اشد ضروری ہے۔
سلطان ٹیپو کو اس دنیا سے رُخصت ہوئے چارمئی کو دوسو اٹھارہ سال بیت چکے ہیںلیکن سلطان ٹیپو کی عظمت کاثبوت یہ ہے کہ اب بھی اس کا نام لوگوںکے دلوں پر لکھا ہواہے۔ سلطان فتح علی خان المعروف ٹیپو سلطان کاباپ حیدرعلی میسور کاحکمران تھا۔ اس نے انگریزوں کے ساتھ کئی جنگیں لڑیں اور ان میں کامیاب ہوا۔ سلطان ٹیپو نے فن سپا ہ گری اپنے باپ سے سیکھاتھا۔ وہ کمال درجے کا دلیر اور بہادر حکمران تھا جس نے ساری زندگی فرنگی راج کے خلاف جدوجہد میںگزاری اور اسی جدوجہد میں اپنی جان قربان کردی۔ انگریز سلطان ٹیپو کو اپنے استعماری عزائم میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے تھے اور برملا ٹیپو کو اپنابدترین دشمن کہتے تھے۔ حیدرعلی کی وفات کے بعد ٹیپو سلطان میسور کاحکمران بنا۔ اس نے اپنے اقتدار کے دوران عوامی فلاح وبہبودکے لئے بہت کا م کیالیکن انگریزوں نے اسے چین سے نہ بیٹھنے دیا۔ انگریز اس کے ساتھ پے درپے جنگیںلڑتے رہے۔ اس وقت اس علاقے میںانگریزوں کے علاوہ تین بڑی طاقتیں تھیں: ایک سلطان ٹیپو، دوسرا نظام حیدرآباداورتیسرے مرہٹے۔ انگریزوںنے چالاکی اور سازشوں سے نظام اورمرہٹوں کوساتھ ملالیااور ان کو سلطان کے خلاف لے آئے۔ اس وقت دہلی میںمغل بادشاہ کی برائے نام حکومت تھی۔ انگریز آہستہ آہستہ پورے برصغیر پر قبضہ کرتے جارہے تھے۔ انگریز سلطان ٹیپو کو اپنے جارحانہ عزائم میںایک بڑی دیوار خیال کرتے تھے۔ انگریزوں کی سلطان ٹیپو کے خلاف پہلی دو جنگیں انگریزوں کے مقاصدپورے نہ کرسکیں۔ آخرکار برطانیہ سے ایک انتہائی سفاک اور چالاک آدمی کوبلایاگیا اور اسے سلطان ٹیپو کو شکست دینے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اس کا نام لارڈ ولزلی تھا۔ میسور کی آخری لڑائی شروع ہوئی۔انگریزی فوجیں سرنگا پٹم کے قلعے کے باہرکھڑی تھیں۔ قلعہ پر انگریزوں کی گولہ باری جاری تھی۔ چار مئی 1799ء کو صبح سلطان نماز فجر اد اکرکے اپنے خیمے سے باہر آیا۔ وہ سرتا پا فوجی لباس میںملبوس میدان کا ر زار کی طرف جانے لگا۔ شاہی جوتشی جوہندوتھا ،ہاتھ جوڑ کرسلطان ٹیپو کے راستے میںکھڑا ہوگیا۔ کہنے لگا کہ سلطان آج میدان جنگ میںنہ جائیں۔ ستارے نحوست دکھاتے ہیں۔ سلطان نے کہا کہ تم مجھے موت سے ڈرانا چاہتے ہو، تو تمہیں مایوسی ہوگی۔ یہ کہہ کر سلطان ٹیپو گھوڑے پر سوار آگے بڑھ گیا۔ عصر کے وقت اپنوں کی غداری کی وجہ سے انگریزوں کی فوج قلعہ کے اندر داخل ہوچکی تھی۔ سرنگام پٹم کی گلیوں میںسلطا ن کے جانثار سپاہی وفاداری اور غیرت مندی کی تاریخ رقم کررہے تھے۔ سلطان کے جانثار سپاہی کٹ کٹ کر گر رہے تھے۔ سلطان ٹیپو کبھی ایک جگہ اورکبھی دوسری جگہ انگریزی فوج سے لڑرہاتھا اور ساتھ ساتھ ہی وہ اپنے سپاہیوں کاحوصلہ بڑھا رہاتھا۔ اتنے میں فرانسیسی دستے کا جرنیل وہاں آیا۔ فرانسیسی سلطان ٹیپو کی فوج کے ساتھ مل کر انگریزوں کے خلاف جنگ کررہے تھے۔فرانسیسی جرنیل نے کہا کہ ہماری فوج گھیرے میں آچکی ہے۔ شکست سامنے دکھائی دے رہی ہے۔ سلطان معظم آپ قلعہ کے عقبی دروازے سے نکل جائیں۔ میںاپنے فرانسیسی دستوں کے ساتھ آخری سانس تک انگریزوں سے لڑتا رہوںگا۔ آپ کسی اور مقام پر پہنچ کر تازہ دم ہوکر فوج کومنظم کریں۔ سلطان نے اس کی صلاح سن کر قہقہہ مار کرٹالا اور کہا کہ تو نے کیسے یہ سوچ لیا کہ میںتجھے چھوڑ کر بھاگ جائوںگا۔ مجھے جس ماں نے جنم دیاہے، اس نے اپنے دودھ کے ساتھ کے ساتھ مجھے یہ بھی سکھایا ہے کہ جھک جانے سے کٹ جانا بہتر ہوتاہے اور شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے بہترہے۔ سلطان بہادری سے لڑتارہا اور اس کو دو گولیاں لگ چکی تھیں۔شیر میسور پر نقایت کے آثار نمودار ہورہے تھے۔ اچانک ہی ایک گولی سنساتی ہوئی آئی اور سلطان ٹیپو کا سینہ چیر گئی۔ سلطان ٹیپو شہید ہوگیا۔ دوسرے دن سلطان ٹیپو کا جنازہ اٹھایاگیا۔ فضا ساکت ومغموم تھی۔ سلطان کے جانباز جو زخموں سے چور تھے۔ بڑھ چڑھ کر جنازے کو کندھا دے رہے تھے۔ عقیدت کے حیرت انگیز مناظر دکھائی دے رہے تھے۔ بچے، بوڑھے، جوان، عورتیںاورمرد سب دھاڑیں مار مار کر رورہے تھے۔ مولوی نے نماز جنازہ پڑھائی۔ سلطان ٹیپو کو لحدمیں اتارادیاگیا تو لارڈ ولزلی نے تو پیچیوں کواشارہ کیا۔ انگریز سپاہیوں نے توپیں چلائیں۔ آسمان سے بجلی اور بادلوں کی گن گرج گم ہوگئی۔ آسمان والے نے کہا کہ اس کواسلامی میںدوںگا ۔ حق پرستوں کو سلامی آسمان والا دیتا ہے۔ زمین والے سلطان ٹیپو کی جدائی میں رو رہے تھے۔ آسمان پر ایک بہادر شہیدکے استقبال کی تیاریاں ہورہی تھیں۔
ٹیپو سلطان جس نے اٹھارہویں صدی کے آخرمیں ہندوستا ن کوغلامی سے بچانے کی بھرپورکوشش کی لیکن ناموافق حالات، میر صادق جیسے منافقوں کی عیاری اورغیروں سے زیادہ اپنوں کی غداری کی وجہ سے اس کی یہ کوشش بارآورنہ ہوسکی۔ ٹیپو سلطان نے اپنی مختصر سی زندگی میںحکمرانی، وطن دوستی اور جذبہ ٔشہادت کاجونمونہ پیش کیاہے ،اُس کی نظیر ہندستانی تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔
ٹیپو سلطان نے جس وقت دنیا میںآنکھ کھولی، اس وقت مشرقی ہندوستان میںانگریزوں کامنحوس سایہ دراز ہوچکاتھا اور ان کے ناپاک قدم بڑی تیزی سے جنوب کی ریاستوں کو روندھتے ہوئے چلے جارہے تھے۔ ایک ایک کرکے انہوں نے نظام حیدرآباد، مرہٹوں اور آرکاٹ کی حکومتوں کو اپنے دامِ فریب میں پھنسالیاتھا۔ صرف ریاست میسور ان کے ناپاک عزائم کو پوراکرنے میںحائل تھی لیکن انگریز پورے تئیس سال تک ٹیپو سلطان اور ان کے والد حیدرعلی سے نبروآزما رہے اور بالآخر چار مئی 1799ء کو ریاست میسور کوبے انتہا عیاری ومکاری اور دھوکہ بازی سے حاصل کرنے میںکامیاب ہوگئے۔ اپنے والد نواب حیدرعلی کے ساتھ سولہ سال کی عمرسے ہی ٹیپو سلطان شہیدانگریزوں سے مورچہ لیتے رہے۔ میسور کی پہلی جنگ میںجب حیدرعلی اپنی تدابیر سے انگریزوں کو ہراتا اور روندتا ہوا مدراس میں ان کے قلعہ کے دراز تک پہنچ گیا توانگریزوں نے ایک نہایت ہی ذلت آمیز شکست تسلیم کی اورمیسور کے ساتھ اس کی شرطوں پرصلح کرنے کے لئے مجبور ہوگئے۔ اس وقت انگریزں کے جنوبی دارالسلطنت مدراس میںجس فاتح ہند کے شاہی لشکر نے دستک دی ، وہ ٹیپو سلطان شہید کے زیرانتظام تھا۔ یہیںسے ٹیپو سلطان اورانگریزوں کے بیچ جنگ کا آغاز ہوا جو ٹیپو سلطان شہید کی زندگی کی آخری سانس تک چلتی رہی۔
ٹیپو سلطان نے یہ محسوس کرلیاتھا کہ یوروپ کے انقلاب کی بدولت انگریزوں کے پاس جدیدترین اسلحہ اورجنگی ساز وسامان موجود ہیں۔ اس کا مقابلہ پرانے اور فرسودہ جنگی آلات ِ حرب سے نہیں کیا جاسکتا۔اس لئے اس نے بڑے پیمانے پر نئی تکنیک استعمال کرکے جنگی ساز وسامان تیار کروائے۔ اس نے نہ صرف پیدل افواج اور گھوڑسواروں پر خصوصی دھیان دیا بلکہ بحریہ کو بے انتہا مضبوط اور جدیدترین بنایا۔ بحریہ کاقیام ٹیپوسلطان کاایک عظیم کارنا مہ ہے۔ وہ ہندستان کا پہلا حکمران تھا جس نے سمندری راستوں کی اہمیت کااحساس کیا اور اس کاباضابطہ نظم کیا۔ اس نے ہندوستان کے ساحلوں کی حفاظت کے لئے بحر ہند میںبصرہ، بوشہر، عمان اور عدن کی بندرگاہوں کی نگرانی ضروری سمجھی۔ سلطان کی بحری فوج میں گیارہ سیریم Lord of Admirality) (اور تیس امیر البحر تھے جن میں دس ساحل پر اور بیس جہازوں پررہتے تھے۔ ملاحوں یعنی بحری جہازوں کے عملہ کی تعداد دس ہزار پانچ سو بیس تھی۔ یہ ایک حیرت انگیز حقیقت ہے کہ سلطان نے 1799ء میںایک سو جنگی جہازوں کی تیاری کا حکم دیاتھا اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پورا جہاز اپنے تمام کل پرُزوں کے ساتھ ریاست کے اندر ہی بنایا جاتاتھا۔ بقول محمود بنگلوری : ’’مٹی کے مصنوعات ، لکڑی کاکام ، چرم سازی، تیل اور تیل کی دیگر مصنوعات ، صندل ، رسی، قالین ،ہاتھی دانت کاکام، نمک بنانا، کاغذ پر سونے کارنگ چڑھانا اور لطیف ریشم، روئی کی مصنوعات ، لوہے کی مصنوعات ، سلطان ٹیپو کے کمالات کی فہرست کے طورپر پیش کئے جاسکتے ہیں۔
بقول نسیم حجازی:’’ شیر میسور کی فتوحات صرف جنگ کے میدانوں تک ہی محدود نہ تھیںبلکہ وہ بیک وقت ایک ایسا حکمران ،عالم اور مفکر اور مصلح تھاجس کے دل ودماغ کی وسعتوں میںہند کے ماضی کی عظمتیں ، حال کے ولولے اور مستقبل کی آرزوئیں سماگئی تھیں۔وہ ہمیں زندگی کی ہردوڑ میں اپنے وقت سے کئی منزلیں آگے دکھائی دیتاہے۔ اس نے ایک ایسے دور میںفلاحی ریاست کانمونہ پیش کیاتھاجب کہ باقی ہندوستان کے نواب اور راجہ اپنی رعایا کے گوشت اور ہڈیوں پرعشرت کدے تعمیر کررہے تھے۔ اس نے اس زمانہ میںبین الاقوامی اتحاد کے لئے جدوجہد کی تھی جب دیگرممالک اپنے نااہل حکمرانوں کی تنگ نظری، کمزوری ،بے حسی اورباہمی رقابتوں کے باعث مغرب کے سامراجی بھیڑیوں کے لئے ایک عظیم شکار گاہ بنا ئے جاچکے تھے۔ اس نے ہندوستان کے ایک ایسے پسماندہ علاقہ میںعدل و مساوات کے جھنڈے گاڑے تھے، جہاں صدیوں سے جہالت اور افلاس کی تاریکیاں مسلط تھیں۔ حیدرعلی اور ٹیپو سلطان سے قبل میسور کے عوام کی کوئی تاریخ نہ تھی لیکن ان کی حکمرانی کے چند برس پورے ہندوستان کی تاریخ پر چھائے ہوئے ہیں‘‘۔
’’شیر میسور نے اس وقت سلطنت کی زمام کا ر اپنے ہاتھ لے لی تھی جب بھیڑیوں، گیدڑوں اور گدھوں کے لشکر اس کے کچھار کامحاصرہ کررہے تھے اور وہ اس وقت تک ان کے سامنے سینہ سپر رہا۔ جب تک اس کی رگوں کاسارا خون میسور کی خاک میں جذب نہیںہوچکاتھا‘‘۔ ان طویل اورصبر آزما جنگوں کامعمولی جائزہ ہمیں یہ اعتراف کرنے پر مجبور کردیتاہے کہ انگریزوں نے باقی ہندوستانی پر تسلط جمانے کے لئے جو جنگیں لڑی تھیں، وہ اپنی محنت اور وسعت کے اعتبار سے میسور کے معرکوں کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیںرکھتیں۔ بلکہ ہندوستان کی پوری تاریخ میسور کے مجاہدوں کے صبر و استقلال اورایثار واخلاص کی مثال پیش کرنے سے قاصرہے‘‘۔ میسو ر کی دفاعی قوت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ میسور کے بعد جب مرہٹوں کی باری آئی تو سندھیا، بھونسلے اور ہلکر جن کی مجموعی افواج میں نفری کی تعداد میسور سے کہیںزیادہ تھی، چندماہ تک بھی زیادہ ایسٹ انڈیا کمپنی کامقابلہ نہ کرسکے۔اگرٹیپو سلطان شہیدکی جنگی تدابیر کواُجاگر کیاجائے تو معلوم ہوگا کہ جنگی تدابیر ، شجاعت اور بہادری کے لحا ظ سے ٹیپوسلطان شہید کا شمار نیپولین بوناپارٹ اور صلاح الدین ایوبی کی صف میں کیا جاسکتاہے۔ ٹیپو سلطان کی علمی قابلیت ، سیاسی بصیرت ، انتظامی اہلیت، جنگی صلاحیت اور فاتحانہ جرأت اس کی عظمت وبلندی کے نشانات ہیں۔
مورخ آرسی مجومدار ، ایچ سی رائے چودھری اورکالی کنکروٹ ،ٹیپوسلطان کے تاریخی کردار کا جائزہ ان الفاظ میںلیتے ہیں۔ ’’ایک صالح اخلاق وکردار کاانسان ، اپنے طبقہ کی مروجہ برائیوں سے پاک ، وہ بہت ہی تعلیم یافتہ تھا۔ فارسی، کنٹر روانی سے بولتاتھا۔ ایک بیش قیمت کتب خانے کامالک تھا۔ ایک بہادر سپاہی اورایک ہوشیار کماندار کے ساتھ ساتھ ٹیپو سلطان ایک اعلیٰ درجہ کاسیاست کا ر بھی تھا۔اس کاثبوت اس کایہ واضح تصور تھا کہ کسی ہندوستانی حکمران کے بجائے انگلستان ہی اصل دشمن تھا۔ اس کے علاوہ سیاست میں اسے فرانس اور انگلستان کے باہمی تعلقات کا بھی ادراک تھا،اس لئے اس نے اپنے سفیر فرانس اوردوسری جگہوںپر بھیجے۔ اس نے کابل کے زماں شاہ کے ساتھ بھی مراسلت کی۔ اس نے ملک کی آزادی کوہر دوسری چیز سے بلندتر سمجھا اور اس کی حفاظت کی کوشش کرتے ہوئے جان دے دی۔ اپنے بہیترے ہم عصر ہندوستانی حکمرانوں کے برخلاف ٹیپو سلطان ایک قابل اور محنتی فرماں رواتھا۔ ایڈورڈ مور اور میجر ڈیروم جیسے اس کے متعدد انگریز معاصرین بھی اس کے حسن انتظام سے متاثرتھے ۔ انہوں نے بلاتائل اقرارکیاہے کہ ٹیپو سلطان اپنی قلمرو میںکافی مقبول تھا۔ سرجان شور تک کا بیان ہے کہ ٹیپو سلطان کی سلطنت میںکسان محفوظ ہیں اوران کی محنت کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ انہیںاس کا انعام بھی دیا جاسکتاہے۔ ٹیپو سلطان شہید نے ہندوستان میںایک نیا کارنامہ سلطنت کے انتظام میں رعایا کو شامل کرکے انجام دیااور ایک مجلس وطنی، پارلیمنٹ قائم کی جس کا نام ’’زمرو غم نہ باشد ‘‘ رکھاگیایعنی شخصی اقتدار کے بجائے مشاورتی حکومت کاقیام کیاتاکہ حکمرانوں میںجو مطلق العنان بادشاہت اور آمریت کے جذبے پیدا ہوتے ہیں، وہ ختم ہوجائیںاور سلطان وقت ایک آئینی حکمران بن جائے اور جس کے لئے دستور اور ضابطہ ٔاخلاق کی پابندی لازمی ہو۔ ٹیپو سلطان نے سیاسی، معاشی ،فوجی اور انتظامی اصلاحات کے ساتھ ساتھ مذہبی و اخلاقی اصلاحات بھی جاری کیں۔ اس نے سماج میں پھیلی ہوئیں تمام بدعات اور خرافات پرپابندی عائدکی جسے جان بوجھ کر احمدآباد، گول کنڈہ اور بیجاپور کی ریاستوں نے فروغ دیا تھا۔ منشیات ممنوع قراردی گئیں۔ ذات پات کے فرق کو کم کرنے کی حتی ا لوسع کوششیںکیں۔ بقول مصنف :’’ ہرشہر اور ہرقریہ میں ایک پنچایت مقرر تھی۔ قدیم دستور کے مطابق ہرگائوں میںٹیپل معمولی تنازعات کاپنچایت کی رائے سے فیصلہ کردیتاتھا،تعلقہ او ر ضلعوں میںعامل فیصلے کرتے تھے۔ اگر فریقین کو اس فیصلہ سے تشفی نہ ہوتی تومقدمہ عدالت اور اس کے بعد سلطان تک پہنچا جاتاتھا۔ صدر عدالت میںدو حاکم ِعدل رہتے تھے: ایک مسلمان اورایک ہندو۔ اوریہ بھی پنچایت کے ذریعہ ہی فیصلہ کرتے تھے۔ کچھ نئے پرانے لکھنے والے متعصب لوگوںنے غلط طورپر ٹیپو سلطان کو ایک بے رحم، خون خوار، ظالم و ستم شعار آمر اور شدید جنونی قراردیا ہے۔ حلانکہ وہ کوئی شدت پسند و متعصب سلطان نہیںتھا۔ ٹیپو کے لکھے ہوئے خطوط کی دریافت اور ان کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ ’’و ہ ہندو رائے عامہ کوہموار کرنا جانتاتھااورمذہبی طورروا دار تھا۔ اگرچہ وہ ایک متقی مسلمان تھا مگر اس نے اپنی ہندو رعایا کا مذہب تبدیل کرنے کی کوئی سی ادنیٰ کوشش بھی کبھی نہیںکی، جیسا کہ دلکش ؔکے بیان نے غلط طورپر یقین دلانے کی کوشش کی ہے‘‘ یعنی سلطان نے سیکولر بنیادوں عدل گستری کی اوربہت کم مقدمات وتنازعات عدالتوں کے سامنے ا ٓنے لگے۔ اگر غیر جانب داری سے غور کیاجائے تو معلوم ہوتاہے کہ ٹیپوسلطان کی حکومت درحقیقت ایک فلاحی ریاست تھی۔ مورخ سنکلیر اپنی’’ تاریخ ہند‘‘میںلکھتاہے : ’’جس وقت انگریزی فوجیں ٹیپو سلطان کے ملک میںداخل ہوئیں تودیکھا گیا کہ تمام رعیت (ہندو اورمسلمان) نہایت خوشحال ہے۔ ٹیپو سلطان کی ایک چھوٹی سی ریاست میںاٹھارہویں صدی میں جاگیرداری کاخاتمہ کرنا ایک طرح سے جمہوریت کاآغاز تھا۔ سلطان نے زمین داری کے نظام کو ختم کرکے زمین کوحکومت کی ملکیت قراردیا۔ اس طرح کے دلیر اور وطن کے سپوتوں کے بارے میں کسی نے خوب کہا ہے ؎
تم ہی سے ا ے مجاہدو! جہاں کو ثبات ہے
شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے